جمہوریت کو جمہوریت ہی بچائے گی

عبدالقادر حسن  ہفتہ 12 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جمہوریت کی بقاء جمہوریت میں ہی ہوتی ہے اور کوئی غیر جمہوری طریقہ جمہوریت کے بقاء کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ غیر جمہوری طریقے سے جمہوریت کی نگہداشت کے بجائے اس کو نقصان ہی پہنچتا ہے لیکن ہم جمہوریت کو بچانے کے لیے غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے جمہوریت مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر اکثر اوقات یہ ہمارے جیسے کمزور جمہوری ملک سے اپنی کمزوری کی وجہ سے غائب ہوجاتی ہے بلکہ غائب کر دی جاتی ہے۔

ہماری ملکی تاریخ میں آج تک جمہوری حکمرانوں نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے اقتدار کی مدت پوری نہیں کی اور اس حسرت میں ہی رہے کہ وہ آئین کے اندر رہ کر ہی جمہوری حکومت کی معینہ مدت پوری کر سکیں لیکن کمزور جمہوری نظام نے ان کو اس کا کبھی بھی موقع نہیں دیا اور وہ یہ حسرت دل میں ہی لیے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہو گئے اور یہ رونا روتے گئے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ ایک جمہوری حکومت کو ختم کر دیا گیا لیکن کیا ان حکمرانوں نے اس بارے میں کبھی غور کیا کہ ہر دفعہ جمہوری حکومت ہی اپنی آئینی مدت پوری کیوں نہیں کر پاتی۔

اقتدار میں آتے ہی حکمران عوام سے رابطہ تقریباً ختم کر لیتے ہیں اور ان سے دور ہو جاتے ہیں جیسے عوام ان کے نہیں کسی اور ملک کے ہوں یا کسی اور ہی مخلوق سے ان کا تعلق ہو۔ وہ بہت جلد یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے ہی وہ منتخب ہو کر اقتدار کی سیڑھیوں تک پہنچے ہیں اور عوام سے رابطہ میں ہی ان کی بقاء ہے لیکن اقتدار بڑی ظالم چیز ہے یہ سب کچھ بھلا دیتا ہے اس کی آنکھیں اور کان نہیں ہوتے بلکہ حکمران صرف وہی سنتے ہیں جو ان کے کانوں کو بھلا اور آنکھوں کو اچھا دکھتا ہے۔

ہماری موجودہ منتخب جمہوری حکومت کو ایک بار پھر جمہوریت خطرے میں نظر آرہی ہے اور یہ جمہوریت خطرے میں تب نظر آئی ہے جب پارٹی کی حکومت تو برقرار ہے لیکن فرد واحد کو ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے پانچ معزز ججوں نے ایک متفقہ فیصلے سے نااہل قرار دے کر حکمرانی کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں جمہوریت شدید خطرات سے دوچار ہو گئی ہے باوجود اس کے کہ حکمران جماعت نے اپنی پارٹی سے نیا وزیر اعظم بھی منتخب کر کے اسے اقتدار کی مسند پر بٹھا بھی دیا ہے لیکن چونکہ پارٹی قائد کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم کر دیا گیا ہے اس لیے جمہوری نظام کو لپیٹنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کہ ملک کے اس سب سے بڑے منصب سے اپنے اقتدار کی مدت پوری کیے بغیر تیسری دفعہ رخصت ہونے پر مجبور ہوئے ہیں انھوں نے پہلے تو اپنے خلاف اس فیصلے کو تسلیم کیا لیکن ان کے ساتھیوں کی جانب سے اس پر مسلسل تحفظات کا اظہار ہوتا رہا اور وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ایک منتخب وزیر اعظم جس کو عوام نے منتخب کیا تھا اس کو چند ججوں کے فیصلے نے اقتدار سے الگ کر دیا ہے۔ زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ اگر نواز شریف وزیراعظم برقرار رہیں تو جمہوریت بچی رہے گی لیکن ان کے بغیر وہ جمہوریت کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔

میاں نواز شریف سیاست میں شرافت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ وضع داری کے ساتھ سیاست کی ہے مگر ان کے موجودہ سیاسی انداز کو دور سے دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ایک بدلے ہوئے سیاستدان نواز شریف ہیں جو کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ زیادتی کی گئی اور اب وہ مزید اس کو برداشت کرنے یا ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ فیصلہ کر لینا چاہتے ہیں کہ ملک میں یا تو جمہوری سیاست ہو گی اور یا پھر غیر جمہوری قوتیں حکمرانی کریں گی لیکن یہ فیصلہ کرنے میں شاید انھوں نے دیر کر دی ہے اور سیاسی فیصلوں میں دیر ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے جس کو وہ اب بھگت رہے ہیں۔

وہ تسلسل کے ساتھ کسی سازش کا ذکر کرتے رہے ہیں اور وقت آنے پر اس کو بے نقاب کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے سازش ہو رہی تھی اور بالآخر وہ اس سازش کا نشانہ بھی بن گئے تو کیا وجوہات ہیں کہ وہ اس سازش کو بے نقاب کرنے سے قاصر رہے اور اپنا اقتدار گنوا بیٹھے۔ ان کو تو قبل از وقت اس مبینہ سازش کو بے نقاب کر دینا چاہیے تھا تا کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچا لیتے جس سے ان کا اقتدار بھی بچا رہتا۔

اب وہ واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو معلوم تھا کہ ان کو اقتدار سے ہٹایا جا رہا ہے اور آیندہ بھی ان کے خلاف جو کیس احتساب عدالت میں بھجوائے گئے ہیں ان کا فیصلہ بھی ان کے خلاف آئے گا۔ وہ جب یہ سب جان رہے ہیں تو وہ کون سی مجبوری ہے جس نے ان کی زبان کی تالہ بندی کی ہوئی ہے اور وہ جانتے بوجھتے بھی کچھ بتانے سے قاصر ہیں اور اپنے طویل سیاسی سفر کو دلدل میں دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔

میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام ان کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں لیکن کوئی اور ان کو چلتا کر دیتا ہے جو کہ ان کو منظور نہیں۔ انھوں نے پہلی دفعہ کھل کر اپنے خلاف دیے گئے عدلیہ کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ انھوں نے اس کو عوامی رائے کی توہین بھی کہا ہے۔

میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کے خلاف بیان کوئی اچھا شگون نہیں اس فیصلے کو نہ ماننے کا اعلان کر کے ملک میں سے انصاف کا جنازہ نکالنے کی بات کر رہے ہیں اگر وہ اپنے خلاف فیصلے سے متفق نہیں اور اس کو نامنظور کرتے ہیں تو انھوں نے شاید بات پر غور نہیں کیا کہ جب ملک کی ایک بڑی پارٹی کا سربراہ عدالتوں کے فیصلوں سے انکاری ہے تو پھر ان عدالتوں کے فیصلے کون مانے گا کیا یہ بات ملک سے انصاف کے خاتمے کی بات نہیں کہی جا سکتی۔

ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس فیصلے سے ان کو سیاسی نقصان پہنچایا گیا ہے اور وہ اس کے خلاف اپیل کر یں گے جیسے کہ ایک دفعہ پہلے بھی وہ اپنی حکومت عدالت سے ہی بحال کرا چکے ہیں ان کو ایک بار پھر عدالت سے ہی رجوع کرنا چاہیے اور اپنی بے گناہی کے ثبوت دینے چاہئیں تا کہ وہ اپنے آپ کو ملکی سیاست کے لیے اہل کرا سکیں کیونکہ ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ میاں نواز شریف کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے اور انھیں اس کردار کو ادا کرتے رہنا ہوگا۔

اس ملک نے ان کو بہت کچھ دیا ہے اب ان کو اس بہت کچھ میں سے کچھ تھوڑا بہت اس ملک کو واپس بھی کرنا ہوگا۔ اسی میں ان کی برتری ہے اور وہ یہ برتری اپنے عمل سے قائم رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مزید سیاست کرنا چاہتے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔