جمال نقوی: ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں…

زاہدہ حنا  اتوار 13 اگست 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ چلے گئے ہیں اور میری نگاہوں میں 4 فروری 2017ء کا وہ دن کھنچا ہوا ہے، جب وہ موجود تھے اور صدر مملکت ممنون حسین ان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر آئے تھے۔ ممنون صاحب پرانے تعلقات کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ جمال صاحب کی دانشوری اور سیاسی استقامت کے معترف ہیں۔ ان کے لیے پھولوں کا گلدستہ لائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ سماج کا ایک گراں قدر سرمایہ ہیں اور انھوں نے ملکی ترقی اور جمہوری اصولوں کو بڑھاوا دینے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ شام کی چائے پرگزرے ہوئے دنوں کی باتیں ہوتی ہیں اور ممنون صاحب روانہ ہو جاتے ہیں۔

پھر یہ منظر تحلیل ہوجاتا ہے، کمرہ وہی ہے، جمال صاحب ابدی سفر پر روانہ ہوچکے۔ خواتین سر ڈھانپے قرآن اور تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ ان دونوں مناظر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زندگی اور موت میں ہوتا ہے اور پھر کراچی آرٹس کونسل کا منظر اکبر ہال ہے جو ان کے دوستوں، رشتے داروں اور قرابت داروں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک کے بعد ایک آتا ہے اور اپنے جذبات ان کی نذرکر کے چلا جاتا ہے۔

برادرم جمال نقوی سیاستدانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جس نے غیر ملکی تسلط کے خلاف انیسویں اور بیسویں صدی میں کیسری بانا پہن کر کیا شاندار لڑائی لڑی۔ کوئی سولی چڑھا، توپ دم ہوا، کالے پانی بھیجا گیا، بندی خانوں میں جس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور کسی نے سالہا سال زیر زمین رہ کر گھر اورگھر والوں کی خوشبو سے دور زندگی گزاری۔ آزادی ملی تو وہ عالم ہوا کہ ’’چھُٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘‘ سیاست پہلے عبادت تھی، اب تجارت ہوئی۔

میری نسل جب پروان چڑھ رہی تھی تو کمیونسٹوں کے سر کے گرد سنہرے ہالے تھے۔ بابا صاحب امبیدکر، ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی اور ان جیسے دوسرے مدبر اور مفکر سیاستدان بہت دور رہ گئے تھے۔ اصولوں پر جان دینے کی سیاست رخصت ہو رہی تھی، امارت اور سفارت کے لیے دوسروں کی جان لینے کا چلن عام ہو رہا تھا۔ انسان دوستی کا سفینہ غرق ہورہا تھا، فرقہ پرستی کی ناؤ چل نکلی تھی اور اس پر اقتدارکا پر چم لہراتا تھا۔اس پُرآشوب دور میں سید جمال الدین نقوی نے الہٰ آباد کے ایک عالم فاضل خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کا شہر عالموں، ادیبوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور شاعروں کا شہر تھا۔ گنگا اور جمنا کا سنگم جس کی گہرائیوں میں کھویا ہوا داستانی دریا سرسوتی۔

جمال بھائی نے سنگم پر کھڑے ہوکر، سر سوتی کو تلاش کیا اور اس کے دوگھونٹ پی کر زندگی کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ ہندوستان سے پاکستان آئے، بائیں بازو کی سیاست میں ڈوبے رہے اور انگریزی ادب کے چشمے میں تیرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اس سے سیراب کرتے رہے۔ کراچی آنے کے بعد DSF سے ان کا تعلق، طلبہ تحریک سے ان کا جڑنا، کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین اراکین میں سے ایک ہونا کراچی میں ان کی زندگی کی ابتدا ہے۔ ڈاکٹر سرور، امام علی نازش، ڈاکٹر ادیب رضوی، جام ساقی، نذیر عباسی، ڈاکٹر ہارون اور دوسروں کے ساتھ مل کر کمیونسٹ پارٹی کو متحرک رکھنا اور سر ہتھیلی پر رکھ کر پھرنا، زندگی کے یہ تمام پیچ و خم پروفیسر جمال نقوی نے اپنی کتاب Leaving the Left Behind میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔

ابتدا میں وہ ایک بیل چرانے کے الزام میں گرفتار ہوئے اور 8 مہینے کی سزا ہوئی تھی، ضیاء الحق کے دور حکومت میں فوجی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگا۔اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قائم مقام سیکریٹری جنرل تھے۔ جام ساقی، سہیل سانگی، کمال وارثی، امر لال، بدر ابڑو، شبیر شر اور نذیر عباسی ان کے ساتھ گرفتار ہونے والوں میں سے تھے۔ جنرل ضیاء کی فوجی عدالت میں کمیونسٹ پارٹی کے ان لوگوں پر مقدمہ چلا۔ یہ مقدمہ جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا، جس میں بینظیر بھٹو سمیت پاکستان کے نہایت اہم سیاستدانوں نے گرفتار ہونے والے ان کمیونسٹ لیڈروں کا دفاع کیا تھا۔

وہ زندگی بھر کمیونسٹ تحریک سے جڑے رہے لیکن تشدد کی سیاست کے خلاف تھے، اسی لیے جب 1981ء میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے والوں نے بہت سے سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اس فہرست میں پروفیسر جمال نقوی اور ان کے کئی ساتھی کمیونسٹوں کے نام بھی شامل تھے لیکن انھوں نے پاکستان چھوڑنے کا خیال ہی رد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سیاست پاکستانی عوام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہے، وہ انھیں چھوڑ کر باہر نہیں جاسکتے۔ کمیونسٹوں پر جب ستم ٹوٹا تو دوسروں کی طرح جمال نقوی کو بھی زندگی کے کئی برس زیر زمین رہ کر کبھی جناب غوث بخش بزنجو کے گاؤں اور کبھی کئی دوسرے گھروں میں گزارنے پڑے۔

جمال بھائی اور بھائی امام علی خان نازش سے میری پہلی ملاقات 1989ء کے دنوں میں اس وقت ہوئی جب ندیم اختر اور اظہر عباس کے ساتھ مل کر میں ’’روشن خیال‘‘ نکال رہی تھی۔ یہ خواب دیکھنے اور دکھانے کے دن تھے۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی تھی اور ہم اسے بائیں بازو کا بایاں بازو خیال کرتے تھے۔ ’’روشن خیال‘‘ میں وہ تمام باتیں چھپتیں جن کا کسی بڑے اخبار میں شائع ہونا ممکن نہ تھا۔ ہم اس میں چھپنے والے مضامین پر بحث کرتے۔ اداریہ لکھا جاتا اور پھر پرچے کے لیے کاغذ خریدنے، پرنٹنگ کا بل دینے اور اسے فروخت کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔

جمال بھائی اپنی بنیاد و نہاد میں آدرش وادی تھے لیکن جب سوویت یونین کے سفر نے کمیونزم کے حوالے سے ان کے آدرش توڑے تو انھوں نے اپنے سیاسی نکتہ نظر کے بارے میں غوروخوص شروع کیا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ کئی برس کی سوچ بچار کے بعد انھوں نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا۔ یہ کمیونسٹ پارٹی سے رشتہ توڑنے اور خود نوشت لکھنے کا فیصلہ تھا۔

ان کی کتاب نے بہت سے کمیونسٹوں کو مایوس کیا، کچھ نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی لیکن ان کے کچھ چاہنے والے ایسے بھی تھے جو موت سے چند دنوں پہلے تک ہر ہفتے اور کبھی 15 دن پر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ان میں کامریڈ مجید، جناب نواز بٹ، ندیم اختر، عارف عباسی، جاوید اقبال، خالد محمود، جان محمد بلوچ، شہزاد اور فاروق میمن بالکل سامنے کے نام ہیں۔ آخری دنوں میں جمال بھائی بالکل خاموش ہوگئے تھے۔ ان کی مزاج پرسی کے لیے جانے والے حالیہ سیاست اور ماضی کے قصوں پر باتیں کرتے اور وہ سنتے رہتے۔ یہ لوگ ان کے لیے گرما گرم سموسے اور بنگالی مٹھائی سندیس لے کر جاتے جسے وہ لطف لے کر کھاتے۔

انھوں نے ایک کٹھن گھریلو زندگی گزاری لیکن ان کی کٹھنائیوں سے کہیں زیادہ کٹھن ان کی بیگم کاظمی خاتون کے شب و روز تھے۔ ان کا عقد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے نہیں سید جمال الدین نقوی سے ہوا تھا لیکن کاظمی خاتون نے ایک تنہا زندگی گزاری جس میں انھوں نے گیتی، افشاں اور عاصم کی پرورش و پرداخت کی، ان کی تعلیم میں کوئی کوتاہی نہ کی اور آج وہ تینوں اپنی اپنی زندگی میں کامیاب وکامران ہیں۔ ان باتوں کا اعتراف جمال بھائی نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت لکھنے اور اس میں سب کچھ لکھنے کا تہیہ کیا تو یہ زندگی کا شاید سب سے کٹھن فیصلہ تھا۔

زندگی کے 50 برسوں پر خطِ تنسیخ کھینچ دینا، ایک ایسا فیصلہ تھا جس سے لوگوں کی ہڈیاں چٹخ جاتی ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے قریبی دوستوں نے ان سے کس طرح کنارہ کیا۔ ان کے خلاف مضامین لکھے گئے، ان پر کڑی تنقید کی گئی لیکن انھوں نے سب کچھ بہت حوصلے سے برداشت کیا۔ شاید انھوں نے بنگالی کمیونسٹ رہنما موہت سین کی مثال سامنے رکھی جن کی خودنوشت ’’A Traveller and the Road‘‘ 2003 میں شائع ہوئی اور اس میں بھی موہت سین نے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی تھی۔

جمال صاحب میرے نزدیک ایک قابلِ قدر اور نہایت بہادر انسان تھے۔ وہ جمہوریت، سکیولرازم، شہری آزادیوں اور انسانی وقار کا احترام کرتے تھے۔ موہت سین نے بھی جمہوریت اور شہری آزادیوں کی بات کی تھی۔ ایک کٹرکمیونسٹ سے ان باتوں کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، موہت سین اور جمال نقوی دونوں پر ان خیالات کے حوالے سے کڑی نکتہ چینی ہوئی۔ انھوں نے زندگی بھرکی کمائی، ضمیرکی آواز پر برسر عام لٹا دی۔ کسی کے سینے میں ضمیر کا ہفت رنگ پرندہ اگر تان اڑاتا ہو، تو اس شخص کی تعظیم و تکریم کرنی چاہیے۔ شاد عظیم آبادی کی زبان میں وہ ہم سے یہ کہنے کا حق رکھتے تھے کہ:

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔