حمایت علی شاعر بانوے برس کے ہوگئے (حصہ دوم)

یونس ہمدم  ہفتہ 12 اگست 2017
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

اب حمایت علی شاعر جب ہندوستان کسی آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کرنے جاتے تھے تو وہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوتی تھی اور ترنم کے ساتھ سارے ہندوستان میں بھی ان کو پسند کیا جانے لگا تھا۔ ان دنوں ڈھاکا میں بھی اردو مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا تھا اور حمایت علی شاعر جب بھی کسی مشاعرے میں شرکت کرنے کے لیے ڈھاکا جاتے تھے تو معروف شاعر سرور بارہ بنکوی کے گھر قیام کیا کرتے تھے سرور اور شاعر کی دوستی بھی ان دنوں بے مثال تھی اور دونوں یک جان دو قالب مشہور تھے۔ انھی دنوں حمایت علی شاعر کا پہلا شعری مجموعہ ’’آگ میں پھول‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا جسے ادبی حلقوں میں بڑا سراہا گیا تھا اور 1959 میں ’’آگ میں پھول‘‘ کو صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

حمایت علی شاعر کا وہ دور بڑا درخشاں دور تھا پاکستان میں بھی ان کو بحیثیت ایک پسندیدہ شاعر کے اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا جا رہا تھا۔ اسی زمانے میں پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرف سے ان کے مجموعہ کلام ’’مٹی کا قرض‘‘ پر 1974 آدم جی ایوارڈ دیا گیا ان کے مجموعہ کلام ’’ہارون کی آواز‘‘ پر 1985 میں علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا پھر 1987 میں لاہور کا نقوش ادبی ایوارڈ ان کے حصے میں آیا۔

ہندوستان میں بھی انھیں کئی ایوارڈز دیے گئے جن میں مخدوم محی الدین عالمی ایوارڈ، لکھنؤ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، اردو عالمی کانفرنس (دہلی) ایوارڈ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اردو ادب ایوارڈز بھی دیے گئے جن میں 2002 میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس میں فخر اردو ایوارڈ نیو جرسی میں ایسٹرن آرٹ فورم ایوارڈ اور لائف لانگ لٹریری اچیومنٹ 1994 میں دیا گیا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں ان کے ادبی دنیا سے فلمی دنیا کے سفر کی طرف آؤں ان کی اس خوبصورت نظم کا تذکرہ کرتا چلوں جو نظم حمایت علی شاعر کی فلمی دنیا میں آنے کا باعث بنی۔ نظم کا عنوان تھا ’’ان کہی‘‘ موسیقار خلیل احمد جن کا تعلق بھی حیدرآباد دکن ہی سے تھا وہ ریڈیو پر ان دنوں کمپوزر تھے اور حمایت علی شاعر کی ان سے بڑی گہری دوستی تھی۔

اسی زمانے میں حمایت علی شاعر کی ایک نظم ’’ان کہی‘‘ کو مشاعروں میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ موسیقار خلیل احمد نے گلوکار سلیم رضا کی آواز میں وہ نظم ریڈیو کے لیے ریکارڈ کی اور پھر جب نظم ریڈیو سے نشر ہوئی تو ’’ہاٹ کیک‘‘ ہوگئی اور پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے تقریباً روزانہ ہی نشر ہوا کرتی تھی۔

سلیم رضا کا وہ دور تھا اور اس کے گیتوں کی اس زمانے میں بڑی دھوم تھی۔ حمایت علی شاعر کی اس نظم کی بھی بڑی دھوم مچی۔ حسن اتفاق کہ ہدایت کار الحامد نے کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں ایک فلم بنانے کا اعلان کیا اور سب سے پہلے خلیل احمد کو اپنی فلم کا موسیقار منتخب کیا۔ خلیل احمد نے ہدایت کار الحامد کو حمایت علی شاعر کی وہ نظم سنائی الحامد نے اس نظم کو اپنی فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے منتخب کرلیا اور پھر نئے سرے سے اسے ایسٹرن اسٹوڈیو میں سازندوں کی ایک فوج کے ساتھ ریکارڈ کرایا تو اس نظم کا حسن اور نکھر کے آیا۔

فلم ’’آنچل‘‘ کا اسکرپٹ مشہور ادیب اورکالم نگار ابراہیم جلیس لکھ رہے تھے۔ انھوں نے بھی اس نظم کو بہت پسند کیا اور الحامد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے حمایت علی شاعر سے بھی کچھ گیت لکھوائیں۔ اس سے پہلے کہ میں بات کو آگے بڑھاؤں فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے ریکارڈ کی گئی نظم کا کچھ حصہ قارئین کی نظر کرتا چلوں:

تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

تیری زلفیں تری آنکھیں ترے عارض ترے ہونٹ

کیسی انجان سی معصوم خطا کرتے ہیں

تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تناؤ

جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے

……

جانے اس حسن تصور کی حقیقت کیا ہے

جانے ان خوابوں کی قسمت میں سحر ہے کہ نہیں

جانے تو کون ہے میں نے تجھے سمجھا کیا ہے

جانے تجھ کو بھی مرے دل کی خبر ہے کہ نہیں

تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

جب مذکورہ نظم فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے ریکارڈ ہوئی اور پھر دوبارہ سے ریڈیو سے نشر ہوئی تو اسے مزید شہرت حاصل ہوتی چلی گئی۔ پھر فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے حمایت علی شاعر نے کئی اور گیت بھی لکھے اور ایک گیت احمد رشدی کی آواز میں بڑا مشہور ہوا جس کے بول تھے۔

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو

خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو

فلم ’’آنچل‘‘ کی فلم بندی کراچی ہی میں کی گئی تھی فلم میں شمیم آرا اور کمال مرکزی کردار میں تھے۔ فلم ’’آنچل‘‘ جب نمایش کے لیے پیش ہوئی تو باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی اور یہ بھی ایک حسن اتفاق تھا یا حمایت علی شاعر کا کمال کے فلم ’’آنچل‘‘ کا احمد رشدی کا گایا ہوا گیت اتنا ہٹ ہوا کہ اس سال نگار پبلک فلم ایوارڈ میں بہترین گیت کے ایوارڈ کا حقدار ہوا اور حمایت علی شاعر کو سال کے بہترین نغمہ نگار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور اس طرح حمایت علی شاعر کا پہلا فلمی گیت فلمی دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا، پھر کراچی کی ایک فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ اور اس کے بعد ’’دل نے تجھے مان لیا ‘‘ میں بھی حمایت علی شاعر نے گیت لکھے اور ان کے خوبصورت گیتوں کی گونج لاہور کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی تو پھر لاہور کے کئی فلمسازوں نے بھی ان کو لاہور آنے کے پیغامات بھجوائے۔ اس طرح حمایت علی شاعر بھی کراچی سے لاہور شفٹ ہوگئے۔

لاہور میں جس پہلی فلم کے لیے گیت لکھے وہ ’’اک تیرا سہارا‘‘ تھی اس فلم نے حمایت علی شاعر کو ایسا سہارا دیا کہ وہ لاہور کے نامور فلمساز قدیر غوری کی آنکھوں میں سما گئے اور پھر جب ان کی فلم ’’دامن‘‘ کے لیے حمایت علی شاعر کا لکھا ہوا گیت ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا تو شاعری اور جادو بھری آواز نے ان کے لکھے ہوئے گیت کے نشے کو دوآتشہ کردیا تھا اور وہ گیت تھا:

نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے

جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جاسکو گے

نہ چھڑا سکو گے دامن

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔