الف سے اپنا، بے سے بہتر، پے سے پاکستان

سہیل احمد صدیقی  اتوار 13 اگست 2017
ہم ہر مسئلے کا حل اپنی بلدیہ، صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت سے چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہم ہر مسئلے کا حل اپنی بلدیہ، صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت سے چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

الف سے اپنا، بے سے بہتر، پے سے پاکستان
پاکستان کی خاطر بچّو! سب کچھ ہے قربان

بچپن کی ناقابل فراموش صداؤں میں اس قومی نغمے کی بازگشت بھی شامل ہے۔ اب قومی نغمے بھی کم کم لکھے جارہے ہیں اور بچوں کے لیے دل نشیں، دل چسپ انداز میں نظمیں اور گیت بھی تقریباً مفقود ہیں۔ یہ بات بہت مرتبہ راقم سے کہنے والوں نے کہی۔ میرے اسکول کے ایک دوست بہ یک وقت سیاست اور سماجی خدمات میں بہت فعال ہیں اور اُن پر ایک ’جماعت‘ کا ٹھپا بھی لگا ہوا ہے۔

جب انھوں نے یہ بات ایک سے زائد بار کہی تو خاکسار کا جواب تھا: ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں…..اچھا کلام کہنے والے شاعر سب کے سب تو نہیں مرَے۔ لوگ زندہ ہیں۔ تم معاوضے کا بندوبست کرو، میں لکھوانے کی ذمے داری لیتا ہوں، خود بھی (بطورشاعر) کچھ کہہ لوں گا۔ بہرحال میرے وہ عزیز دوست ہنوز دیگر سماجی خدمات میں تو مصروف ہیں، مگر اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ہرچند کہ اُن کی تنظیم کو ’’سام راج دشمنی‘‘ کی ’سزا‘ کے طور پر اُسی سام راج کی طرف سے پاکستان کے ایک صوبے میں نصاب سازی کا ٹھیکا ملا ، اس کے علاوہ بھی اُن کی بہت سی ذیلی تنظیموں، اداروں اور افراد نے یہ مقدس فریضہ اپنے زاویے سے انجام دیا، مگر افسوس، اُن سمیت کسی بھی نصاب ساز نے (بشمول غیرملکی ناشر) ایسی کوئی کتاب پیش نہیں کی کہ جس کا مواد پڑھ، سن کر ویسے ہی ازبر ہوجائے جیسا کہ پہلے دور میں ہوا کرتا تھا۔

نصاب کے بارے میں مزید خیال آرائی سے قبل، راقم یہ کہنا ازبس ضروری سمجھتا ہے کہ ستر سال ہونے کو آئے ، وطن عزیز اپنی عمر کے لحاظ سے پختگی کو پہنچ چکا ہے، مگر ہم ایک قوم ہی نہ بن سکے تو پختگی کیسی؟ یہاں قومیت کے فلسفے پر بھی کچھ گفتگو ہوجائے۔ ہم یہ طے نہیں کرسکے کہ قوم بنتی کیسے ہے اور جب یہ طے نہیں ہوسکا تو پھر یہ کیسے معلوم ہو کہ ہماری قومی زبان کون سی ہے اور اگر ہے تو ہم اسے ہر سطح پر رائج (نہ کہ نافذ) کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔

گذشتہ دنوں ایک نہایت قابل اعتراض مسودہ قانون پارلیمان کے ایوان بالا میں منظور ہونے کی شنید تھی۔ اس سے قبل تو کچھ رسماً تکلفاً نکتہ آرائی یا نکتہ چینی ہوئی بھی تھی، مگر منظوری کے بعد….’’اتنا سنّاٹا کیوں ہے بھائی؟؟‘۔ ہمارے ایک قدرے بزرگ (اور کئی لحاظ سے ہم سے زیادہ لائق نیز مشہور) معاصر نے قومی زبان کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا تو خاکسار کو یہ دیکھ کر حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کہ انھوں نے بجائے اردو بطور زبان ِ رابطہ] [Lingua francaکا تصور واضح کرنے کے چند ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے ہماری علاقائی زبانوں کو بین الاقوامی سطح پر مستند و مروج زبانوں کا درجہ عطا کردیا….کہ چوںکہ وہاں ایسا ہے، لہٰذا ہمیں بھی ان تمام زبانوں کو بہ یک وقت، پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دے دینا چاہیے۔ (یہ لفظ Back وقت نہیں ہے جیسا کہ بعض ناواقف بولتے ہیں، اسی لیے توڑ کر لکھا ہے)۔

ع: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔اگر کوئی یہ بتادے کہ ان تمام نیز دیگر علاقائی زبانوں کا تحریک پاکستان میں کیا کردار ہے اور آیا اِن کی بھی اُسی طرح خدمت و حفاظت ، ہماری سیاسی تاریخ کے اہم، پُرآشوب عہد میں ہوئی تھی اور انھیں بھی انگریز کے طے کردہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے کلیے کے تحت پیدا ہونے والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا، انھیں بھی کوئی مولوی عبدالحق ملا تھا جس نے مسلمانوں کے لسانی تشخص کی بھرپور وکالت کی تھی…ہندو راہ نما گاندھی سے مباحثہ اور مراسلت کرنی پڑی تھی تو خاکسار یہ مطالبہ بھی درست ماننے کو تیار ہوجائے گا۔

یہ الگ بحث ہے کہ اردو فقط مسلمانوں کی زبان نہیں تھی اور اس کی بے لوث خدمت کرنے والے بہت سے حضرات ہندو اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے تھے اور آج بھی چند ایسے ہیں۔ ہم تاریخی و سیاسی تناظر میں بات کرتے ہیں تو یہ حقیقت اظہر مِن الشمس (سورج سے روشن) نظر آتی ہے کہ انگریز سرکار نے موجودہ مصنوعی زبان ہندی کو (الگ رسم خط اور سنسکرت کے محدود اختلاط سے) اردو کا مقابل یا متصادم بنا کر کھڑا کیا تھا۔ اَب پاکستان کے قیام کے ایک طویل عرصے بعد، ہمارے درمیان ایسے لوگ ایک بار پھر سَر اٹھا رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اردو کو سرکاری وقومی زبان کا رتبہ یا درجہ حاصل نہ ہو۔

میں یہاں کسی تکنیکی بحث کی بجائے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ جب کوئی سندھی اپنے گوٹھ سے پاکستان کے دوراُفتادہ پہاڑی مقام پر سیر تفریح کے لیے (اس ترکیب میں واؤ لگانا درست نہیں) جاتا ہے اور اُسے وہاں کی مقامی زبان یا بولی سے واقفیت نہیں ہوتی تو کیا وہ سندھی سے کام چلاسکتا ہے؟ یا آیا پاکستان کے سب سے زیادہ علاقوں میں بولی جانے والی علاقائی زبان سرائیکی اتنی زیادہ مقبول ہے کہ ایران یا افغانستان کی سرحد سے ملے ہوئے علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہو؟…لوگ زبان کی حیثیت اور اہمیت کا تعین بھی سیاسی و لسانی تعصب (بل کہ نسلی تعصب) کی بنیاد پر کرتے ہیں تو پھر یہ الگ، آزاد وطن حاصل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟…یہاں ایک اور افسوس ناک نکتے کا نقل کرنا اور جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا قومی ترانہ اردو میں نہیں، اس کی جگہ اردو میں ترانہ لکھوایا جائے۔ میں یہاں قومی ترانہ نقل کرکے ایسے معترضین کو دعوت دیتا ہو ں کہ یہ ثابت کریں کہ اِس کے متن میں کون سا لفظ اردو کا نہیں:

پاک سرزمین شاد باد کشورحسین شادباد
تو نشان عزم عالی شان ارض ِ پاکستان
مرکز یقین شادباد
پاک سرزمین کا نظام قوت اخوت عوام
قوم، ملک، سلطنت تابندہ پایندہ باد
شاد باد منزل مراد
پرچم ستارہ وہلال رہبر ترقی وکمال
ترجمان ماضی، شان حال جان استقبال
سایہ خدائے ذوالجلال

دل چسپ بات یہ ہے کہ عربی و فارسی کے ایسے الفاظ اس ترانے میں شامل ہیں کہ بہت سال قبل، پاکستان میں اُزبِکستان کے سابق سفیر محترم تاش میرزا نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ بھئی یہ تو پوری ترکی ہے۔ یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:
۱۔اُزبِک درحقیقت ترکی زبان کی ایک شاخ ہے

۲۔ تاش میرزا صاحب اردو کے ادیب ہیں جنھیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مَیں یہ سوال کرتا ہوں کہ آیا بعض عربی الفاظ کی شمولیت کے سبب اس ترانے کو عربی الاصل قرار دیا جاسکتا ہے؟…اب پھر آتے ہیں نصاب کی صورت حال کی طرف۔ راقم نے بعض نصابی و مددگار کتب دیکھیں اور یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ بجائے مستند اور ماہر شعراء کو زحمت کلام دینے کے، اپنی سی سعی کرکے وہ کلام شامل نصاب کیا گیا جس کے فقط معانی ہی سمجھانے میں تعلیمی سال گزر جائے گا اور طُلَبہ کو یاد بھی ہوگیا تو بہت جلد بھول جائیں گے۔ ایسے بھرتی کے کلام کا کیا فائدہ؟ بات یہیں تک محدود نہیں، بلکہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نصاب میں اکھاڑپچھاڑ بھی غیروں کے ایماء پر شَدّومَدّ سے کی جاتی ہے۔ چوںکہ ’’اُنھیں‘‘ پسند نہیں، اس لیے اسلامی تاریخ کے فُلاں فُلاں ہیرو کا ذکر نکال دو۔

انھیں پسند ہے ، اس لیے فُلاں فُلاں کا ذکر زبردستی شامل کردو۔ فُلاں کے نزدیک نماز کی فرضیت بھی مشکوک ہے، لہٰذا نصاب سے یہ ذکر بھی نکال دو کہ یہ کس عمر میں فرض ہے، وضو کے فرائض کیا ہیں، جہاد اَب (اُن کے نزدیک) فساد بن چکا ہے، لہٰذا اس کا یک سطری تذکرہ بھی کہیں نہ ہونے پائے…..سائنس کے مضامین سے مسلمانوں کے زَرّیں دور کے بڑے اسماء خارج کردو، اس ضمن میں قرآن کریم کی آیات بھی خارج کردو۔ جنسی تعلیم اسکول کی سطح پر شروع کرو، نجی اداروں اور نام نہاد مخیر افراد کو اِس اہم مقصد پر مأمور کردو، کیوں کہ (بقول کسے یہ آگہی اب لازم ہے)، بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کلچر ایک مغرب زدہ شخص نے سرکاری سطح پر رائج کردیا ہے، لہٰذا اسے نام نہاد ’روشن خیالی‘ کے نام پر مزید فروغ دیا جائے اور ہر بات میں اسلام اسلام کی رَٹ نہ لگائی جائے۔ فواحش کی سرپرستی سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھتی ہے، شراب نوشی پر پابندی سے سب سے زیادہ نقصان خود مسلمانوں کا ہوتا ہے جو ملک کی سب سے قدیم اور بڑی مئے کش کمپنی کے پچانوے فی صد حصص یافتگان مسلمان ہی ہیں۔

ہائے ہائے کیا کیا ستم ہائے روزگار ہیں جن کا رونا روکر قلم رَواں ہوتا جاتا ہے، شاید کبھی سوکھ بھی جائے، مگر دلوں میں خشک سالی یا خشکی نہیں ہونی چاہیے۔ سننے والے کان سلامت، سوچنے والے ذہن سلامت رہیں تو واقعتاً ہمہ جہت تبدیلی آسکتی ہے، بلکہ برپا ہوسکتی ہے۔ انقلاب آتے نہیں، برپا کیے جاتے ہیں، اجتماعی جدوجہد سے۔ جب ہم لفظ ’اپنا‘ استعمال کرتے ہیں تو اس لفظ کی معنوی وسعت اور تشریح بہت کچھ سوچنے اور کہنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب ہم نجی زندگی میں کسی کو اپناتے ہیں، (چالوزبان میں) اپنا بناتے ہیں یا اپنا سمجھتے ہیں تو کیا کیا نہیں ہوتا۔ انتہا یہ ہوتی ہے کہ بقول شاعر:

مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑدیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے

یا ایک قدیم فارسی قول کے مطابق ’’من توشُدَم ، تو من شُدی۔ تاکس ناگوید بعدازیں۔ من دیگرم تودیگری‘‘ (میں تو ہوجاؤں، تو میں ہوجائے، تاکہ پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے، میں کوئی اور ہوں اور تو کوئی اور)۔ یہی بات ہمارے علمائے کرام اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ کسی سے محبت کا دعویٰ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بالکل اُس جیسے ہوجائیں، یک جان دوقالب، ورنہ دعویٰ محبت جھوٹا۔ یہاں رک کر ایک بات یاد آئی کہ لفظ ’اپنا‘ سے صفت بنی تھی ’اپناہت‘ جو جلد تبدیل ہوکر ’اپنائیت‘ بن گئی ….مگر عجیب معاملہ یہ ہوا کہ چائے کے ایک اشتہار کی بدولت یہ ہوگیا: ’اپنا پن‘، اب کیا عوام کیا خواص، کیا اَن پڑھ، کم خواندہ ، کیا ادیب شاعر، ہر کوئی ’اپنا پن‘ کہہ رہا ہے اور لکھ رہا ہے۔

کاش کسی کو اِس بے گانہ پن کا بھی علم ہوجائے جو ایسے معاملے میں لفظ کی اصل کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ ہم ماہرلسانیات کی یہ رائے اکثر دُہراتے ہیں کہ زبان میں شعوری تبدیلی کسی زبردستی اُتھل پُتھل یا منظم طریقے سے نہیں لائی جاسکتی، مگر اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مُسَلَّم ہے کہ جب کوئی لفظ، محاورہ، کہاوت، حکایت اور حوالہ مسلسل غلط نقل کیا جائے تو اَصل کہیں لغات میں گُم ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی مثال خود ’عوام ‘ کی ہے۔ مذکر، صیغہ جمع کو ٹیلی وژن اور اخبارات میں اس طرح بگاڑا گیا ہے کہ اَب اہل زبان ، اہل قلم بھی کہتے اور لکھتے دکھائی دیتے ہیں: عوام جمع ہوگئی۔ موضوع قدرے تبدیل کریں تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ کسی کا ہونے یا بننے سے زیادہ اہم اور مشکل ، اپنی ذات کی پہچان ہے۔ وہ پہچان جسے حدیث شریف میں رب کی پہچان کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ، اُس نے اپنے رب کو پالیا (مفہوم)۔ علامہ اقبال نے جب خودی کا پرچار کیا تو اپنی پہچان یا معرفت نفس کی تعلیم اس طرح دی تھی:

پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن!

اگر کوئی بندہ مومن اس مشورے پر عمل کرلے تو اُس کی نجات یقینی ہے۔ انسان اپنے جسمانی اعضاء کی ساخت اور افعال، اپنے بدن کے مختلف نظام اور اپنے دل کی دھڑکن پر غور کرنا شروع کرے تو آخرش اپنے خالق کی توحید اور طاقت کا ہر طرح سے قائل ہوجاتا ہے۔ یہ ہے اپنی ذات پر غور اور اپنا بننا۔ بات کسی کے بننے اور کسی کے ہونے سے آگے بڑھتی ہے، تو لوگ محبت میں مرنے والوں کی بہت سی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ آئیے آج یہ طے کریں کہ ہم اپنے وطن سے محبت کے دعوے میں کتنے سچے ہیں۔ وطن نے ہمیں اپنایا ہے، ہم نے اُسے کتنا اپنایا؟

عنوان کا دوسرا حصہ ہے: بے سے بہتر ….اب یہ سوچنا بھی ہمارا ہی کام ہے کہ اگر پاکستان ’بہ‘ یعنی اچھا (فارسی لفظ ) ہے تو اسے بہتر (=بہ+تر یعنی کسی سے اچھا) کیسے کیا جاسکتا ہے (’بنایا‘ نہیں۔ بہتر بنانا غلط ہے)۔]ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے کچھ جرائد نے اردو املاء کی تبدیلی کا شعوری عمل شروع کررکھا ہے۔ انھوں نے بہتر کو بھی توڑکر ’بہ تر‘ لکھنا درست قرار دیا ہے جو خود اہل زبان ایرانی بھی نہیں کرتے۔ اس سے قبل اس خاکسار نے اپنے گذشتہ کالموں میں اس غلط رَوِش کا برملا ذکر کیا ہے اور اپنے ادبی حلقے میں بھی گاہے گاہے یہ بات دُہرائی ہے کہ زبان میں ایسی شعوری تخریب نہ کی جائے [۔ ہمیں ہر شعبہ زندگی میں بہتری اور ترقی کے لیے بھرپور انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔

ہم ہر مسئلے کا حل اپنی بلدیہ، صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت سے چاہتے ہیں، خواہ وہ ہمارے گھر اور گلی میں بہنے والا گندہ پانی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ اس کے ذمے دار ہم خود ہی کیوں نہ ہوں۔ بخدا میں نے دیکھا ہے کہ گھروں کے سامنے ڈیڑھ سے ڈھائی سال تک بارش اور گٹر کا گندہ پانی جمع ہوہوکر ایک تالاب، گندے جوہڑ اور بالآخر کیچڑ یا دلدل کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ سڑک ٹوٹ گئی ہے تو اس کے لیے جتنے پیسے خرچ کرکے احتجاج کیا جاتا ہے ، اتنے میں سڑک بھی بنائی جاسکتی ہے، مگر ایسا کرنے کا خیال دل میں کیوں آئے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ پاکستان کے مسائل کا رونا تو ہر کوئی روتا ہے ، ان مسائل کے حل کے نام پر پیسہ تو بہت ساری غیرسرکاری تنظیمیں [NGOs]مال کھارہی ہیں، کام برائے نام کرتی ہیں، مگر اس سوچ کا فقدان ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل کرنا ہے، حل کا شور نہیں مچانا۔

مضمون کے عنوان کا آخری حصہ ہے : پے سے پاکستان۔ اپنا پیارا پاکستان۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک معاصر نے ایک بزرگ صحافی کے حوالے سے یہ بے سند قول نقل کیا تھا کہ چودھری رحمت علی، خالق ِ لفظ پاکستان نے یہ لفظ جب وضع کیا کہ جب اُن کی ملاقات، قرہ قلپاقستان [Karakalpakstan]سے آنے والے کچھ مہمانوں سے ہوئی۔ راقم نے اس سے قبل اپنے ایک مضمون ’’لفظ پاکستان کا خالق کون؟۔ چند معروضات‘‘ میں اس بات کی تردید کی تھی ۔ روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والا یہ مضمون انٹرنیٹ پر دست یاب ہے ، ذرا سی زحمت کریں تو پڑھ سکتے ہیں۔ آج پھر اہل ذوق کو دعوت عام ہے کہ ذرا، ازبکستان میں شامل ، نیم خودمختار جمہوریہ قرہ قلپاقستان کے متعلق تحقیق کریں اور پھر یہ بتائیں کہ یہ لفظ ’پاکستان‘ کیسے بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔