بے ہدائتے تیر کی طرح سیدھے

حمید احمد سیٹھی  اتوار 13 اگست 2017
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

لندن آئے ہوئے دس دن ہو چلے تھے کہ قریب سے گزرتی ایک موٹر کار کا ہارن سن کر بے خیالی میں مجھے شک گزارا کہ میں لاہور میں ہوں۔ دراصل دس منٹ میں دس سے زیادہ ہارنوں کی آواز کانوں میں آنا ایک معمولی کی بات ہونے کی وجہ سے شروع کے ایک دو دن تو کانوں کو یقین ہی نہیں آیا تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک چل بھی رہی ہے یا نظر کا دھوکہ ہے۔

پھر آتے جاتے میں منتظر رہا کہ کسی طرف سے دوبارہ ہارن کی آواز آئے اور میں پاکستان واپسی پر لوگوں کو بتا سکوں کہ موٹروں کے مینو فیکچررز نے ان کے اندر ہارن آخر بجانے کے لیے ہی تو لگائے ہیں اور پاکستان کے موٹریں چلانے والے ہارن کا استعمال اسی طرح کرتے ہیں جیسے وہ کلچ بریک اور ایکسلریٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ آخر یہ موٹر سائیکل، رکشہ، ویگن، بس اور کار میں ہارن بجانے کے لیے ہی تو لگائے گئے ہیں اور ہم لوگ تو ہارن کے استعمال میں کنجوسی نہیں کرتے۔

اسی طرح لندن میں سڑک یا کسی موڑ پر اچانک گاڑیوں کی لمبی قطار لگ جاتی تو یہ کاہلی پسند اپنے سے آگے والی موٹر کو چلانے کے لیے ہارن کا استعمال کرنے کے بجائے چپ چاپ کھڑے رہتے، نہ ہارن بجاتے نہ گاڑی سے اتر کر اپنے آگے کھڑی گاڑی کے ڈرائیور کو شرم دلواتے بلکہ یہ سست لوگ کچھ بھی نہ کرتے جب کہ ہمارے ہاں تو تین گاڑیاں آگے پیچھے رک جائیں تو پیچھے کھڑی دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور بیک وقت آگے والے کو شرمندہ کرنے کے لیے ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

ہمارے ہائی وے پر ٹرک چلانے والوں نے اپنے پیچھے آنے والے موٹر گاڑی والوں کو بڑی شرافت سے متنبہ کر دیا ہوتا ہے کہ میں تمہیں آگے جانے کا رستہ نہیں دوں گا، لہٰذا تمہیں مجھ سے اجازت لینا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے ٹرک کے پچھلے حصے پر لکھوا دیتے ہیں کہ ’’ہارن دے کر پاس کریں‘‘ اور وہ بھی ضروری نہیں اس کی مرضی ہو گی تو پاس کرنے دے گا۔ اسی لیے لمبے روٹ پر بس یا ٹرک کے ڈرائیور سڑک کے درمیان گاڑی چلانا پسند کرتے ہیں۔

ہارن بجانے کے شوقین حضرات کی خصوصی توجہ کے طور پر ہمارے ہاں بعض اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کے قریب تختی لگائی جاتی ہے جس پر ڈرائیور حضرات کے لیے وارننگ کے طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’یہاں ہارن بجانا منع ہے‘‘ لیکن حقیقتاً یہ درخواست ہی ہوتی ہے، ہمارے موٹر اور موٹر سائیکل سوار حضرات کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو عادتاً ہارن بجاتے چلے جاتے ہیں، دوسرے وہ جو کسی حادثے کی پیش بندی کرتے ہوئے گھبراہٹ میں ہارن بجانے کی عادت میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ شور جیسا بھی ہو یہ Pollution کی وہ قسم ہے جس میں مدت تک رہنے والا کسی نہ کسی حد تک بہرے پن کا شکار لازمی ہو کر رہتا ہے۔ البتہ کسی کو اس کا احساس زیادہ اور کسی کو کم ہوتا ہے۔

بازاروں، مارکیٹوں میں چلتے پھرتے ہمارے مرد حضرات کو دوسرے راہگیروں اور خصوصاً خوش پوش و خوش قطع خواتین کو دیدے پھاڑ کر نہیں تو بہر حال ایک نظر دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ بعض لوگ تو قریب سے گزر جانے کے بعد گھوم کر بھی یہ حرکت کرتے دیکھے گئے ہیں۔ بعض ندیدے تو نظریں ملانے کی بھی اوچھی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میرے لندن کے گزشتہ پندرہ روزہ قیام اور اس سے پہلی وزٹس کی آبزرویشن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ وہاں ہر کوئی اپنے کام سے مطلب رکھتا ہے۔

دوسروں کو گھورتے ہوئے گزرنا تو دور کی بات وہ آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں اور آمنے سامنے آ جانے کا امکان ہو تو پانچ سات قدم کے فاصلے پر ہی زاویہ بدل لیتا ہے۔ اکثریت کی پیدل رفتار تیز ہوتی ہے۔ وہ ڈگمگانے، رک رک کر چلنے، دائیں بائیں کے مناظر کا جائزہ لیتے ہوئے چلنے کے بجائے وقت بچا کر اپنی منزل کی طرف چل کر اگلی مصروفیت کے لیے کوشاں پائے جاتے ہیں جب کہ ہماری بے تحاشہ سست رو، نکمی، جاہل کاہل، نکٹھو، بے منزلی، پریشاں حال، افلاس زدہ اور فارغ البال اکثریت ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا‘‘ کی تصویر بنی دیکھی جا سکتی ہے۔

ہم میں سے ہر کسی کو بجلی، گیس، پانی، ٹیلیفون وغیرہ کے بل جمع کرانے، بینک میں رقم جمع کرانے یا وہاں سے نکلوانے، بس وغیرہ میں سوار ہونے، کسی اسٹور سے خرید کر رقم کی ادائیگی کرنے، کسی فنکشن ہال میں داخل ہونے، مشہور فلم یا تھیٹر کے پہلے دنوں ٹکٹ خریدنے یا کسی ایسی جگہ کام ہو جہاں اپنی باری آنے کا انتظار کرنا پڑے تو ہم بے چین ہو جاتے اور دوسرے کا حق مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اصول ہے ’’پہلے آؤ پہلے پاؤ‘‘ یا انگریزی میں ”First Come First Served”۔

جب پاکستان کی فلم انڈسٹری کا عروج تھا تو فلم شو کے پہلے دنوں یا عید کے موقع پر فلم شو کے پہلے دن ٹکٹ ونڈو پر گھمسان کا رن پڑتا تھا۔ خوب ’’گھسن مُکی‘‘ ہوتا تھا، لوگ آگے والے کے کندھے پر چڑھ کر ٹکٹ ونڈو تک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن وہ دور لد گیا، اب سینما ہال ویران ہیں۔ دوسری مذکورہ بالا جگہوں میں سے کچھ پر ٹکٹ سسٹم سے قطار توڑنے کی عادت میں کمی آ گئی ہے۔ لیکن جن جگہوں پر کوئی ایسا سسٹم نہیں ہے وہاں اب بھی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہو کر قطار بنانے کے بجائے جہالت کا راج ہے۔

لندن میں گزارے گزشتہ پندرہ دنوں میں باری کے انتظار میں لمبی قطاریں بنی دیکھیں اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو چھو نہیں رہا تھا۔ ہر کوئی فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوتا تھا، کوئی غلطی سے چھو جائے تو فوراً معافی مانگتا دیکھا، تھینک یو اور سوری کہنا گویا ان کا تکیہ کلام ہے۔ لیکن جس چیز کی خوشی محسوس ہوئی وہ یہ کہ اپنے یہاں کے تمام بے ہدائتے بے اصولے اور بدتمیز برطانیہ میں Asylum لے کر وہاں آباد ہوئے تو تیر کی طرح سیدے ہو گئے ملے۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس معجزے پر غور کیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔