یادوں کے دریچے

رفیع الزمان زبیری  اتوار 13 اگست 2017

یہ میری کتاب ’’یادوں کے دریچے‘‘ کا ایک باب ہے۔ 1945 اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دسمبر شروع ہوگیا تھا۔ تین مہینے بعد اپریل میں ہمارے میٹرک کے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول میں میرا آخری سال تھا۔

اس سال جو واقعات رونما ہوئے تھے وہ کچھ ایسے تھے کہ پڑھائی کی طرف توجہ کم رہی تھی۔ چنانچہ ہم دو تین دوستوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ رات کو مغرب کے بعد دیر تک جوائنٹ اسٹڈی کی جائے اور جن مضامین میں تیاری کم ہوئی ہے ان پر توجہ دی جائے خاص طور پر انگریزی اور حساب پر۔ میرے بارے میں میرے ساتھیوں کو یہ خوش گمانی تھی کہ میں ’’لائق‘‘ ہوں۔

حقیقت یہ تھی کہ میں لائق نہیں تھا مگر نالائق بھی نہیں تھا۔ پھر میری اسٹڈی باقی ان ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔اس پروگرام کو شروع ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہوگا کہ ایک رات جب ہم بڑی سنجیدگی سے پڑھائی میں مصروف تھے، ہمارے اسلامیات کے استاد مولانا محمد شریف ، ظہیر کے ہاں تشریف لائے۔

ہمیں ان کے اس طرح اچانک آنے پر کچھ تعجب ہوا۔ آتے ہی بلاتمہید انھوں نے ہم سے کہا ’’کچھ ہی دنوں میں ہندوستان کی مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے جو پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد وطن اور آزادی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ قائد اعظم کی ہدایت پر یونیورسٹی کے طلبا کی ٹیمیں مسلم لیگ کے امیدواروں کے لیے حمایت کرنے کی غرض سے مختلف مقامات پر بھیجی جا رہی ہیں۔ یونیورسٹی اسکول کے طلبا کی ایک جماعت کو بھی بھیجنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ میں نے اس جماعت کے لیے رفیع الزماں، ظہیر، حفیظ علی خان اور افتخار محمد خان آفریدی کا نام دے دیا ہے۔ میں خود اس جماعت کے نگراں کے طور پر ساتھ جاؤں گا۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوکر بولے ’’اور تم اس جماعت کے لیڈر ہوگے۔‘‘

میں یہ سن کر حیران ہوگیا۔ میرے تو تصور میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ مجھے ایسا کوئی اعزاز ملے گا۔ میں خوش بھی ہوا اور اس بات سے مطمئن کہ میرے دوست بھی اس جماعت میں میرے ساتھ ہوں گے اور خود مولانا شریف بھی۔ مولانا شریف صاحب نے بتایا کہ 19 دسمبر کو ہماری علی گڑھ سے روانگی ہوگی۔ پہلے ہم گونڈہ جائیں گے اور پھر بہرائچ۔ ہم دونوں ضلعوں کا دورہ کریں گے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر وقت تھوڑا ہے تم لوگ تیاری کرلو، چلے گئے۔

یہ 16 یا 17 دسمبر کی بات ہے۔ مولانا کے جانے کے بعد ہماری کتابیں تو بند ہوگئیں اور ہم اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ مولانا ہم سے مل کر کنور حفیظ کے ہاں گئے۔ وہیں انھوں نے افتخار محمد آفریدی کو بھی بلوالیا اور انھیں تیاری کی ہدایت کردی۔

ظہیر احمد صدیقی میرے بڑے عزیز دوست تھے۔ ہم دونوں کا بچپن سے ساتھ تھا۔ اسی طرح حفیظ اور افتخار تھے۔ میں ظہیر کے گھر سے اٹھ کر اپنے گھر آیا۔ دوسرے دن صبح کو میں تایا ابا سے جن کے ہاں میں رہتا تھا، الیکشن ورک پر جانے کی اجازت مانگی جو آسانی سے مل گئی۔

19 دسمبر کو پروگرام کے مطابق ہم علی گڑھ سے گونڈہ روانہ ہوگئے۔ یہ سفر میری زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ میں نہیں جانتا الیکشن ورک کے لیے یہ ٹیم کس نے ترتیب دی اور میں ہی کیوں اس کے لیے منتخب ہوا۔ یہ درست ہے کہ میں اپنے اسکول کا پرفیکٹ اور اسکول میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ میں بچہ مسلم لیگ کی جو 1942 میں ہمارے اسکول کے طلبا نے فصیح الدین کی قیادت میں قائد اعظم سے باقاعدہ ایک خط کے ذریعے اجازت لے کر اور ان کی سرپرستی میں بنائی تھی، ایگزیکٹیو کونسل کا ممبر تھا لیکن میرا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔

قائد اعظم نے بچہ مسلم لیگ کی سرپرستی اس شرط پر ہی قبول کی تھی کہ ہم سیاست سے دور اپنی تعلیم پر توجہ دیں گے۔ بہرحال یہ اللہ کی طرف سے میرے لیے ایک اعزاز تھا اور مجھے خوشی اور اطمینان ہے کہ میں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیا گو نہایت حقیر ہی سہی۔ کسی نیک مقصد اور آزادی کے لیے ایک قدم بھی کم نہیں۔

گونڈہ پہنچنے پر مسلم لیگ کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمارے پہنچنے کے دوسرے دن رات کو ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا پہلے سے اعلان کردیا گیا تھا۔ عشا کے بعد ایک میدان میں یہ جلسہ ہوا۔ خوب بڑا پنڈال تھا اور کافی بڑا مجمع تھا۔ شہرکے مسلمانوں میں بڑا جوش تھا اور شہر میں کانگریس کے اثر کے باوجود یہ جلسہ بہت کامیاب رہا۔ کانگریس کے ایک بڑے لیڈر اور آل انڈیا کمپنی کے ممبر رفیع احمد قدوائی کا گونڈہ سے تعلق تھا ان کی بڑی خدمات تھیں اور یہاں سے وہی کانگریس کی طرف سے مسلم نشست کے امیدوار تھے۔ ان کی کامیابی کا کانگریس کو یقین تھا۔ مسلم لیگ کے لیے یہ معاملہ بہت اہم تھا۔

گونڈہ کے جلسۂ عام کی صدارت شاید آزاد سبحانی صاحب کر رہے تھے۔ پہلے ہماری ٹیم کا تعارف کرایا گیا، پھر مولانا شریف صاحب نے مختصر سی تقریر کی۔ اس کے بعد مجھے دعوت دی گئی۔ میرا حال تو یہ تھا کہ میں نے کبھی کلاس میں کھڑے ہوکر سوال نہیں کیا تھا اور یہاں اتنے بڑے مجمع میں مجھ سے تقریرکرنے کو کہا جا رہا تھا۔ دسمبر کی سردیوں میں مجھے پسینہ آگیا۔ میں مائیک کے سامنے آکر کھڑا تو ہوگیا لیکن ڈر لگ رہا تھا کہ یا تو ٹانگیں جواب دے جائیں گی یا زبان۔ پھر اللہ نے ہمت دی اور میں نے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی پاکستان کی تحریک کا ذکر کیا اور علی گڑھ سے چل کر یہاں تک آنے کے صلے میں مسلم لیگی امیدوار کو جتانے کی درخواست کی۔ جب تقریر ختم ہوئی تو خوب تالیاں بجیں اور نعرے لگے۔

اگلے دن گونڈہ سے مسلم لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار روشن زمان سے ملاقات ایک استقبالیہ میں ہوئی جو ہمارے اعزاز میں ایک پارک میں اہل شہر کی طرف سے دیا گیا تھا۔ بہت اچھے آدمی تھے۔ بعد میں ان ہی کو مسلم لیگ کا ٹکٹ ملا اور وہ رفیع احمد قدوائی کو ایک بڑے مارجن سے ہرا کر ہندوستان کی مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ روشن زمان آل انڈیا مسلم لیگ کنونشن میں شرکت کے لیے دہلی آئے تو یونیورسٹی یونین نے انھیں علی گڑھ بلایا۔ یونین ہال میں ان کی تقریر تھی۔ میں بھی سننے گیا۔ تقریر کے بعد جب انھوں نے مجھے دیکھا تو لپٹ گئے۔

پھر ہم بہرائچ گئے ۔ وہاں ایک بیرسٹر صاحب جو مسلم لیگ کے امیدوار تھے، ہمارے میزبان تھے۔ یہاں صورتحال مسلم لیگ کے حق میں اچھی نہیں تھی۔ کئی مقامی بااثر مسلمان کانگریس کے حامی اور ورکر تھے۔ ہم نے شہر میں گشت کیا مگر کوئی جلسہ یہاں نہیں ہوا۔ ہم بلرام پور بھی گئے۔ وہاں رضوی صاحب جو مسلم لیگ کے امیدوار تھے ان سے ملے ایک مسجد میں بعد نماز عشا جلسہ تھا۔ میں نے وہاں تقریر کی۔ پھر ہم نے دیہات کا رخ کیا۔ یہ علاقہ کانگریس کا گڑھ کہلاتا تھا۔

جمعے کی نماز کے بعد جلسہ ہوا جس میں شریف صاحب اور میں نے تقریرکی۔ پھر ایک گاؤں میں جہاں ہفتہ واری بازار لگا تھا وہاں بھی ہم گئے۔ یہاں میں نے ایک دکان کے تختے پر کھڑے ہوکر تقریرکی، خاصا بڑا مجمع اکٹھا ہوگیا۔  بلرام پور میں یہ واقعہ ہوا کہ آخری شب ہم جب مسجد سے عشا کی نماز پڑھ کر نکلے تو ایک ہماری ہی عمر کا لڑکا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’ میرے والد بیمار ہیں، آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔ خود نہیں آسکے تو مجھے بھیجا ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔‘‘

مولانا شریف نے معذرت کی اورکہا کہ ہم کہیں اور جگہ مہمان ہیں۔ لڑکے نے کہا ’’میں نے آپ کے میزبان سے اجازت لے لی ہے۔ بس اب آپ ہمارے ساتھ چلیے۔‘‘ مولانا نے میری طرف دیکھا تو لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اورکہنے لگا ’’میرے والد بہت بیمار ہیں۔ یہ ان کی آخری خواہش ہے۔ وہ علی گڑھ کے پرستار ہیں اور مسلم لیگ کی تائید کو دین کی تائید سمجھتے ہیں۔ آپ انکار نہ کیجیے‘‘

ہم اس لڑکے کے ساتھ چلے گئے۔ ان کا چھوٹا سا گھر تھا۔ والد بستر پر دراز تھے۔ ان سے اٹھنا بھی مشکل تھا مگر جس طرح انھوں نے ہمارا خیرمقدم کیا اور جس محبت سے مجھے گلے لگایا وہ میں کیا بیان کروں۔ ہم نے ان کے ہاں کھانا کھایا۔ ان کی مسرت دیدنی تھی۔ بعد میں یہ لڑکا جب علی گڑھ آیا اور یونیورسٹی میں داخل ہوا تو مجھ سے ملا۔ اس نے کہا، جس رات آپ لوگ میرے باپ کی خواہش پوری کرنے ہمارے ہاں آئے تھے، وہ ان کی اس دنیا میں آخری رات تھی۔ صبح ہوتے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔