بُک شیلف

عبید اللہ عابد / فیاض احمد ساجد  اتوار 13 اگست 2017
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

نام…بہار آنے کو ہے(افسانے)
مصنفہ…قانتہ رابعہ
قیمت…225روپے
ناشر…ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمان مارکیٹ ،غزنی سٹریٹ ،اردوبازار ،لاہور

’بہارآنے کو ہے‘ مصنفہ کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ ’دردآشنائی‘،’ ان مع العسر یسراً‘،’ نہ تیراادھار‘،’ سیاہ محبت‘،’ گھر پیارا گھر‘،’ غیب کس کو کہتے ہیں‘،’ رب ملائی جوڑی‘،’ تیری رضا پہ ہے کون راضی‘،’ درآگہی‘،’ قرض حسنہ‘،’ حلال، حیا اور حوا کی بیٹی‘،’ جب صبحیں روشن ہوتی ہیں‘،’ بہارآنے کو ہے‘،’ آج زندگی ہے دوراہا‘،’ نیکیوں سے محروم لوگ‘،’ یہ کیسے ہوا، کیونکر ہوا؟‘،’کالی کملی والا‘،’سمندرمیں زوال‘،’یہ اس کے ہیں فیصلے‘،’کس کا دوش‘ اور’بس ابھی‘۔

یہ افسانے ہمارے اردگرد کے حالات و واقعات سے متاثر ہوکر لکھے گئے ہیں۔ان میں سے کچھ افسانے ایسے ہیں جنھیں لکھتے ہوئے خود مصنفہ کی آنکھوں سے بارش ہوتی رہی۔’اِنَّ مَعَ العُسرِ یُسرَاً‘ ایک ایسی کہانی ہے کہ فرد پر ایک آزمائش آتی ہے، پھردوسری، ساتھ ہی تیسری بھی، آزمائش در آزمائش، پھر جو ہوا، اسے دیکھ کر ’اِنَّ مَعَ العُسرِ یُسرَاً‘ کا مفہوم سمجھ آجاتاہے، سبق ملتاہے کہ مشکلات ، مسلسل مشکلات کے دورمیں ہمیں کس طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور نتیجے میں ہمیں کیا ملے گا۔’رب ملائی جوڑی‘ ایک لاپروا بیٹی کی کہانی ہے۔

شادی کی رات اس کے ساتھ کیا ہوتاہے، کہانی پڑھ کر انسان کا اللہ رب العزت کی سکیم پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے۔ اور ’ یہ کیسے ہوا، کیونکر ہوا؟‘ کے عنوان سے کہانی ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے جہاں بھاری بھرکم جہیز لانے والی بہو کو محض اس بات پر طلاق دیدی گئی کہ وہ بیٹیوں پہ بیٹیاں ہی پیداکررہی تھی لیکن پھر اس کے گھرانے کے ساتھ جو بیتی، اللہ کی پناہ! جاننے کے لئے کہانی ضرور پڑھئے گا۔ اور ’بس ابھی!‘ کے عنوان سے کہانی بتاتی ہے کہ جب ہرمسئلہ کو معرض التوا میں ڈال دیاجائے تو کیا آفت آپڑتی ہے اور ماں کو نظرانداز کیا جائے تو کیاہوتاہے۔ ان سب کہانیوں سے ملنے والے اسباق پلے باندھ لئے جائیں تو ہماری زندگیوں میں بہار آجائے۔

٭٭٭
نام… اسلامی فلاحی ریاست
مصنف… محمد وقاص خان
قیمت…درج نہیں
ناشر…محنت پبلی کیشنز، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ

اسلام کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ اس نے روحانی بالیدگی، قرب الٰہی اور اخلاقی سربلندی کے لئے ترک دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ دنیا کی زندگی کی تہذیب اور تطہیر کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایک مسلمان سے تقاضا کیاجاتاہے کہ وہ جس طرح نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کا اہتمام کرے، اسی طرح خاندانی ،اجتماعی، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی زندگی کی تشکیل بھی اُن اقدار، اصولوں اور قوانین کے مطابق کرے جو اسلام نے دئیے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ، خلفائے راشدین نے اسلامی اقدار، اصولوں اور قوانین کے مطابق ایسی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی کہ ویسی بہترین حکومت اس سے پہلے قائم ہوئی نہ ہی اس کے بعد۔ ثابت ہوا کہ اسلامی فلاحی ریاست کوئی خیالی منصوبہ نہیں تھا۔ اب بھی ایسا ہوسکتاہے، تاہم اب اگرکہیں کوئی مسلمان انہی خطوط پر ریاست تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں تو انہیں ’سیاسی اسلام‘ کا علمبردارقراردیاجاتاہے۔ یہ اصطلاح مغرب کی اختراع ہے، اس نے یہ اصطلاح اسلام دشمنی میں متعارف کرائی یا وہ اپنے دلائل میں مستحکم ہے؟ اسلامی ریاست حقیقت میں ہے کیا؟ انہی سوالات کے جوابات محمد وقاص خان نے زیرنظرکتاب کی صورت میں دئیے ہیں۔ پہلے دوابواب میں اسلامی ریاست اور غیراسلامی ریاست کا اصولی فرق بیان کیاگیا ہے، اسلامی ریاست کے مقصدِ وجود اور اس کے فلاحی تصور کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات دور کئے ہیں، جہاںاسلامی ریاست کے نظام معیشت، نظام تعلیم، اس میں خواتین کا کردارکو بیان کیاگیاہے، وہاں یہ بھی بتایاگیاہے کہ اس ریاست میں غیرمسلم کیسی زندگی بسر کریں گے، ذرائع ابلاغ کیسے کام کریں گے، امورخارجہ کیسے ہوں گے اور انسانوں کے بنیادی حقوق کیا ہوں گے، ان سب سوالات کے جامع اندازمیں جوابات فراہم کئے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں اسلامی تہذیب اور تہذیب جاہلیت کا تقابل کیاگیاہے، اسی طرح انقلابِ امامت کے لئے قرآن وسنت کے پیش کردہ ماڈلزبھی بیان کئے گئے ہیں۔ تالیف اس حیثیت سے بھی بہت مفید ہے کہ اس میں مصنف نے پوری تحقیق کے بعد متعلقہ مباحث پر کلام کیاہے اور جہاں اختلافات پائے جاتے ہیں، وہاں اعتدال کا راستہ متعارف کرایاہے۔

٭٭٭

نام…مائے نی میں کینوں آکھاں
مصنفہ… نازیہ کنول نازی
قیمت…500روپے
ناشر…القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردوبازار،لاہور

زیرنظرکتاب نازیہ کنول نازی کی لکھی ہوئی طویل کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ہمارے اردگرد پلنے اور بڑھنے والی یہ کہانیاں ہمیں بہت سے سبق دیتی ہیں۔ ایسے اسباق جو ہماری زندگی کوعذابوں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں، سکون اور خوشیاں فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً ’مائے نی میں کینوں آکھاں‘ ہی کے عنوان سے لکھی کہانی ہی کو پڑھ لیں۔اس کی مرکزی کردار تحریم بھی ان لڑکیوں میں سے تھی جو ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیوں کے ہیروز جیسا دولہا تلاش کرتی ہیں۔تاہم اس کے لئے رشتہ ایک پھل فروش کا آیا جو بیرون ملک جانے کا منصوبہ رکھتاتھا۔

والدین راضی تھے لیکن تحریم کو اپنے خواب بکھرتے نظرآئے۔ اسی اثنا میںکوئی بیرون ملک سے آیا اور لڑکی کو لے اڑا۔ تحریم کو خوابوں کا شہزادہ مل تو گیا لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ اسے اپنی چھوٹی بہن کو یہ سبق پڑھاناپڑا کہ’’امی سے کہنا، وہ رات کو تمہارے سونے سے پہلے نہ سویا کریں، کیونکہ شب کے اندھیرے میں جن جوان بیٹیوں کی مائیں اُن کے سونے سے پہلے سوجاتی ہیں، اُن بیٹیوں کا امتحان پھر زندگی اپنے ڈھب سے لیتی ہے۔‘‘ ’شہرخواب‘،’اک ستارہ ہومہربان‘،’رنگت چاہت کے‘،’ محبت خواب کی صورت‘،’ساجن تجھ سنگ عید میری‘،’حاصل عشق‘ اور’ محبت ماردیتی ہے‘ کے عنوانات سے لکھی گئی دیگر تمام کہانیاں بھی قاری کے ذہن و قلب کو مسخر کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سب کہانیاں ڈائجسٹوں کی دنیا میں شائع ہونے والی بہت سی رومانوی کہانیوں سے کہیں زیادہ بہترمحسوس ہوتی ہیں۔ فنی اعتبار سے بھی مضبوط ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے معاشرے کو نازیہ کنول نازی ایسی بہت سی کہانی کاروں کی ضرورت ہے جو ہمیں وہ سارے سبق سکھائیں جو ہماری ضرورت ہیں۔
٭٭٭
نام… لالہ رخ(ناول)
مصنف… قمراجنالوی
قیمت…500روپے
ناشر…مکتبہ القریش، سرکلر روڈ چوک اردوبازار لاہور

قمراجنالوی کا شمار اردو کے بہترین لکھاریوں میں ہوتاہے، انھوں نے اسلامی تاریخ کو اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ یوں وہ نسیم حجازی اور عنایت اللہ کی صف میں شامل ہوگئے۔ بیسویں صدی کے 20 زیادہ پڑھنے جانے والے لکھاریوں میں ایک نام قمراجنالوی کا بھی ہے۔1921ء میں اجنالہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے، تقسیم کے ساتھ ہی لاہور منتقل ہوگئے، پھر ساری زندگی اسی شہر میں گزاری،30مئی 1993ء کو آخری سانس جرمنی میں لیا۔ وہ صرف ناول نگار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے متعدد اردوفلموں کے سکرپٹ بھی لکھے۔مثلاً ’ماں باپ‘، ’لیلیٰ مجنوں‘، ’بزدل‘، ’دلاں وچ رب وسدا‘، ’میں نے کیا جرم کیا‘؟ اور ’انارکلی‘ کے مکالمے بھی قمراجنالوی ہی نے لکھے تھے۔ رہی بات ان کی ناول نگاری کی، پہلا ناول 1938ء میں ’شہیدپجارن‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ’مقدس مورتی‘،’جنگ مقدس‘،’چاہ بابل‘،’جہان لوح وقلم‘،’ولی عہد‘،’ دھرتی کا سفر‘،’ بغداد کی رات‘،’پنڈارے‘،’پرتھال‘،’شمشیر‘،’لاڈو‘ اور لالہ رخ‘۔ زیرنظرکہانی سن1857ء کی جنگ آزادی کے تناظر میں لکھی گئی ہے جو بتاتی ہے کہ اس جنگ میں ناکامی کے اسباب کیاتھے اور مغل عہد کیسے اختتام پذیر ہوا۔ اس میں مغل شہزادوں اور خواتین کی مشکلات بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

اس ناول کو اردو کے اس منفرد اور صاحب طرز ادیب کا ایک ادبی اعجاز سمجھنا چاہئے۔ یہ کسی کنیز اور شہزادے کی مفروضہ داستان نہیں ہے بلکہ مغلوں کے آخری دور کی وہ لزرہ خیز اور خونیں حکایت ہے جس میں انگریز نے ولن کا کردار اداکیا اور برصغیر سے مغل تہذیب کا خاتمہ کرنے اور مغل شہزادوں کو پھانسیوں پر لٹکاکر انگریز شہنشاہیت کے لئے میدان ہموارکیا۔ شہزادی لالہ رخ اس کہانی کا محور ومرکز ہے۔ اس میں جدوجہد آزادی کی کشمکش، ظالم ومظلوم کی آویزش اور گردش حالات کی زد میں آئی ہوئی تیموری حسینہ کی داستان محبت بیان کرنے کے لئے ایک نیا اور انوکھا اسلوب اختیار کیا گیا۔ اخلاق احمد دہلوی مرحوم نے قمراجنالوی کے بارے میں لکھاتھا کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے بجائے کوزے میں سے دریا نکالتے اور تاریخ کے سینے سے ایسی ایسی داستانیں کشید کرتے ہیں جنھیں اگر ایک دفعہ آپ پڑھنا شروع کردیں تو ختم کئے بغیر آپ کو چین نہیں آسکتا۔1857ء کی جنگ آزادی یا داستان غدر’ لالہ رخ‘ کے عنوان سے جس طرح انھوں نے ترتیب دی ہے وہ جناب قمراجنالوی ہی کا حصہ ہے۔ کوئی اور ہوتاتو خون تھوک دیتا، پھر جتنا اور جس طرح ان کا لکھنے کا تجربہ ہے، کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتاہے۔
٭٭٭
نام…علامہ اقبال کی اردو نثر مع حواشی و تعلیقات
تحقیق و تدوین…پروفیسر عبدالجبار شاکر
ناشر…نشریات، الحمد مارکیٹ ،اردو بازار لاہور

علامہ اقبال برعظیم کی ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں، جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے غلام قوم میں آزادی کی روح پھونک کر انھیں غلامی کی دلدل سے نکالا،خودی کو پہچاننے کا پیغام دیا ،امید اور حوصلہ دیا اور اپنے اسلاف سے جُڑنے کا درس دیا۔ علامہ اقبال کی شاعری پر تو بہت کام ہو چکا ہے اور ماہرینِ اقبالیات آئے دن نئے نئے نکات سامنے لارہے ہیں۔

ایساہی کچھ پیغام علامہ اقبال نے اپنے خطوط ،مضامین، بیانات اور دیگر نثری تحریروں وغیرہ میں بھی دیا ہے۔ بنیادی طور پریہ کتاب پروفیسر عبدالجبار شاکرکے ایم فل کا مقالہ ہے جو انھوں نے1995ء میں لکھا تھا۔کتاب میں علامہ اقبال کے بارہ مضامین(بچوں کی تعلیم و تربیت ، اردو زبان پنجاب میں، قومی زندگی ، دیباچہ مثنوی اسرارِ خودی ، اسرارخودی اور تصوف ،سرا اسرارِ خودی، علم ِ ظاہر وعلمِ باطن، تصوفِ وجودیہ ، دیباچہ مثنوی رموزِ بے خودی ، دیباچہ مثنوی اسرارِ خودی (طبع دوم)دیباچہ پیامِ مشرق، جغرافیائی حدود اور مسلمان) کو شامل کیا گیا ہے۔

ڈیڑھ ہزار کے قریب مکا تیب ،سیکڑوں بیانات ،بیسیوں تقاریر، درجنوں خطابات اور متعدد مضامین و ملفوظات،تبصرے ،پیغامات اور توصیفی اسناد بھی ان کے ذخیرہ نثر میں شامل ہیں۔ سن 1995ء میں تحریر کیاگیامقالہ چو نکہ21 سال بعد کتابی شکل میں نذرِ قارئین کیا گیا،اس لیے اسے از سرِ نو مرتب کرنا ضروری تھا۔ یہ خدمت ڈاکٹر خالد ندیم ( شعبہ اردو سرگودھا یونی ورسٹی ) نے بڑی محنت سے انجام دی ۔ انھوں نے تعلیقا ت، شخصیات، کتب و رسائل ، اخبارات ، فکر و فلسفہ ،مقامات و عمارات اور کتابیات میںخو ب محنت کی ہے۔خوبصورت سرورق اور مضبوط جلد کے ساتھ کتاب عمدہ پیشکش ہے۔

عصمت چغتائی کی تین کتابیں
سعادت حسن منٹو نے لکھاتھا:’’ عصمت کا قلم اور اس کی زبان دونوں بہت تیز ہیں۔ لکھنا شروع کرے گی تو کئی مرتبہ اس کا دماغ آگے نکل جائے گا اور الفاظ بہت پیچھے ہانپتے رہ جائیں گے۔ عصمت کے زنانہ اور مردانہ کرداروں میں بھی عجیب و غریب ضد یا انکار پایاجاتاہے۔ محبت میں بری طرح مبتلا ہیں لیکن نفرت کا اظہار کیے چلے جارہے ہیں۔ جی گال چومنے کو چاہتاہے لیکن اس میں سوئی کھبودیں گے۔ ہولے سے تھپکانا ہوتا تو ایسی دھول جمائیں گے کہ دوسرا بلبلا اٹھے۔ یہ جارحانہ قسم کی منفی محبت جو محض ایک کھیل کی صورت میں شروع ہوتی ہے، عام طور پر عصمت کے افسانوں میں ایک نہایت رحم انگیز صورت میں انجام پذیر ہوتی ہے۔عصمت کا اپنا انجام بھی اگر کچھ اسی طور پر ہوا اور میں اسے دیکھنے کے لئے زندہ رہا تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا‘‘۔

بھارتی ریاست اترپردیش کے مقام بدایوں میں پیدا ہونے والی عصمت خانم جو بعدازاں عصمت چغتائی کہلائیں، کے بارے میں منٹو نے کچھ بھی غلط نہیں لکھا۔پولیس افسر کی بیٹی، دس بہن بھائیوں میں نویں نمبر پر، بچپن ہی سے لڑکیوں سے مختلف تھیں، گلی میں لڑکوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتیں، چھت پر چڑھ کر پتنگ اڑاتیں، جوان ہوئیں تو لڑکیوں کے ایک سکول کی ہیڈمسٹریس تعینات ہوئیں، پھر ایک دوسرے سکول کی سربراہ ہوئیں لیکن پھر انسپکٹرسکولز،بعدازاں سپرنٹنڈنٹ سکولز کے طور پر کام کیا۔ ایک وقت آیا جب انھوں نے فلموں کے سکرپٹ لکھناشروع کردئیے۔ پھر آخری عمر تک لکھنے کا یہ سلسلہ چلتارہا۔ مزاج میں خوب تیزی اور ہٹ دھرمی تھی، تاش بھی جم کر کھیلتی تھیں، سگریٹ بھی خوب بھی پیتی تھیں اور شراب بھی۔ مسلمان گھرانے میں پیداہونے والی عصمت چغتائی نے مرتے وقت دفن کرنے کے بجائے نذرآتش کرنے کی وصیت کی۔

منٹو بھی انھیں پرلے درجے کی ہٹ دھرم قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ طبیعت میں ضد ہے لیکن بچوں کی سی، زندگی کے کسی نظریے کو، فطرت کے کسی قانون کو پہلے ہی سابقہ میں کبھی قبول نہیں کرے گی۔ پہلے شادی سے انکار کرتی رہی، جب آمادہ ہوئی تو بیوی بننے سے انکارکردیا، بیوی بننے پر جوں توں رضامند ہوئی تو ماں بننے سے منکر ہوگئی۔ تکلیفیں اٹھائے گی، صعوبتیں برداشت کرے گی، مگر ضد سے کبھی باز نہیں آئے گی۔میں سمجھتا ہوں یہ بھی اُس کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ زندگی کے حقائق سے دوچار ہوکر بلکہ ٹکڑا ٹکڑا کرکے ان کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی ہربات نرالی ہے‘‘۔

’لحاف‘،’ چھوئی موئی‘،’ تل‘،’شادی‘،’سونے کا انڈہ‘،’وہ کون تھا‘،’ نئی دلہن‘،’ تھوڑی سی پاگل‘،’پہلی لڑکی‘،’ عورت‘،’ اپنا خون‘،’ جوانی‘،’ڈائن‘،’آدھی عورت آدھا خواب‘ اور’محبوب‘ سمیت دیگر سب افسانے پڑھ لیں، اِس نرالی لکھاری نے جو لکھا، نرالا ہی لکھا۔ پڑھنے والے بھی مداح بھی بہت اور پڑھ کر ان سے لڑنے والے بھی بہت۔ متعدد لوگ سوچتے ہیں کہ انھوں نے اس اندازمیں کیوں لکھا؟ آخر وجہ کیا بنی؟ ظاہر ہے کہ اس کے لئے ان کی زندگی کا مطالعہ کرناپڑے گا۔ لیکن پہلے ’عصمت چغتائی کے شاہکار افسانے‘ پڑھیں، اس کے بعد ان کی آپ بیتی’ کاغذی ہے پیرھن‘ پڑھیں۔ یہ 70ء کی دہائی میں دہلی سے شائع ہونے والے جریدے’آج کل‘ میں اقساط کی صورت میں شائع ہوئی۔ افسوس یہ ہے کہ عصمت چغتائی اپنی زندگی کی کہانی مکمل نہ کرسکیں۔آنے والے برسوں میں بھی مصنفہ کی خواہش اور ارادے کے باوجود یہ سوانح نامکمل ہی رہی۔ تاہم یہ نامکمل آپ بیتی بھی اردو ادب کی دنیا میں خوب مقبول ہے۔

نہایت خوبصورت اندازمیں کتابیں شائع کرنے والے ادارے ’بک کارنر‘ جہلم کا اعزاز ہے کہ اس نے’ کاغذی ہے پیرھن‘ بھی چھاپی اور ’عصمت چغتائی کے شاہکار افسانے‘ بھی۔ اسی طرح ’امربیل‘ کے عنوان سے بھی افسانوں کا مجموعہ شائع کیا ہے جس میں ڈھائی درجن سے زائد افسانے شامل کئے ہیں۔ ان میں ’امربیل‘،’ تاریکی‘،’ تنہا تنہا‘،’ جال‘،’ جڑیں‘،’ جہاں اور بھی ہیں‘،’ چابڑے‘،’ بھول بھلیاں‘،’ بیڑیاں‘،’ پردے کے پیچھے‘،’ پنکچر‘،’ اللہ کا فضل‘،’ باندی‘،’کافر‘،’ گنگا  بہتی ہے‘،’ لمبے ہاتھ‘،’لفنگا‘،’ مٹھی مالش‘،’ نفرت‘،’ اندھایگ‘،’ بچپن‘،’ بچھوپھوپھی‘،’ بھیڑیں‘،’ بیکار‘،’ پیشہ‘،’ پینی‘،’ تیسرا دروازہ‘،’ چٹان‘،’ چندتصویربتاں‘،’ زرخرید‘،’ روشن‘،’ ساس‘ اور’ سفرمیں‘ شامل ہیں۔ ہرکتاب کی قیمت 480 روپے ہے۔آپ یہ کتب ’بک کارنر، جہلم‘ سے حاصل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔