بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

رئیس فاطمہ  اتوار 13 اگست 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

افسوس کہ پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ سیاست میں تہذیب اور شائستگی برسوں سے ناپید ہے۔ مخالفین ایک دوسرے پر نعرہ بازی اورکیچڑ اچھالنے میں پیش پیش ہیں۔ اخلاقی پستی کی انتہا یہ ہے کہ اب خواتین کے ذریعے لڑائی لڑی جا رہی ہے۔گاؤں کی پنچایت اور قومی اسمبلی دونوں ساتھ کھڑی ہیں۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا عائشہ گلالئی والے موضوع پر قلم اٹھانے کا کہ وہی مثل ہے:

لگے منہ بھی چڑانے‘ دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی‘ سو بگڑی تھی‘ خبر لیجیے دہن بگڑا

صرف سیاستدان ہی نہیں صحافت کا دہن بھی بری طرح بگڑچکا ہے۔ لکھاری، صحافی، اینکرز، رپورٹرز،کالم نویس سب واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ سب نے اپنی اپنی عدالتیں معہ پیش گوئیوں کے سجا رکھی ہیں۔ اسمبلیاں مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ وہی پنچایتی قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے پروردہ حکومت میں بیٹھے ہیں۔ ہم پنچایتوں پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن عائشہ گلالئی نے جو الزامات عمران خان پر لگائے ہیں ان کی ٹائمنگ (Timing) سے سیتا وائٹ والے واقعات اور الزامات کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ سابق وزیر اعظم کے نااہل ہونے کے بعد (ن) لیگ کی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف یقینی ہوگا اور وہ سیتا وائٹ اور اس کی بیٹی کا کیس ری اوپن کرینگے لیکن یہاں نئے ہتھیاروں سے لیس عائشہ گلالئی میدان میں اتری ہیں۔ وہ لاکھ کہیں کہ ان کا (ن) لیگ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن چار سال تک خاموش رہنے کے بعد اچانک انھیں پی ٹی آئی میں کیڑے نظر آنے لگے۔ کے پی کے کی حکومت کو دیکھ کر انھیں ریاست مدینہ کی یاد آجاتی تھی۔ وہی پارٹی اب ان کی نظروں میں کھٹکنے لگی۔

چار سال تک وہ عمران خان کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہتی رہیں پھر اچانک پلٹا کھایا اور عمران خان انھیں اخلاقی طور پر بدکردار نظر آنے لگے۔ چار سال کی طویل خاموشی کے بعد اچانک پارٹی لیڈر پہ تابڑ توڑ حملے کرنا اور پریس کانفرنس کرنا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ پہلے جاوید ہاشمی کو میدان میں اتارا گیا اور اب عائشہ گلالئی کو۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ سچ ہے اس سازش کا مرکزی کردار بننے کے بعد ’’عزت سادات‘‘ داؤ پر لگ گئی۔

دوسری طرف عائشہ احد کا کیس بھی سامنے ہے۔ ماضی میں مصطفیٰ کھر کی بہوکا معاملہ بھی سامنے آیا تھا لیکن کیا ہوا؟ وہی بات کہ ’’زبردست مارے اور رونے نہ دے‘‘۔ گزشتہ 70 سال سے ہمارے وطن کی سیاست اس رقاصہ کی مانند ہے جو تماش بینوں میں گھری ہوئی ہے۔ مخالفین کی ذاتی زندگی کے کمزور لمحوں کی فائلیں بنوانا انھیں بلیک میل کرنا، بوقت ضرورت ان فائلوں اور ریکارڈ کو نکال کر ان سے من مانے بیانات دلوانا بہت پرانی رسم ہے۔

دراصل ملک میں عمران خان کی پارٹی کی مقبولیت سے دوسری پارٹیاں خوفزدہ ہیں۔ یہاں تو ’’پچھلی باری تیری تو اگلی باری میری‘‘ کا گراموفون ریکارڈ بج رہا ہے جس کی سوئی اسی تکرار پہ اٹک گئی ہے۔ باشعور عوام تھک گئے ہیں۔ وہی لوٹ مار، وہی پرانے چہرے جن کا دین ایمان پیسہ ہے، لوٹو اورکھاؤ، مال بناؤ اور خود کوکرپشن کا بادشاہ ثابت کرکے وکٹری (V) کا نشان بناؤ۔ عام کارکنوں کو صرف نعرے بازی کے لیے استعمال کرو اور الیکشن کے لیے ان ریس کے گھوڑوں کا انتخاب کرو جو کروڑوں کا فنڈ دے کر وزیر بن سکیں اور پھر ان کروڑوں کی جگہ اربوں کما سکیں۔

بینکوں سے قرضہ لے کر ہڑپ کرنیوالوں کو وزارتیں دو۔ ایک عام آدمی اگر سرکاری ادارے کا قرضہ وقت پر ادا نہ کرے تو اس کی جائیداد قرق کرلو اور جو سیاسی بنیادوں پر کروڑوں کے قرضے معہ سود ہضم کر جائیں انھیں ’’عزت مآب‘‘ سمجھ کر چھوڑ دو۔ اسی لیے ایک عام آدمی کی سوچ بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ عمران خان اگر واقعی ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے دامن پہ لگائے جانے والے داغوں اور کردار کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

پی ٹی آئی والوں کا یہ موقف قابل توجہ ہے کہ جلسے کے اگلے دن عائشہ گلالئی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بنی گالا پہنچی اور فرمایا کہ اگلے الیکشن میں پشاور ون کی سیٹ کے لیے انھیں نامزد کیا جائے۔ عمران خان نے غالباً کوئی مثبت جواب نہ دیا لہٰذا اگلے ہی روز گلالئی نے وہ کیا جس کی پلاننگ کچھ طالع آزماؤں نے کی تھی تاکہ اس بھونچال سے ’’اگلی باری میری باری‘‘ والوں کے راستے صاف ہوجائیں۔

مجھے کہنے دیجیے کہ لوگ باریوں کے کھیل سے بے حد دل برداشتہ ہوچکے ہیں قوم کو عمران خان سے کافی امیدیں ہیں۔ جس طرح عمران خان کے خلاف لابنگ ہو رہی ہے، جوڑ توڑ ہو رہے ہیں، خرید و فروخت جاری ہے، بازار سیاست میں غلام ابن غلام بکنے کو تیارکھڑے ہیں وہاں عمران کو اس شعر کو سمجھنا چاہیے۔

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اُڑانے کے لیے

عائشہ گلالئی کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں آنے سے پہلے محترمہ کئی پارٹیاں بدل چکی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی میں بھی رہیں، پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ بھی جوائن کی اور آخر میں تحریک انصاف سے منسلک ہوکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب اگلی منزل کون سی ہوگی؟ جس کی تیاری انھوں نے ایک دم کرلی۔

یہ کہنا مناسب ہوگا کہ عمران پر بدکرداری کا الزام عائد کرکے وہ یقینا کسی بڑی ڈیل کا حصہ بن چکی ہوں گی اور اگر ان کے الزامات درست ہیں تو ان کی تحقیقات غیر جانبداری سے ہونی چاہئیں۔ جس انداز میں گلالئی نے الزامات کا وہ ٹوکرا جسے وہ چار سال سے اپنے دوپٹے میں سمیٹے بیٹھی تھیں اچانک عمران پر الٹ دینے کے بعد اس مصرعے کی تفسیر بن گئی:

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

ویسے بھی کوچۂ سیاست میں رسوائی ہی کامیابی کا زینہ بنتی ہے۔ چھوٹی موٹی بدنامی کو لوگ خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ زمانے گئے جب صاحب کردار لوگ سیاست میں قدم رکھتے تھے۔ محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خاں، بہادر یار جنگ، مولانا ظفر علی خاں، حسرت موہانی، حسین شہید سہروردی، مولوی فضل الحق، سردار عبدالرب نشتر جیسے لوگ اب موجود نہیں ہیں۔ سیاست صرف پیسے کا کھیل ہے۔ پارٹی فنڈ میں منہ مانگی رقم کے عوض مطلوبہ وزارت پکی ہوتی ہے اور یہ رقم الیکشن جیتنے کے پہلے سال میں واپس جیب میں آجاتی ہے۔ بقیہ دنوں میں منافع کمایا جاتا ہے۔

دور دور تک تاریکی ہے، عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہے، ملک میں کوئی قانون ہے نہ احتساب کا ادارہ۔ مہنگائی پَر لگا کر اڑ رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ دن بہ دن ہر چیز کے دام کیوں بڑھ رہے ہیں؟ ڈیزل، پٹرول اور گیس کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرائے کم کیوں نہیں ہو رہے، ایک ویگن سے لے کر ہوائی جہاز تک کے کرائے من مانی بنیادوں پر بڑھائے جا رہے ہیں۔ بنیادی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے ایک ملازمت پیشہ آدمی کو سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس ضرورت کو پہلے پورا کرے اور کس کو بعد میں۔ خودکشیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔

ایسے دور پُرفتن میں کہ جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے عوام کی اکثریت کا عمران خان کی طرف دیکھنا جائز لگتا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کو چاہیے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیں تہذیب و شائستگی کو اپنائیں، اپنے قول و فعل سے دشمنوں اور مخالفین کے وارکو ناکام بنا دیں۔

عمران خان چونکہ کرپٹ لوگوں کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہیں اس لیے ہر طرف سے ان پر گولہ باری کی جا رہی ہے۔ وہ اپنے ٹارگٹ پہ نظر رکھیں۔ مخالفوں کی باتوں پہ کان نہ دھریں۔ دراصل عمران خان بڑے مگرمچھوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں اس لیے سارے چور اور گرہ کٹ اکٹھے ہوگئے ہیں لیکن عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں کہ جہاں 70 سال سے شیروانی، تھری پیس سوٹ اور وردی حکومت کر رہے ہیں اور ہر شعبے میں مال بنا رہے ہیں وہیں ایک موقع تحریک انصاف کو بھی ملنا چاہیے۔ دیکھیں یہ اپنے وعدے کس طرح پورے کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔