آخر ہمارا قصور کیا ہے؟

جبار جعفر  ہفتہ 12 اگست 2017

انسان کی جیسی خوراک ہوتی ہے ویسے ہی اس کا مزاج تشکیل پاتا ہے مثلاً سبزی خور نرم مزاج اور امن پسند ہوتا ہے جب کہ گوشت خور گرم مزاج اور جھگڑالو۔ جس کو سری پایے کھانے کا شوق ہوتا ہے اس کو جو سامنے آیا ٹکر مارنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ یہ دیکھتا ہی نہیں کہ سامنے والا کون ہے۔ اس کو سمجھانے کی کوشش کرنے سے بہتر تو یہی ہے بھینس کے آگے بیٹھ کر بین بجائی جائے۔ کم ازکم اثبات میں سر تو ہلاتی رہتی ہے۔

ملزم کے مجرم ہونے کا ایک ہی پکا اور آزمودہ ثبوت یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ سراسر جھوٹ بولتا ہے۔ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سچ بول ہی نہیں سکتا اگر بولتا ہے تو یہ اس کا اقبال جرم بن جاتا ہے۔ مسئلہ سچ بات کہنے کا نہیں بلکہ سچ بات بتانے کا ہے جو انتہائی شرمناک ہوتی ہے۔

سامنے کی بات ہے قیادت والے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے اندر کا حال تو اوپر والا اور قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے لیکن سب کے سب باہر آکر یہی دعویٰ کرتے رہے کہ انھوں نے ساری جے آئی ٹی کو صرف ایک سوال سے لاجواب کردیا کہ ’’ہمیں یہ تو بتایا جائے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘

سوال یہ ہے کہ پھر سابق وزیر اعظم نے بطور پیش بندی قبل از ’’عدالتی پکڑ‘‘ قومی اسمبلی میں کن الزامات کی وضاحت پیش کی تھی؟ اس وقت تو پانچ رکنی سپریم کورٹ کا بینچ تھا نہ جے آئی ٹی۔ آج بھی ان کے تاریخی الفاظ کی صدائے بازگشت فضا میں گونج رہی ہے۔ یہ ہیں وہ ذرایع، یہ ہیں وہ وسائل جن سے لندن کے چاروں فلیٹ خریدے گئے جن کی ساری متعلقہ دستاویزات معہ ثبوت کے موجود ہیں جن کو وقت آنے پر پیش کردیا جائے گا۔

بیس کروڑ عوام کے نمایندوں سامنے قومی اسمبلی کے فلور پر دیا گیا یہ بیان مفصل، مکمل اور مدلل تھا کیا اس کے بعد کسی مائی کے لعل کو ان کے خلاف انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی؟ لیکن افسوس کہ اس وقت سابق وزیر اعظم کے بیان پر جن کے سر فخر سے بلند ہوگئے تھے آج وہ بغلیں جھانک رہے ہیں کیونکہ جب سچ بتانے اور ثبوت دکھانے کا وقت آیا تو بھید کھلا کہ وہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا۔ سپریم کورٹ کے فلور پر خود سابق وزیر اعظم نے قطری شہزادے کا خط پیش کرکے یہ اعتراف کرلیا کہ ان کا اسمبلی میں دیا گیا بیان ایک سیاسی بیان تھا جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ (اس لیے وہ صادق اور امین نہیں ہیں)۔ اس کے فوری بعد الیکشن کمیشن کو حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن وہ ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن لینے تک۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کے نقش قدم پر چلنے کے چکر میں تو مارے نہیں گئے؟ جو ان کا رول ماڈل ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ناممکن خواہش ہے۔ کیونکہ طیب اردگان اور ہمارے سابق وزیر اعظم کی پرورش تعلیم و تربیت میں انیس بیس کا نہیں بلکہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ طیب اردگان کا تعلق عوامی، غیر عوامی، اٹھان عوامی ہے اقتدار ملنے پر ان کا دماغ تانا شاہی کیسے ہوسکتا ہے؟ بچپن میں وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر صبح کے وقت راہ گیروں کو انڈے ڈبل روٹی بیچتے تھے۔ گلیوں میں رل کر جوان ہوئے۔

وہ آج بھی فطرتاً اسٹریٹ فائٹر ہیں، پیچھے ہٹنا نہیں جانتے۔ اس وقت ترکی کے شہر استنبول پر ان گنت مافیاز کا قبضہ تھا۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، کھلے عام منشیات فروشی عام تھی۔ بہ حیثیت استنبول کے میئر کے انھوں نے استنبول کو مافیاز کے قبضے سے نجات دلانے کا تہیہ کرلیا۔ وہ درباریوں کی آڑ میں کام نہیں کرتے۔ وہ براہ راست مافیاز کے خلاف ڈٹ گئے۔ ان کے ماتحت مقامی پولیس تھی اور تاجر ان کے پیچھے، عوام ان کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوگئے۔ طیب اردگان نے انتہائی سفاکی سے چن چن کر مافیاز کو کچل کر رکھ دیا۔ اس کے بعد اپنے شہر استنبول کے علاوہ ترکی کے عوام کے دلوں پر بھی راج کرنے لگے۔

یہ وزیر اعظم اس لیے تو نہیں بنے کہ ان کے ابا جی وزیر اعظم تھے بلکہ شفاف انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہوئے۔ بہ حیثیت وزیر اعظم تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی تعداد اور ترقیاتی کاموں کی رفتار میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ملک کو بیرونی قرضوں سے آزاد کیا صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے پرامن ماحول، لاجواب انفرااسٹرکچر مہیا کیا ، پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ماضی قریب میں ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی یہ چھٹیوں پر تھے واپس آئے اور میدان کارزار میں کود پڑے۔ اس سے پہلے ہی عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اور ٹینکوں پر چڑھ کر بغاوت کو ناکام بنا چکے تھے۔ کسی سیاستدان نے آج تک یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہمارے ملک میں ایسے موقعے میں بھنگڑا کیوں ڈالا جاتا ہے۔ مٹھائیاں کیوں کھائی اور کھلائی جاتی ہیں۔

میدان جنگ میں،میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے (فلموں میں) آگے ایک ٹینک چل رہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے پیچھے پیدل فوج کا ایک دستہ بھی ایڈوائس کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ٹینک سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ان کی زبان پر ٹینک کے عملے کی سلامتی کی دعائیں اور دل میں ٹینک کی سلامتی کی تمنائیں ہوتی ہیں۔ لیکن جوں ہی دشمن کی توپ کا کوئی گولہ ٹینک کو لگا اور وہ ناکارہ ہوگیا تو صرف ٹینک کا عملہ ہی ٹینک میں پھنسا رہ جاتا ہے۔ یہ پیچھے چلنے والے پیدل دستے کے سپاہی پلک جھپکتے میں Coverage کے لیے جدھر منہ اٹھا اس طرف دوڑ لگاتے ہیں۔

اس وقت میاں نواز شریف ٹینک پر سوار آگے چل رہے ہیں لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے جوق در جوق ان کے قبیلے کے دیگر افراد خلوص دل سے میاں نواز شریف کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ایڈوائس کر رہے ہیں۔ لیکن جس دن نیب کے کسی ریفرنس نے اپنا کام دکھایا۔ پلک جھپکتے میں نواز شریف کے پیچھے ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے بعد والا منظر ہوگا۔

خیال رہے سڑکوں پر عوام کو لایا نہیں جاتا بلکہ وہ خود آجاتے ہیں۔ جن کو لایا جاتا ہے وہ ورکر ہوتے ہیں عوام نہیں۔ میاں نواز شریف نے طیب اردگان کی کامیابیوں کا راز معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جو انتہائی سادہ ہے اور سامنے ہے۔ طیب اردگان کے ساتھ پورے ملک کے عوام ہیں (جن کی معقول وجہ ہے) جب کہ میاں نواز شریف کے ساتھ…باقی سب ہیں اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی۔ فائدہ ؟فائدہ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔