القاعدہ کا نیا جنم

سید عاصم محمود  اتوار 13 اگست 2017
پاکستان کے نقطئہ نظر سے اس نئی جنگ میں اس کے لیے بھی خطرات پوشیدہ ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے نقطئہ نظر سے اس نئی جنگ میں اس کے لیے بھی خطرات پوشیدہ ہیں۔ فوٹو: فائل

اوائل2014ء میں جب دولت اسلامیہ فی عراق و شام المعروف بہ داعش کو عروج حاصل ہوا، تو عالم اسلام کی سب سے بڑی جہادی تنظیم، القاعدہ پس منظر میں چلی گئی۔

امریکا و یورپی ممالک اب داعش سے برسرپیکار ہوگئے جس کے رہنما و کارکن زیادہ جنگجو،متشدد اور جوشیلے تھے۔ مگر پچھلے چند ماہ میں امریکا کے تعاون سے عراقی افواج نے داعش کو زبردست نقصان پہنچایا، تو القاعدہ نے نیا جنم لے لیا۔ دور حاضر کی مشہور ترین جہادی تنظیم دوبارہ عالم اسلام میں سرگرم ہورہی ہے۔یہی نہیں ،جب پاکستان میں سیاست داں اقتدار پانے کی خاطر ایک دوسرے سے نبردآزما تھے تو کم ہی پاکستانیوں کو احساس ہوا کہ القاعدہ کے لیے یہ مملکت پھر اہم درجہ اختیار کر چکی۔پاکستانی قوم کی اکثریت بدلتے عالمی حالات سے ناواقف ہے۔شاید اس لیے کہ قومی صور تحال سبھی کا دماغ گھمائے رکھتی ہے۔

بیشتر مغربی ماہرین کا دعوی ہے کہ القاعدہ کی مرکزی کمانڈ افغانستان یا پاکستان میں موجود ہے۔ اس کمانڈ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری ہیں جو امیر القاعدہ بھی کہلاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے افغان طالبان کے سربراہ، شیخ الحدیث و التفسیر، مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ کی بیعت کررکھی ہے۔ القاعدہ کی مرکزی کمانڈ تلے مختلف اسلامی ممالک میں اس کی کسی حد تک خود مختار مختلف تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ان میں یہ نمایاں ہیں:

القاعدہ جزیرہ عرب، القاعدہ المغرب(شمالی افریقا)، القاعدہ صومالیہ، القاعدہ الشام (تحریر الشام) القاعدہ جزیرہ نما سینا، القاعدہ کردستان،القاعدہ برصغیر ، القاعدہ بوسنیا ہرگز و ینیا، القاعدہ مالی، القاعدہ اسپین، القاعدہ جزیرہ نما ملایا اور القاعدہ بلاد سوڈان۔

القاعدہ کی تمام ذیل تنظیموں میں القاعدہ برصغیر سب سے نوزائیدہ ہے جس کی بنیاد ستمبر 2014ء میں رکھی گئی۔ اس تنظیم کے دائرہ کار میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما آتے ہیں۔ اسی لیے یہ مسلم آبادی اور جغرافیہ کے لحاظ سے القاعدہ کی سب سے بڑی ذیلی تنظیم ہے۔ درج بالا علاقوں میں ساٹھ کروڑ مسلمان آباد ہیں جو دنیا میں مسلم آبادی کا تقریباً ’’40 فیصد‘‘ حصہ بنتے ہیں۔

حالیہ ماہ جون میں القاعدہ برصغیر نے ایک کتابچہ بہ عنوان ’’ضابطہ اخلاق‘‘ جاری کیا جو بعض اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی ماہرین خصوصاً اسے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ خبریں یہ ہیں کہ القاعدہ کی مرکزی کمانڈ برصغیر میں مقیم ہے۔ لہٰذا مغربی ماہرین کے نزدیک یہ ضابطۂ اخلاق دراصل القاعدہ کی مرکزی کمانڈر نے جاری کیا ہے۔ یہ نیا ضابطہ اس پتے پر آن لائن دستیاب ہے:https:// azelin.file s.wordp ress. com/2017/06/al-qacc84_idah-in-the-i ndian -subcontinent-22code-of-conduct22-en.pdf

یہ ضابطۂ اخلاق القاعدہ ہی نہیں دنیا بھر میں مصروف عمل سبھی اسلامی جنگجو تنظیموں کے لیے بھی جاری ہوا ہے۔ اس میں تفصیل سے جنگجوؤں کو بتایا گیا ہے کہ وہ لڑائی کے دوران کن اصول و قوانین پر عمل کریں اور کس قسم کا طرز عمل اپنائیں۔ مغربی ماہرین کے نزدیک یہ ضابطۂ اخلاق اس بات کی علامت ہے کہ القاعدہ پہلے کی طرح دنیا بھر میں مصروف کار اسلامی جنگجو تنظیموں کی مربی و سرپرست بننا چاہتی ہے۔ 2014ء میں داعش نے اس سے یہ مقام و مرتبہ چھین لیا تھا۔

٭٭

جب افغان جہاد کامیابی سے ہمکنار ہوا تو امیر عرب نوجوان،اسامہ بن لادن نے 1988 ء میں القاعدہ کی بنیاد رکھی۔مدعا یہ تھا کہ جن مسلم علاقوں مثلاً فلسطین،کشمیر، فلپائنی جزائر، اراکان(برما) وغیرہ پر استعماری قوتوں نے قبضہ کر رکھا ہے،انھیں بزور آزاد کرایا جائے۔چونکہ امریکا اکثر غاصب قوتوں کا ساتھی بلکہ سرپرست تھا لہٰذا القاعدہ کا اس سے ٹکراؤ ہو گیا۔حالانکہ افغان جہاد کے دوران امریکا القاعدہ کے رہنماؤں کی بھرپور مدد کر چکا تھا۔

یہ ٹکراؤ رفتہ رفتہ اتنا بڑھا کہ القاعدہ شدت پسندی کی جانب مائل ہو گئی۔اب شہری غیر مسلم بھی اس کے ٹارگٹ بن گئے۔یہ شرعی جنگی قوانین سے کھلی بغاوت تھی۔بہرحال القاعدہ نے 1998ء میں کینیا و تنزانیہ میں واقع امریکی سفارت خانوں پر خودکش حملے کرائے جن میں سوا دو سو افراد ہلاک ہوئے۔بیشتر شہری تھے۔آہستہ آہستہ القاعدہ کے لیڈر تکفیری بن کر مخالف مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے لگے۔یوںالقاعدہ کی جنگ ایک نئے ڈائمنشن یا بُعد میں پہنچ گئی۔یہ بُعد خاص کر عراق،پاکستان،نائیجیریا،لیبیا ،شام اور یمن میں زیادہ نمایاں ہوا جہاں حکومتوں اور اسلامی تنظیموں کے مابین لڑائی چھڑ گئی یا پھر نسلی و فرقہ ورانہ تصادم نے جنم لیا۔

لیکن 2010ء تک اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے تقریباً سبھی اہم لیڈروں کو احساس ہو چکا تھا کہ شرعی قوانین رد کر کے گویا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی گئی۔وہ تو مقبوضہ مسلم علاقے آزاد کرانے کا مشن رکھتے تھے مگر جوش میں آ کر عالم اسلام کا امن ہی تباہ کر بیٹھے۔کئی اسلامی ممالک میں خانہ جنگی نے ہزارہا مسلمانوں کو مار ڈالا،سیکڑوں عورتیں بیوہ اور معصوم بچے یتیم ہو گئے۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر بھی اسلامی معاشروں کو بہت نقصان پہنچا۔امُہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔

یہ تباہی و بربادی دیکھ کر القاعدہ رہنماؤں کی آنکھیں کھلیں اور وہ دوبارہ شرعی جنگی اصول وقوانین کی جانب لوٹنے لگے۔اس مراجعت کی تازہ مثال القاعدہ برصغیر کا ضابطۂ اخلاق ہے ۔اب امید ہے کہ اسلامی ممالک میں خانہ جنگی بتدریج ختم ہونے لگے گی۔گویا مغربی استعمار پھر اسلامی جنگجو تنظیموں کا نشانہ بن سکتا ہے۔اس عمل میں یہ خطرہ پوشیدہ ہے کہ مغربی استعمار کے پٹھو کسی مسلم حکمران نے ان کا راستہ روکنا چاہا تو پھر وہ ملک باہمی جنگ وجدل کا شکار ہو سکتا ہے۔اسلامی جنگجو تنظیموں کے نظریات و طرزعمل سے ہر کوئی اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔مگر جب دیکھا جائے کہ مغربی استعمار عالم اسلام کو سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے اپنی نوآبادی بنانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے تو ان تنظیموں کی جدوجہد سمجھ آنے لگتی ہے۔

٭٭

القاعدہ کا نیا ضابطۂ اخلاق اس ضابطے کی زیادہ نفیس صورت ہے جو 2013ء میں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے جاری کیا تھا۔ اس ضابطے میں امیر القاعدہ نے دنیا بھر میں مصروف کار مجاہدین کو خبردار کیا تھا کہ وہ دشمن کے غیر مسلح لوگوں خصوصاً عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنائیں۔ اس نئے ضابطۂ اخلاق  میں بھی یہی اصول و ضوابط زیادہ شرح وبسط سے درج ہیں۔یہ ضابطۂ اخلاق دنیا کے ان تمام جنگجوؤں کو نیند سے بیدار کرنے کا پیغام (ویک اپ کال) ہے جو داعش سے متاثر ہوچکے۔ داعش کے رہنماؤں اور کارکنوں نے جس قسم کے متشدد و بے رحمانہ روّیے کا مظاہرہ کیا، وہ صرف خوارج کے انتہا پسند فرقوں ہی نے اپنے زمانے میں دکھایا تھا۔ بانی القاعدہ، اسامہ بن لادن اس قسم کے غیر انسانی متشددانہ رویے کے خلاف تھے۔

اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور دیگر القاعدہ رہنماؤں کے خطوط اور باتیں افشا کرتی ہیں کہ ان لیڈروں کو شدید تشویش تھی، تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ عراق (بعدازاں داعش) مسلم و غیر مسلم اور طاقتور و کمزور کی تفریق رکھے بغیر ہر کسی کو مارنے لگے ہیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ ان تنظیموں کے ظالمانہ و بے رحمانہ اقدامات سے اسلامی ممالک میں عوام جہادی تنظیموں کے مخالف بن جائیں گے۔ بعدازاں یہ خطرات درست ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے، القاعدہ کے نئے ضابطۂ اخلاق میں مجاہدین کو سختی سے متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ انہی ٹارگٹوں کو نشانہ بنائیں جن کی اجازت شریعت میں دی گئی ہے۔

2014ء میں جب القاعدہ عراق کو زبردست کامیابیاں ملیں اور اس نے داعش کا روپ دھار لیا تو نئی تنظیم نے القاعدہ سے تمام روابط توڑ لیے۔ قائدین داعش نے پھر نیا ضابطۂ عمل ترتیب دیا اور کارکنوں کے ذریعے شدومد سے اس پر عمل کرانے لگے۔ داعش نے القاعدہ کے تمام اصول و قوانین نظرانداز کردیئے جو تب دنیا بھر میں کارفرما جہادی تنظیموں کی غیر متنازع رہنما و سرپرست کی حیثیت رکھتی تھی۔

حیرت انگیز بات یہ کہ متشددانہ طرزعمل کے باوجود داعش کو عالم اسلام میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کی طرف کھنچے چلے آنے لگے۔ شاید خلافت اسلامیہ کے قیام کے پُرکشش تصور نے انہیں داعش کی سمت جھکنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ اگلے دو تین برس تک القاعدہ تقریباً گوشہ گمنامی میں چلی گئی جبکہ مختلف اسلامی ممالک میں جنگجو تنظیموں نے داعش کی حمایتی ہونے کا اعلان کردیا۔ عالم اسلام ہی نہیں یورپی ممالک سے بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں سفر کرکے شام پہنچنے لگے تاکہ داعش کی صفوں میں شامل ہوسکیں۔ تیل کے کنوؤں پر قابض ہونے کے باعث قائدین داعش کے پاس رقم کی کمی نہیں تھی۔ لہٰذا داعش پھیلتی پھولتی چلی گئی۔ اُدھر قائدین القاعدہ تقریباً بھولی بسری کہانی بن گئے۔

اب نظریاتی اور تکنیکی طور پر داعش القاعدہ سے بالکل متضاد و متناقص تنظیم بن گئی۔اس نے وہ تمام قوانین واصول ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے جن پر القاعدہ عمل کرتی تھی۔ اسامہ بن لادن کی تمنا تھی کہ مجاہدین امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کو نشانہ بنائیں ۔ وہ سمجھتے تھے کہ انہی شیطانی قوتوں کی بنا پر دنیا میں قتل و غارت اور جنگیں ہو رہی ہیں۔داعش نے اسلامی حکومتوں‘ اپنے نظریات سے ا تفاق نہ کرنے والے عام مسلمانوں‘ فرقوں اور اقلیتوں کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا۔ اس نے عالم اسلام کے حکمرانوں کو ’’طاغوت‘‘ (شیطان) قرار دیا۔

القاعدہ اسلامی فرقوں مثلاً شیعوں اور صوفیانہ گروہوں پر حملے کرنے کے خلاف تھی۔ القاعدہ رہنما سمجھتے تھے کہ انہیں نشانہ بنانے سے شیطانی قوتوں کے خلاف جاری جہاد کو نقصان پہنچے گا۔ مگر داعش نے عراق و شام میں شیعہ سمیت دیگر اسلامی فرقوں کے لوگوں کو بے رحمی سے ٹارگٹ بنایا۔ ان کی عبادت گاہیں تباہ کر دیں اور صوفی گروہ بھی داعش کے حملوں سے نہ بچ سکے۔

امریکی حملے کے بعد شیعہ رہنما عراق میں برسراقتدار آ گئے تھے۔ انہوںنے مغربی عراق میں آباد سنی آبادی سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے‘ جب داعش کا ظہور ہوا ‘تو مغربی عراق کے کئی سنی قبائل اس سے جا ملے۔ یوں داعش کی قوت میں یکایک کئی گنا اضافہ ہوا اور وہ اس قابل ہو گئی کہ عراق و شام کے نصف علاقے میں اپنی حکومت قائم کر سکے۔مزید براں جب داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا‘ تو گویا اس نے طالبان امارت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس سے کہ القاعدہ لیڈر بیعت کر چکے۔ تمام القاعدہ لیڈر اپنے کارکنوں پر بھی زور دیتے ہیں کہ امیر طالبان سے بیعت کر لی جائے۔ ان کی نگاہ میں عالم اسلام میں خلافت قائم کرنے کے سلسلے میں امارت افغانستان خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔

گویا القاعدہ کے نزدیک کرہ ارض پر صرف امارت افغانستان وہ اکائی ہے جو اسلامی خلافت کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے۔ یہی وجہ ہے‘ جب ابوبکر بغدادی نے اپنے امیر المومنین ہونے اور خلافت کے قیام کا اعلان کیا‘ تو امیر القاعدہ‘ ایمن الظواہری نے اس کو ’’فتنہ‘‘ قرار دیا۔ ڈاکٹر الظواہری نے یہ امر بھی نمایاں کیا کہ ابوبکر البغدادی سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریق کار پر چلتے ہوئے خلیفہ منتخب نہیں ہوا۔ لہٰذا انہوں نے مسلمانان عالم کو باور کرایا کہ ابوبکر البغدادی کی بیعت ان پر لازم نہیں۔

جب فروری 2014ء میں القاعدہ اور داعش کی راہیں الگ ہوئیں‘ تو رفتہ رفتہ اول الذکر نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ وہ دانستہ ایسے اقدامات کرنے لگی جو القاعدہ کو داعش سے الگ تھلگ و ممتاز تنظیم بنا سکیں۔ تجربات نے  القاعدہ لیڈروں کو باور کرایا تھا کہ جب تنظیم کسی علاقے میں اپنی حکومت کا اعلان کر دے‘ تو دشمن عالمی طاقتیں اسے مرکز نگاہ بنا لیتی ہیں۔ وہ پھر اپنے تمام تر وسائل اسی علاقے میں جھونک دیتی ہیں تاکہ مقامی القاعدہ کو تباہ کیا جا سکے۔

یہ تجربہ مد نظر رکھ کر القاعدہ لیڈر اسلامی ممالک اور مغربی ممالک میں بھی ایسے بااثر عناصر سے رابطہ کرنے لگے جو ان کے نظریات سے متفق ہوں۔ ایک طرف داعش نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دھونس ‘ دھمکی اور ترغیبات سے مقامی لیڈروں کو ساتھ ملایا جبکہ القاعدہ لیڈر چپکے چپکے ‘ نرمی و محبت سے مقامی بار سوخ شخصیات کو اپنا ہم نوا بنانے کی سعی کرنے لگے۔ انہوںنے ا پنی سرگرمیوں کی تشہیر نہیں کی۔ اسی حکمت عملی نے نہ صرف القاعدہ کے تن مردہ کو زندہ رکھا اور اسے مسلسل آکسیجن ملتی رہی بلکہ اب اس میں نئی جان پڑتی محسوس ہوتی ہے۔

جنوبی ایشیا کی مثال ہی لیجیے۔ جب ا مریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا‘ تو اس نے نیٹو افواج کے ساتھ مل کر القاعدہ کو تباہ و برباد کرنے کی خاطر پورا زور لگا دیا۔ اکلوتی سپر پاور نے القاعدہ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل استعمال کر ڈالے۔ اس زبردست یلغار نے القاعدہ کو تن مردہ بنا دیا مگر وہ موت سے ہمکنار نہ ہوئی۔ پھر 2015ء میں داعش نے القاعدہ پر حملہ کر دیا۔ اس کی کوشش تھی کہ جنوبی ایشیا سے القاعدہ کا نام و نشان مٹا دیا جا ئے لیکن داعش بھی بھرپور سعی کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔

جب داعش نے امریکا اور یورپی ممالک میں اپنے کارکنوں سے ’’لون ولف‘‘ حملے کرائے تو القاعدہ نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ یوں وہ عالمی طاقتوں کا براہ راست ٹارگٹ بننے سے محفوظ رہی۔ جب امریکا اور روس داعش کے خلاف برسرپیکار ہوئے تو ا لقاعدہ ابتداً مقامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ پھیلانے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے لگی۔ ایک سمت داعش کی شکست وریخت کا عمل شروع ہو گیا‘ دوسری جانب القاعدہ آہستہ آہستہ اپنے تن مردہ میں نئی روح پھونکنے لگی۔ داعش جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہی تھی‘ القاعدہ لیڈر وقتاً فوقتاً اس کی مذمت کرتے رہے۔

القاعدہ لیڈروں نے نئی حکمت عملی کی تحت اپنی ذیلی تنظیموں کو خاصی حد تک خود مختار ہونے کی بھی اجازت دے دی۔ چنانچہ بعض ذیلی تنظیموں نے نام تبدیل کر کے مقامی لیڈروں سے اتحاد کر لیا تاکہ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا جا سکے۔ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مقامی سیاسی، معاشرتی اور معاشی ایجنڈوں میں شامل ہوا جاسکے۔ ہر ملک میں آبادی کی اکثریت عالمی مسائل کی بہ نسبت قومی مسائل سے دلچسپی رکھتی ہے۔ چنانچہ القاعدہ کی ذیلی تنظیموں نے مقامی مسائل کے حل پیش کیے، تو مقامی آبادی ان کی طرف متوجہ ہونے لگی۔

مثال کے طور پر جنوری 2017ء میں شام میں القاعدہ کی مرکزی کمانڈ نے ایک نئی تنظیم، ہئیت تحریر الشام کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے جھنڈے تلے وہ تمام شامی تنظیمیں جمع کردی گئیں جو القاعدہ کے نظریات و خیالات سے متفق ہیں۔ اس اتحاد کی قیادت جبھت النصرہ کے سپرد ہے۔ مغرب میں یہ النصرہ فرنٹ کہلاتی ہے۔شام میں بھی بتدریج داعش کا سورج غروب ہورہا ہے۔ چنانچہ خصوصاً شمال مغربی شام میں ہئیت تحریر الشام ایک طاقتور تنظیم بن چکی اور وہاں بشارالاسد کی سرکاری افواج سے لڑنے میں محو ہے۔

اسی طرح القاعدہ برصغیر بھی بتدریج جنوبی ایشیا میں اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں القاعدہ نے مقبوضہ کشمیر میں ’’انصار غزوات الہند‘‘ کے نام سے اپنی ایک ذیلی تنظیم قائم کی ہے۔ 23 سالہ کشمیری مجاہد، ذاکر موسیٰ اس کے کمانڈر ہیں۔ ذاکر پہلے شہید برہان وانی کے ساتھ بھارتی قابض افواج سے نبرد آزما تھے۔دلچسپ بات یہ کہ پاکستان میں داعش کی شریک کار تنظیم، لشکر جھنگوی کا دعویٰ ہے کہ ’’انصار غزوات الہند‘‘ قائم کرنے کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہے۔ وہ تحریک آزادی کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ کر مجاہدین کا قتل عام کرنا چاہتی ہے۔ واضح رہے، جنوبی ایشیا میں داعش کی آمد کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی نے اس عرب تنظیم سے اتحاد کرلیا تھا۔

تاہم داعش جنوبی ایشیا میں مقبول نہیں ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ قائدین داعش کی حد سے بڑھی انتہا پسندی ہے۔ مزید براں عالم اسلام میں قائدین داعش کو اوسط درجے کا عالم دین سمجھا جاتا ہے۔ داعش کے مذہبی رہنماؤں نے جہادی اصولوں ’’الولاء والبراء‘‘ (وفاداری اور غداری) اور ’’تکفیر‘‘ کی جس طرح غلط ترجمانی و تفسیر کی ہے، اسے جنگجوؤں کے مشہور عالم دین، ابو محمد المقدسی بھی تنقید کا نشانہ بناچکے۔ یاد رہے، المقدسی ہی القاعدہ عراق(داعش) کے بانی، ابو معصب زرقاوی کے نظریاتی استاد تھے۔

القاعدہ برصغیر کا جاری کردہ حالیہ ضابطۂ اخلاق  بھی اپنی اثرو رسوخ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں القاعدہ رہنماؤں نے رواداری اور برداشت کے اصول متعارف کرائے ہیں۔ مثلاً مجاہدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلح غیر مسلم (عیسائی، ہندو، بدھ وغیرہ) کو ہرگز ٹارگٹ نہ بنائیں۔ یہ اصول داعش کے مقابلے میں القاعدہ کو کم شدت پسند بناتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے، شام میں اکثر اوقات امریکا اور نیٹو ممالک داعش کے مقابلے میں القاعدہ کی ذیلی تنظیموں کو اسلحہ و سرمایہ فراہم کرتے رہے ہیں۔

داعش قدم بہ قدم شکست کی جانب گامزن ہے۔ ایسے میں القاعدہ کا ضابطۂ اخلاق  جاری کرنا ایک اور اہم بات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یہ کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر داعش کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا؟ القاعدہ دنیا بھر میں طاغوتی قوتوں اور استعمار سے نبرد آزما جنگ جوؤں کو باور کرانا چاہتی ہے کہ داعش اس لیے ہار گئی کیونکہ قائدین تنظیم نے شرعی اصول و قوانین پر عمل نہیں کیا اور جن پر اب القاعدہ  کاربند ہو چکی۔ ضابطۂ اخلاق  میں اسامہ کو دور جدید میں جہاد دوبارہ زندہ کرنے والا لیڈر قراردیا گیا ہے۔

القاعدہ قیادت کا دعویٰ ہے کہ داعش نے غیر جہادی اصول اپنالیے، اسی واسطے اسے عالم اسلام میں قبولیت عامہ حاصل نہ ہوسکی۔ چنانچہ القاعدہ دوبارہ عالمی جہاد کی قیادت سنبھالنا چاہتی ہے جو داعش نے اس سے چھین لی تھی۔ تاہم القاعدہ کے جہادی نظریات زیادہ معتدل اور روادار ہیں۔یہ واضح رہے کہ عالم اسلام میں بعض ماہرین القاعدہ کو امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان جہاد کے دوران اسامہ بن لادن کی تنظیم اور امریکی سی آئی اے نے مل کر سویت افواج سے مقابلہ کیا ۔ مگر جہاد افغانستان ختم ہونے کے بعد اس وقت راہیں جدا ہوگئیں جب القاعدہ نے عالمی جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

1991ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا، تو امریکی مشرق وسطیٰ آپہنچے اور سعودی عرب و قطر میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلیے۔ سعودی عرب میں امریکیوں کی موجودگی پر اسامہ بن لادن کو شدید اعتراض تھا۔ لہٰذا انہوں نے امریکی و سعودی حکومتوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد القاعدہ اور امریکا کے مابین کھلی جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ کا نقطئہ عروج ستمبر 2001ء  میں میں آیا جب القاعدہ کے ہائی جیکر امریکی سطوت و طاقت کا نشان… ورلڈ ٹریڈ سینٹر ملیامیٹ کرنے میں کامیاب رہے۔امریکی حکمران طبقہ پھر پاگل ہاتھی کے مانند القاعدہ پر پل پڑا اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں فریقین کو زبردست جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

پھر داعش کا ظہور ہوا اور وہ امریکی و یورپی حکمرانوں کی دشمن نمبر ایک بن گئی۔ مگر داعش کمزور ہونے کے بعد القاعدہ اور مغربی استعمار کے مابین نئے معرکے کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اس معرکے میں ایک طرف قوم پرست امریکی لیڈر، ڈونالڈ ٹرمپ ہے اور دوسری سمت اسامہ بن لادن کا بیٹا حمزہ بن لادن۔ حمزہ بھی اپنے مرحوم والدکی طرح امریکی استعمار کا سخت مخالف ہے۔ لہٰذا اس کی قیادت میں القاعدہ خصوصاً امریکی ٹارگٹوں پر بم دھماکوں اور حملوں کا نیا سلسلہ شروع کرسکتی ہے۔

پاکستان کے نقطئہ نظر سے اس نئی جنگ میں اس کے لیے بھی خطرات پوشیدہ ہیں۔وجہ یہ کہ مغربی حکومتوں کا دعوی ہے کہ ایمن الظواہری اور حمزہ بن لادن،دونوں افغانستان یا پاکستان میں موجود ہیں۔یہ دعویٰ درست ہے یا غلط، اگر القاعدہ نے امریکا یا برطانیہ میں نائن الیون سے ملتا جلتا کوئی بڑا حملہ کیا تو پاکستان دوبارہ عالمی طاقتوں کی نگاہوں کا مرکز بن جائے گا۔پھر وقت ہی بتائے گا کہ 2001ء سے ملتی جلتی مخدوش صورت حال میں پاکستان کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی حالات کس کروٹ بیٹھیں گے ۔

کچھار سے نکلتا شیر
افغان شہر جلال آباد سے جانب مغرب چلیں تو پچیس تیس میل بعد سپن غر سلسلہ ہائے کوہ کی وادی آجاتی ہے۔ پچاس سال قبل یہ وادی زیتون کے باغات سے بھری پڑی تھی۔ مگر سویت حملہ آوروں اور افغان مجاہدین کے مابین جنگ چھڑی، تو اکثر باغات قصۂ ماضی بن گئے۔ یہ اواخر 2001ء کی بات ہے، بچے کھچے ایک باغ میں چشم فلک نے عجب منظر دیکھا۔ایک باپ اپنے تین نو عمر بیٹوں سے الوداعی ملاقات کررہا تھا۔ یہ القاعدہ کا بانی اسامہ بن لادن تھا۔ اس نے محبت و شفقت سے بچوں کو بوسے دیئے، انہیں اپنا خیال رکھنے کا کہا اور تورا بورا غاروں کی جانب بڑھ گیا۔ کئی سال بعد ایک بیٹے نے 2009ء میں باپ کے نام خط میں لکھا ’’آپ کیا جدا ہوئے، لگا کہ ہمارا دل بدن سے نکال لیا گیا۔‘‘ اپنے باپ سے نہایت الفت رکھنے والا یہ بیٹا حمزہ تھا۔

حمزہ اسامہ کی تیسری بیگم، خیریہ صابر کا اکلوتا بیٹا ہے۔ شادی 1985ء میں ہوئی اور 1988ء میں حمزہ نے جنم لیا۔ خیریہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہے۔ اس نے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔ وہ شوہر کی وفادار تھی اور جہاں بھی اسامہ جاتا، ساتھ ساتھ ہوتی۔ جب اواخر 2001ء میں امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اسامہ اہل خانہ کے ساتھ سپن غر وادی میں مقیم تھے۔اسامہ بن لادن کی ہدایت پر القاعدہ رہنما کے ساتھی ان کے اہل خانہ کو ایران لے گئے۔ ان ساتھیوں میں ابو خیر المصری (القاعدہ کی سیاسی کمیٹی کا سربراہ)، ابو محمد المصری (تربیتی کیمپوں کا سربراہ) اور سیف العدل (سکیورٹی چیف) نمایاں تھے۔

اس زمانے میں امریکی کتوں کی طرح اسامہ بن لادن اور ان کے اہل خانہ کی بو سونگھتے پھرتے تھے۔ تب دنیا کا تقریباً ہر ملک امریکی سپرپاور کے آگے سرنگوں ہوگیا تھا۔ مگر ایران امریکیوں کے اثرو رسوخ سے باہر اور دسترس سے دور تھا۔ اسامہ ایرانی حاکموں سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے، مگر انہوں نے یہی مناسب جانا کہ اپنے اہل خانہ کو ایران روانہ کردیں۔ انہیں یقین تھا کہ ایرانی حکومت ان کے اہل خانہ کو امریکیوں کے حوالے نہیںکرے گی۔

اپریل 2003ء میں ایرانی سکیورٹی فورسز نے اسامہ کے ساتھیوں اور اہل خانہ کو شیراز سے گرفتار کرلیا۔ بیشر اہل خانہ ملک بدر کردیئے گئے تاہم القاعدہ کے تینوں اہم رہنماؤں، خیریہ اور حمزہ کو ایرانیوں نے نظر بند کردیا۔ شاید ایرانی حکومت کو امید تھی کہ مستقبل میں یہ ’’ہائی ویلیو‘‘ قیدی کسی طرح اس کے کام آسکتے ہیں۔یوں حمزہ نیم قید کی حالت میں پلنے بڑھنے لگا۔ شروع میں ایرانیوں نے قیدیوں کی سخت نگرانی رکھی، مگر پھر وہ ڈھیلی پڑگئی۔ اب حمزہ نگرانوں کی آنکھ تلے قریبی پارک میں بھی کھیل سکتا تھا۔ اس کی تربیت ماں اور ابو محمد المصری نے کی۔ انہوں نے نوجوان ہوتے حمزہ کو قرآن، حدیث اور فقہ کی کتب پڑھائیں۔ نیز بتایا کہ اسامہ بن لادن کی زندگی کا مشن یہ تھا کہ عالم اسلام کو مغربی استعمار اور دیگر شیطانی طاقتوں سے نجات دلائی جائے۔ یوں بچپن ہی سے حمزہ میں بھی جہاد کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔

دوران اسیری جب حمزہ نوجوان ہوا، تو ماں نے ابو محمد المصری کی بیٹی سے اس کی شادی کرادی۔ ان کے ہاں بچوں نے جنم لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایرانیوں کی نگرانی خاصی کمزور پڑگئی۔ اب خفیہ طریقوں سے اسامہ کے خطوط اپنے اہل خانہ کو موصول ہونے لگے۔ حمزہ نے بھی 2009ء میں پہلی بار باپ کو خط لکھا اور اپنی چاہت اور ملنے کے اشتیاق کا ارادہ ظاہر کیا۔اوائل 2011ء میں ایرانی حکومت نے خیریہ اور حمزہ کو مع اہل خانہ شاید انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اور انہیں بے ضرر سمجھ کر آزاد کردیا۔ خیریہ تو اسامہ بن لادن کے پاس آگئیں مگر حمزہ بال بچوں کے ساتھ کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگیا۔ یہ مقام افغانستان، ایران یا پاکستان میں کہیں بھی ہوسکتا ہے۔

باپ بیٹے کے مابین البتہ خط کتابت جاری رہی۔ دونوں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ ایبٹ آباد سے ملنے والے حمزہ کے خطوط آشکارا کرتے ہیں کہ وہ جہادیوں سے عسکری تربیت لے رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ کئی سال سے بچھڑے باپ بیٹا یادگار ملاقات کرتے، امریکیوں نے اچانک حملے میں اسامہ بن لادن کو شہید کردیا۔ یوں جدید تاریخ کی ایک سحر انگیز شخصیت کی زندگی کا قصّہ تمام ہوا۔

اُدھر حمزہ بن لادن کی عسکری تربیت جاری رہی۔ اسے القاعدہ کے پورے خفیہ نظام سے بھی متعارف کرایا گیا۔ جب حمزہ ہر طرح سے ایک جنگجو لیڈر میں ڈھل گیا، تو مئی 2015ء میں ایک آڈیو میسج کے ذریعے ایمن الظواہری نے دنیا والوں سے حمزہ بن لادن کا تعارف کچھ یوں کرایا :’’القاعدہ کی کچھار سے نکلتا ایک شیر۔‘‘ حمزہ نے اپنے خطاب میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کی قسم کھائی اور جہادیوں کو تلقین کی ’’وہ اپنی جنگ کابل، بغداد اور غزہ سے نکال کر واشنگٹن، لندن، پیرس اور تل ابیب میں لے جائیں۔‘‘

مئی 2015ء کے بعد حمزہ وقتاً فوقتاً آڈیو میسج جاری کرتارہتا ہے۔ ان سے عیاں ہے کہ وہ امریکا، اسرائیل، بھارت اور دیگر مغربی طاقتوں کو اپنا ٹارگٹ بنانا چاہتا ہے۔ وہ اسلامی ممالک میں خانہ جنگی اور باہمی سرپھٹول ختم ہوتا دیکھنے کا متمنی ہے۔ اپنے باپ کی طرح حمزہ بھی مغربی استعمار کا شدید مخالف ہے۔ یہ مخالفت مستقبل میں کسی امریکی یا برطانوی شہر میں بہت بڑے حملے کی صورت نمایاں ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔