کیا آپ ریاست ہیں؟

اکرام سہگل  ہفتہ 12 اگست 2017

چالیس برس ہوتے ہیں جب جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ ابتدائی طور پر ضیاء نوّے دن کے اندر ’’آزادانہ اور شفاف انتخابات‘‘کے وعدے میں سنجیدہ تھے۔ پھر بھٹو کی منتقم مزاجی کے آثار  ظاہر ہونے  لگے، بدلتے سیاسی حالات نے اس امکان کو ہوا میں تحلیل کردیا اور ضیاء الحق مطلق طاقت کی آرزو کے گرفتار ہوگئے۔

ایک سرد و گرم چشیدہ سیاست دان کی طرح بھٹو نے 5 جولائی کی فوجی بغاوت  کے جواب میں ٹھنڈے دماغ سے قدم اٹھانے کے بجائے جارحیت کا راستہ اختیار کیا۔

وہ اپنی سیاسی قوت کو سڑکوں پر لے آئے جس کے بعد عسکری قیادت نے ان سے نمٹنے کا حتمی فیصلہ کیا۔ اپریل 1979ء میں بھٹو کی پھانسی کے بعد جو خلا پیدا ہوا اسے بدعنوان سیاست دانوں کی نئی کھیپ نے پُر کیا۔آج سیاسی منظر نامے پر نمایاں قیادت میں سے بڑی تعداد ضیاء دور میں منعقدہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی پیدوار ہے۔

ایک فوجی آمر کے فرماں بردار سیاسی شاگرد نواز شریف کو تین بار وزارت عظمٰی سے برطرف کیا گیا۔ پہلی مرتبہ 1993ء میں اسٹیبلشمنٹ نے صدر غلام اسحق خانے کے ذریعے، دوسری مرتبہ مشرف کی برطرفی کے ردعمل میں فوج نے، انھیں منصب سے اتارا۔ 2017ء میں عدالت کے ذریعے وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔ فوج کے خلاف  واویلا کرنا نواز شریف کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر 1993ء میں جنرل وحید کاکڑ غلام اسحق خان کو رخصت نہ کرتے تو کبھی شفاف انتخابات نہ ہو پاتے۔

نواز شریف اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ماحول میں کشیدگی پیدا کرکے وہ عدالتوں کو رام کرلیں گے اور نیب میں ان کے خلاف ریفرنسز کی کارروائی روک دی جائے گی۔ کیا نیب شریف خاندان کے خلاف جے آئی ٹی کے جمع کردہ ٹھوس شواہد نظر انداز کرسکے گی؟ حالات بہت بدل چکے۔

ذوالفقار بھٹو کے مقابل 1977ء میں عمران خان جیسا متحرک سیاسی حریف نہیں تھا اور نہ ہی انھیں عدلیہ کی جانب سے دفعہ 190کے تحت احکامات کے اجرا کا چیلنج درپیش تھا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نومبر یا دسمبر 2017ء میں قبل از وقت انتخابات کی منصوبہ بندی کرچکی ہے اور اب فوج یا عدلیہ کے ہاتھوں سیاسی ’’شہید‘‘ ہونے کی خواہش اسے بے چین کیے ہوئے ہے۔ نواز شریف عدلیہ پر سازش کا الزام دھرتے ہیں اور نااہلی کے واضح فیصلے باوجود سوال کرتے ہیں ’’میرا قصور کیا ہے؟‘‘

حکومت اور حزب مخالف نے آئین پاکستان کی دفعہ 62 اور 63 کی اہمیت کو نظر انداز کیے رکھا اور اب حکمراں جماعت کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔نوازشریف کے جانشیں شاہد خاقان عباسی ان آئینی دفعات میں ترمیم یا منسوخی کا اشارہ دے چکے ہیں۔ میاں نواز شریف اور پاکستان کی سیاسی اشرافیہ جاگیردارنہ ذہنیت رکھتی ہے، اسی لیے ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جدید ریاست افراد، خاندان اور قبیلہ یا برادریوں کی مرہون منت نہیں ہوتی،اسے ادارے چلاتے ہیں۔ قوانین اور ادارے ہی ریاست کو مستحکم بناتے ہیں، جو حکمران انھیں کمزور کرتے ہیں وہ دراصل ملک کی جڑیں کمزور کرتے ہیں۔

انتظامیہ اور پارلیمان کی طرح منتخب حکومت، عدلیہ، فوج اور سب سے بڑھ کر آئین ریاست پاکستان کی بنیادیں ہیں۔ان میں سے کسی ایک کو بھی کمزور کرنا یا ان کی توہین کرنا ریاست پاکستان کی بنیادوں پر وار کرنے کے مترادف ہے۔ ملکی قوانین کو حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشنے کی خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا اور نہ ہی انھیں بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور قومی خزانے میں نقب زنی کے لیے کسی کے ہاتھوں کھلونا بننے دیا جاسکتا ہے۔ ایسے مجرمانہ حربے ریاست کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

حکومت سندھ جس پھرتی سے نیب قوانین کو صوبے میں ناقابل اطلاق بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہی ہے، یہ اسی رویے کی ایک مثال ہے۔ خود کو آئین وقانون سے مستثنیٰ سمجھنے والے خام خیالی کا شکار ہیں۔ بہروپ بدلتی جاگیردارانہ ذہنیت کب تک باقی رہے گی۔

پاکستانی سماج عدم مساوات کے بنیاد پر طبقات میں تقسیم ہے، ایک ماڈرن اور جمہوری معاشرے کا قیام  ایک خواب ہے۔خاندان، ذات برادری اس طبقاتی تقسیم کو پختہ کرتے ہیں اور لیڈروں کو مطلق طاقت فراہم کرنے کے لیے معاون ہیں۔ ہمارا یہ موجودہ سماجی ڈھانچہ جاگیردارانہ ہے، ماڈرن سوسائٹی سے کوسوں دور۔ تبدیلی کا عمل سست ہے اور ابھی تک اتنا پُرقوت نہیں ہوسکا کہ جدید ریاست کی بنیادیں استوار کی جاسکیں۔ موجودہ صورت حال میں اس کے اثرات برعکس ہورہے ہیں۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے والی مضبوط ریاست کی عدم موجودگی میں ذات برادری کا یہی روایتی ڈھانچا فرد کے سماجی تحفظ کا ضامن بنا ہوا ہے۔

اداروں اور قوانین کو مستحکم کرنے کے لیے تعلیم اور معاشی شعبے کی ترقی کے لیے شعوری جدوجہد لازم ہے۔ ماڈرن تصور ریاست میں آئین کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور دیگر ریاستی اداروں کی مداخلت سے آزاد دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے خود مختار عدلیہ آئین و قانون کی تشریح کا کلی اختیار رکھتی ہے۔

دوسرا ناگزیر ادارہ فوج ہے جو ملک کی داخلی اور خارجی دفاع کا ذمے دار ہے۔ بنیادی طور پر دیگر اداروں کی اپنی ذمے داریوں سے روگردانی، جن میں پارلیمان سر فہرست ہے، کے باعث ہمارے ہاں فوج کا کردار غیر معمولی ہوچکا ہے۔فوج کو حکمرانی سے دور ہی رہنا چاہیے اور نہ ہی بطور ادارہ فوج کے سیاسی کردار کو سود مند قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست کی ساخت میں پیدا ہونے والے عدم توازن کی ایک تاریخ ہے اور پاکستانی سوسائٹی کو جدید بنیادوں پر تشکیل دیے بغیر یہ توازن بحال نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام آباد سے لاہور کا رُخ کرنے والی ریلی آئین و قانون کی کھلی توہین نہیں تو اور کیا ہے۔ کم و بیش پوری وفاقی کابینہ کنٹینر پر سوار ہے اور پاکستان کا کاروبار حکومت معطل ہو چکا ہے۔ اپنے خلاف ہونے والے فیصلے کے خلاف سوال اٹھانا ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن اس کے لیے متعلقہ فورم موجود ہے۔ان فورمز سے رجوع کرنے کے بجائے ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے سیاسی رہنما کا ملک کے اہم ترین اداروں کے خلاف زبان طعن دراز اور الزامات کی بوچھاڑ کرنا خطرناک بھی ہے۔ کیا عوامی مینڈیٹ کی آڑ میں آئین و قانون کو پامال کیا جاسکتا ہے؟ اگر احتسابی عمل جاری نہ رہا تو ملک انتشار کا شکار ہوگا۔

خوف زدہ انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ جی ٹی روڈ پر نوازشریف علم بغاوت بلند کرنے کا جو تاثر دے رہے ہیں وہ محض عوامی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے، حقیقت یہ ہے کہ نیب کے ریفرنسوں میں سزا کا خوف انھیں سڑکوں پر لے آیا ہے۔ فرانس کے شاہ لوئی شانز دہم نے کہا تھا ’’میں ہوں ریاست‘‘ ہمارا حکمران طبقہ اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ یہی اصرار تو کررہا ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔