کہاں کھوگئے ہیں تیرے چارہ گر

شاہد سردار  اتوار 13 اگست 2017

بعض تاریخیں، مہینے اور سال کسی قوم کی زندگی میں خاص اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔ جن کا بار بار تذکرہ ہوتا رہتا ہے اور ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 14 اگست 1947 ہمارے ملک پاکستان کا ایک ایسا ہی حوالہ یا استعارہ ہے اور یہ ایک مسلم امر ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی وتنزلی میں اس کے اہل فکر و دانش کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر نظر رکھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو اسی قدر وہ قوم ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتی ہے، لیکن جس قوم کا یہ طبقہ اپنے کردار سے غافل ہوجائے یا اس کی ادائیگی سے پہلوتہی کرے اسی قدر اس قوم کے زوال کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

زندہ معاشرے اپنی چیخوں، اپنے آنسوؤں سے پہچانے جاتے ہیں اور زندہ لغزشوں جیسے سکتہ زدہ معاشرے اپنی خاموشی، اپنی بے حسی اور اپنی خشک آنکھوں سے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا یہ ملک، یہ معاشرہ ایک سکتہ زدہ لغزش بن چکا ہے۔ یہ تباہ ہوجائے، دو ٹکڑے ہوجائے، اس پر کوئی قابض ہوجائے، کوئی اسے لوٹ کرکھا جائے، کوئی اسے بیچ کھائے، کوئی اس کی آزادی، سالمیت اورخود مختاری کا سودا کرجائے، کوئی اس کا آئین، قانون یا دستور روند جائے، شہر تباہ کرجائے، لوگوں کو خون میں نہلادے، چند لاکھ ڈالروں کے عوض ہمارے ملک کے لوگوں کو رہن رکھ جائے، اس معاشرے کے حلق سے کوئی چیخ برآمد نہیں ہوتی،کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی۔

بدقسمتی سے ہمارے اندر ایک منظم قوم اور ایک منظم معاشرے کی خصوصیات فروغ نہیں پاسکی ہیں۔ 71 برس گزر جانے کے باوجود بھی ہم نے پاکستان نام کا ملک ضرور بنالیا لیکن اسے قوم کو شکل نہیں دے سکے، اس لیے کہ ملک اور قوم میں وہی فرق ہوتا ہے جو مکان اورگھر میں ہوتا ہے۔ مکان اینٹ، پتھر، سریے اور سیمنٹ سے بنتا ہے اورگھر رشتوں سے تعمیر ہوتا ہے۔

اصول یہ ہے کہ کسی ادارے یا گروہ کی قدر پیمائی اس کے بہترین نمونوں سے متعین ہوتی ہے۔ بد ترین مثالوں سے نہیں۔ ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ ہم انصاف کی بنیاد پرکوئی ’’اخلاقی میثاق‘‘ مرتب نہیں کرسکے۔ ہم 71 برس گزرنے کے بعد بھی سمجھ نہیں پائے کہ قومی خود مختاری کا مطلب من مانی کرنے کی کھلی چھٹی نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے نام پر نہ شہریوں سے ان کا حق چھینا جاتا ہے اور نہ ہی عدل کے نام پر لٹکائی گئی ترازو میں طاقت کے پلڑے سے جھولتے رہنا انصاف کا منصب ہوتا ہے۔ ہم لوگ وہاں شور نہیں کرتے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں شور مچانا ضروری ہوتا ہے وہاں ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ ہماری قوم کی اصل بد قسمتی یہی ہے کہ ہم نے ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشو میں تبدیل کرلیا ہے۔

یہ ہمارے ملک کی بڑی تکلیف دہ تاریخ اور حقیقت ہے کہ ہمارے ملک نے کوئی زیادہ مقبول لیڈر یا رہنما پیدا نہیں کیے اور جنھوں نے شہرت و مقبولیت پائی انھیں قتل کردیا گیا، پھانسی پر چڑھادیا گیا۔اور یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کسی رہنما نے قابل تقلید مثال بن کر قوم کی رہنمائی کی اور جب وہ حکومت چھوڑ کرگئے تو ان کا ریکارڈ بے داغ رہا ہو۔ کسی بھی جمہوری ملک میں صدر یا وزیراعظم کو مواخذے یا عدم اعتماد کے ووٹ سے ہٹایا جاسکتا ہے یا پھر وہ اپنے خلاف کسی تحریک کے نتیجے میں اخلاقی بنیادوں اور عوامی دباؤ پر از خود مستعفی ہوجاتے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں ہم آج تک اخلاقیات کی کوئی مناسب تعریف مرتب نہیں کرسکے۔ اس ملک کی کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ اس کے 70 برس میں سے 35 برس مارشل لا کی نذر ہوئے۔ باقی عرصے میں لنگڑی لولی جمہوریت حصے میں آئی۔ کتنے صدمے کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف ایک جمہوری سیاسی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی میعاد مکمل کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ ستر برسوں میں ہم کوئی یکساں مقبول اور ہر دلعزیز رہنما پیدا نہیں کرسکے۔ افسوس پاکستان کو اب بھی برسوں بعد درست اور سچے جمہوری نظام کی تلاش ہے جس میں رہنما اور ادارے قابل مواخذہ ہوں۔

تاریخ اور سیاست کے ادنیٰ طالب علم اور جمہوریت کے داعی ہونے کے ناتے ہمیں بڑی بد دلی سے یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ 20 کروڑ عوام کا منتخب کردہ وزیراعظم ہمارے ملک میں کتنا کمزور یا ناتواں ہوتا ہے جسے جب چاہے کوئی مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر پھینک دے۔ سیاست میں سازشوں کا شور بڑھ جائے تو پاکستان جیسے ملک میں جمہوری نظام ڈانواں ڈول ہوجاتا ہے اور جمہوریت کی کشتی ہچکولے کھانے لگتی ہے۔ تاہم نوازشریف کے بعد اب پرویز مشرف کے احتساب کے مطالبے میں شدت آئے گی ۔

جہاں تک احتساب کے قانون کی بات ہے تو اسے بلاشبہ زیادہ موثر ہونا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اس ضمن میں تمام صوبوں کے دانشوروں، احتساب کے تمام اداروں کے نمائندوں کی مشاورت آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے لیے اہم نقطہ یہ ہے کہ اداروں کی اداروں میں مداخلت کا راستہ دائمی طور پر بند ہونا چاہیے اگر چیف ایگزیکٹو کا منصب یوں ہی معذور یا بے ساکھیوں کا محتاج رہا تو پھر اس کے نتائج ملک کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوںگے۔

ستر برس کسی ملک کی وجود میں آنے کا بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے لیکن ہم سوائے ایٹمی صلاحیت کے بالکل پسماندہ حالت میں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی حکمران آئے انھوں نے کبھی تعلیم اور ٹیکنالوجی کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور آج بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ جاہل اور نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ملکی ترقی کا پروگرام دینے سے ملک سدھرتا تو کیسے؟ جو نا اہل یا نابلد ایک چھوٹے سے شہر یا گاؤں کی تعمیر و ترقی نہیں کرسکتے ان کے ہاتھوں میں پورے ملک کا نظام چلے جانے سے ملک کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔

ہمارے ملک میں چھوٹے روپوں کی جگہ عرصہ دراز سے سکوں کو سکہ رائج الوقت بنادیا گیا ہے اور یہ عالمی معیشت کا اصول ہے کہ جس ملک میں کرنسی نوٹ کی جگہ سکے استعمال کیے جائیں اس کی قدروقیمت میں کمی آجاتی ہے۔ ہم اپنی بے وقعتی کو نہ جانے کیوں اقوام عالم پر ظاہرکرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہمارے ارباب اختیار اپنے مفاد کے بجائے خدا کے لیے اپنی ’’ٹیکسٹائل‘‘ میں کوئی ایسا نظام ڈھالیں جس کی کرنسی اتنی بے وقعت نہ ہوکہ لوگ اس کے ہاتھ سے گرنے کی تمنا کرنے لگیں۔خدا کرے جلد ہماری ابن الوقت، مکار، لالچی اور اپنے مفاد میں یکتا سیاست دانوں یا حکمرانوں سے ہماری اور ہمارے ملک کی جان چھوٹے اور کوئی نیک، راست اور ایماندار انسان آئے جو اچھے، تجربہ کار، ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کی فیلڈ کا فریضہ سونپے تاکہ ملک کی حالت سدھر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔