- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
سترویں سالگرہ
چند برس قبل وطن عزیز کی ایک سالگرہ پر جو نظم لکھی گئی تھی ایک معمولی سی تبدیلی کے ساتھ کچھ اس طرح ہے
انہتر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سورج نکلنے پر
چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان تھی باقی
کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا
تو ان کی جاں میں جاں آئی
لہو میں روشنی جاگی
دہن میں پھر زباں آئی
انہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان، مت بھولو
آج اہل وطن سے اس نظم کو دوبارہ شیئر کرنے کی وجہ اس کی آخری دو لائنیں ہیں کہ وطن عزیز کی اس سترویں سالگرہ کے موقع پر سب سے زیادہ یاد رکھنے والی بات یہی ہے اور یہ احسان رب کریم نے صرف اسلامیان ہند پر ہی نہیں فرمایا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس سے فیض حاصل کیا۔ آج دنیا کے نقشے پر پچاس سے زیادہ جو مسلمان اکثریت والے آزاد ممالک ہیں ان میں سے ایک بھی پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور نہیں تھا بلکہ ان میں سے بیشتر تو اپنی موجودہ شکل میں ظہور پذیر ہی نہیں ہوئے تھے۔
آبادی کے اعتبار سے پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی، ایران، بنگلہ دیش اور بھارت میں آباد مسلمانوں کی تعداد چین، بھارت امریکا اور روس کی کل آبادی کے بعد غالباً دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی یہ ممالک بے حد ثروت مند ہیں لیکن ترقی کی دوڑ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کے کئی بہت کم آبادی والے چھوٹے ملک بھی ہم سے کہیں آگے ہیں۔ بلاشبہ اس صورت حال کی بیشتر وجوہات کا تعلق اس تاریخی عمل سے ہے جس کے باعث یہ معاشرے قوت عمل سے محروم ہوتے چلے گئے لیکن دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ آزاد اور خود مختار ہونے کے بعد ہم نے کیا کیا ہے؟
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ یوم آزادی کے موقع پر میں ہمیشہ چیزوں کے روشن رخ کی بات کرتا ہوں کہ تنقید اور رونے دھونے کا کام تو ہم سارا سال کرتے ہی رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کے بعد ہم ایک بار پھر ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں جو اس بات کی آئینہ دار ہے کہ ہم رویوں کے اعتبار سے سیاست کی حد تک ابھی بالغ نہیں ہوئے مگر اس سے ذرا ہٹ کر دیکھا جائے تو اجتماعی سطح پر نہ سہی مگر انفرادی حوالے سے ہماری کامیابیوں کا سفر روشن بھی ہے اور مسلسل بھی۔
ہمارے نوجوان تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میدان میں ہماری بچیاں نہ صرف ان کی ہم قدم ہیں بلکہ کئی حوالوں سے پہلی صف میں شامل ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے اہل اقتدار اور صاحبان فکر و نظر مل کر ان کے لیے تربیت اور ترقی کے راستے ہموار کریں۔
معاشرے کے ہر فرد کے لیے یکساں طور پر تعلیم، صحت، سوشل سیکیورٹی اور روٹی کپڑا مکان جیسی بنیادی سہولیات کا اہتمام کریں۔ قومی اداروں کو تصادم کے بجائے باہمی تعاون کی فضا میں آگے بڑھائیں اور سب سے زیادہ زور ابتدائی تعلیم و تربیت پر دیں کہ بنیاد سیدھی اور مضبوط ہو گی تو عمارت خود بخود بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ قائداعظم جیسے بڑے اور عظیم لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اب ضرورت ہے کہ ان کی صفات کو تھوڑا تھوڑا ہی سہی قوم کے ہر فرد میں پیدا کیا جائے تا کہ ہم عالمی برادری میں سر اٹھا کر اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کے زندہ رہنا سیکھ سکیں۔ اگر ہم ایسا کر سکے (اور یقینا کریں گے) تو وہ چاند جو ہمارے لیے آزادی اور اخوت کا پیغام لے کر آیا تھا کبھی غروب نہیں ہو گا۔ سو آئیے اس سترویں سال گرہ کے موقع پر اسے مل سلامی دیتے ہیں۔
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
وہ جو دھند تھی وہ سمٹ گئی
وہ جو حبس تھا وہ ہوا ہوا
کوئی چاند کشا ہوا تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سُو
وہ جو صرف ٹھہری تھی روبرو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اڑتی تھی ہر طرف
کسی خوش نظر کے حصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرا کشا ہوا
مرا سارا باغ ہرا ہوا
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔