پولیس پر دہشت گردانہ حملے، سدباب کیا جائے

ایڈیٹوریل  اتوار 13 اگست 2017
 دہشتگردوں کے عزائم سے واقف ہونے کے باوجود بھی احتیاطی تدابیر نہیں برتی جا رہیں ۔ فوٹو : فائل

دہشتگردوں کے عزائم سے واقف ہونے کے باوجود بھی احتیاطی تدابیر نہیں برتی جا رہیں ۔ فوٹو : فائل

ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردانہ حملوں کا سلسلہ لمبے عرصہ سے جاری ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ان دہشتگردوں نے سیکیورٹی، قانون نافذ کرنے والے اداروں، رینجرز، ٹریفک اہلکاروں اور پولیس کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔

جمعہ کو کراچی کے علاقے عزیز آباد میں موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں کی فائرنگ سے سرکاری کار میں سوار ٹریفک پولیس کا ڈی ایس پی اور ڈرائیور جاں بحق ہو گیا، موٹر سائیکل ملزمان نے کار پر سامنے اور دائیں جانب سے گولیاں برسائیں۔

دہشتگردوں کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ صبح 9 بجے جب کہ سڑکوں پر کافی ٹریفک ہوتا ہے، باآسانی اپنا ہدف پورا کرتے ہیں، فائرنگ کر کے انتہائی اطمینان سے ہلاکت کی تصدیق کرنے کے بعد کار میں سنگین نتائج کی دھمکیوں پر مشتمل پمفلٹ پھینک کر چلے جاتے ہیں، جیسے انھیں کسی مزاحمت، جوابی کارروائی اور پکڑے جانے کا چنداں خوف نہ ہو۔ پھینکے جانے والے پمفلٹ میں تنظیم کا نام انصار الشریعہ پاکستان درج ہے۔

پولیس اور سیکیورٹی اداروں پر دہشتگردوں کے حملے کے کثیر جہتی مقاصد ہوتے ہیں جس میں نہ صرف ریاست کو اپنے دباؤ میں لانا بلکہ عوام میں بھی خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ہی محفوظ نہیں تو عوام کی حفاظت کون کرے گا؟

دہشتگردوں کی جانب سے ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے یہ حملے لمحہ فکریہ ہیں جن کا فوری سدباب کیا جانا چاہیے۔ واردات میں ملوث دہشتگردوں کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لانا ہو گا۔ پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، گزشتہ ماہ بھی کراچی پولیس کے اہلکاروں کو مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا نیز ملک کے دیگر شہروں میں بھی پولیس اہلکاروں پر حملے ہو رہے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ دہشتگردوں کے عزائم سے واقف ہونے کے باوجود بھی احتیاطی تدابیر نہیں برتی جا رہیں، شرپسند عناصر گھات لگاکر وار کرتے ہیں اور انٹیلی جنس ادارے لاعلم رہتے ہیں، بعد از واردات ملزمان اس طرح اطمینان سے فرار ہوتے ہیں جیسے پارک میں ٹہلنے آئے ہوں، ان کو پکڑنا تو درکنار شاہراہوں پر لگے کیمرے ان کی شناخت تک کرنے سے محروم رہتے ہیں۔

قانون کو اب انتہائی سرعت سے فعال ہونا ہو گا، اگر ان معاملات کی بیخ کنی نہ کی گئی اور دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا گیا تو حالات مزید بدتر ہو سکتے ہیں۔ پانی سر سے اونچا ہو جانے سے پہلے جاگنا ہو گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔