نواز شریف کی لاہور واپسی

عبدالقادر حسن  اتوار 13 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک بار پھر اقتدار سے علیحدگی کے بعد نواز شریف واپس اپنے گھر لاہور تشریف لا ئے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ حال مقیم رائے ونڈ پہنچ چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ لاہور کی پہلی جدید اور منظم بستی ماڈل ٹاؤن کے رہائشی تھے جہاں سے انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔

ماڈل ٹاؤن چونکہ لاہور شہر کے اندر ہی واقع ہے اس لیے ہمارے جیسے ان کے پرانے نیاز مند بھی اچھے وقتوں ان کے دربار میں حاضر ہو جاتے تھے لیکن جب سے جلاوطنی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو انھوں نے اپنا سیاسی ڈیرہ اپنی نئی زمیندارانہ بلکہ امیرانہ رہائش گاہ جاتی عمرہ کو بنایا جہاں پر حاضری کے لیے بڑے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے اس لیے ایک آدھ دفعہ کے بعد ہم نے اس حاضری سے معذرت چاہی اور پھر میاں صاحب بھی اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔

اب دیکھتے ہیں کہ وہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد اپنا سیاسی ڈیرہ کہاں لگاتے ہیں۔ دوبارہ سے ماڈل ٹاؤن کا ڈیرہ آباد کرنا ان کے سیاسی مفاد میں ہو گا اس سے ان کو سیاسی رابطوں میں آسانی ہو گی اور وہ اخبار نویسوں کے قریب بھی ہونگے اور اپنی بات عوام تک باآسانی پہنچا تے رہیں گے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب وہ یہ خود سے یہ چاہیں گے کہ وہ اخبار نویسوں سے کتنا قریب رہنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے من پسند خول میں ہی بند رہنا پسند کرتے ہیں بہرحال یہ فیصلہ تو وقت کریگا اور بہت جلد یہ سامنے بھی آ جائے گا۔

بابائے سیاست مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کا نکلسن روڈ پر سیاسی ڈیرہ لاہور کا مقبول ترین ڈیرہ رہا ہے جہاں سے کئی نئے سیاستدانوں کی پیدائش اور تربیت ہوئی لیکن صاحب ڈیرہ اس ڈیرہ کی آبادی میں اپنا سب کچھ لٹا گئے اور آخر میں اپنے احباب کو آم بھی شاید کہیں ادھر اُدھر سے انتظام کر کے بھجواتے رہے لیکن انھوں نے اپنی وضع داری میں فرق نہیں آنے دیا اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنے اس سیاسی ڈیرے کو آباد رکھا۔ وہ ہر حکومت کی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور حکومت مخالف ہر قابل ذکر اتحاد ان ہی کی سربراہی میں وجود میں آتا تھا۔ وہ وہ اپنی ہمہ جہت سیاست سے ان سیاسی اتحادوں کے ذریعے ہر طرح کے حالات میں سیاست کو زندہ رکھتے تھے۔

بات میاں نواز شریف کی سیاست سے شروع ہوئی تھی کہ وہ اب واپس لاہور تشریف لے آئے ہیں اور سیاست کا مرکز جو لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا تھا وہ اب دوبارہ سے آباد ہونے جا رہا ہے اور لاہور کی سیاسی رونقیں لوٹنے کو ہیں۔ سب سے پہلا معرکہ نواز شریف کی قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست پر نئے انتخاب کی صورت ہونے جا رہا ہے جہاں پر حکومت اور اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اپنی تما م تر سیاسی توانائیاں خرچ کرنے کو بیٹھی ہیں اور یہ نشست جیتنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے محترمہ کلثوم نواز اور تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے کہ میاں صاحب کی فیملی کی طرح ڈاکٹر یاسمین راشد کا سسرال بھی پرانے لاہور کا ہی رہائشی ہے ان کے سسر ملک غلام نبی کا شمار اندرون لاہور کی متحرک سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ اسمبلی کے ممبر اور وزیر بھی رہے ہیں۔ اس لاہوری معرکہ میں کون فتح یاب ہو گا اس بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا۔ عموماً ایک بات دیکھی گئی ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکومتی پارٹی کا پلڑا ہی بھاری ہوتا ہے۔

میاں نواز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اب خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کریں گے، اپنی پارٹی کی سیاست کو مزید فعال کریں گے۔ ان کی جانب سے جارحانہ سیاست کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اسلام آباد سے لاہور کے طویل سفر کے دوران وہ اسی جارحانہ انداز اور لب و لہجہ میں عوام سے مخاطب ہوتے رہے ہیں تا کہ عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کیا جا سکے جس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں کہ عوامی سطح پر ان کا استقبال اس کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ان کے لہجے کی تلخی یہ بتا رہی ہے کہ پارٹی رہبر کے طور پر آئندہ انتخابی مہم کو گرمائیں گے۔ ان پر بطور وزیر اعظم جو پابندیاں تھیں وہ ان سے آزاد ہو چکے ہیں۔

اس آزادی کا استعمال انھوں نے بھر پور انداز میں شروع بھی کر دیا ہے۔ ان کی حکومتی ریلی کے دوران تقریریں اس بات کی جانب واضح اشارے بھی کر رہی ہیں۔ نااہل ہونے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ رائے ونڈ میں بیٹھا ہوا نواز شریف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے اقتدار کے نواز شریف سے سیاسی طور پر زیاد ہ خطرناک ہو گا۔ اب یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ موجودہ حالات کو اپنے حق میں کس طرح ڈھالتے ہیں لیکن ان کی تقریروں سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جن قوتوں کے ساتھ مل کر اپنی سیاست کرتے رہے وہ اب مزید ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔

وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس بار ان کو حکومت سے الگ کرنے میں ان ہی قوتوں کا کردار ہے۔ نواز شریف نے جوشِ خطابت میں جس طرح عدلیہ کو مخاطب کیا اس کی بھی مثال ملنی مشکل ہے وہ واشگاف انداز میں اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ کروڑوں عوام کے ووٹ کی پرچی پانچ معزز ججوں نے پھاڑ کر پھینک دی۔

ان کی تقریروں سے ریاست کے اداروں کے میں ٹکراؤ اور واضح تقسیم کا خطرہ نظر آ رہا ہے جو نیک شگون نہیں ہے۔ میاں نواز شریف یہ صورتحال کیوں پیدا کرنا چاہ رہے ہیں جب کہ وہ خود اس نظام کا حصہ ہیں اور ان کی پارٹی ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال رہی ہے۔ وہ نااہلی کے بعد اپنی تمام تر شائستگی کو بالائے طاق رکھ کر صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں اور تسلسل کے ساتھ عوام کو اس بات کے لیے اُکسا رہے ہیں کہ عدلیہ نے ان کے ووٹ کی تذلیل کی ہے اور ان کو یعنی عوام کو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔

نواز شریف جیسے بڑے عوامی لیڈر کی جانب سے اپنی سیاست کو دوام دینے کے لیے اس طرح کی باتیں چہ معنی دارد ہیں۔ ان کو اپنی سیاست اب اپنے زور بازو پر ہی کرنی پڑے گی۔ مظلوم اور معصوم عوام کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ریاست کے اداروں کے خلاف بھڑکانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ ان اداروں کی وجہ سے ہی ریاست چل رہی ہے اور اگر سیاستدانوں نے سیاست کرنی ہے تو اس کے لیے مستحکم ریاست کا وجود بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔