صوبائی حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث شہر قائد پھر شرپسندوں کے رحم و کرم پر

منور خان  اتوار 13 اگست 2017
نئے پولیس چیف کی تعیناتی کے ساتھ ہی کرائم ریٹ میں اضافہ، 4 پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ فوٹو:فائل

نئے پولیس چیف کی تعیناتی کے ساتھ ہی کرائم ریٹ میں اضافہ، 4 پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ فوٹو:فائل

کراچی: شہر قائد میں جاری آپریشن اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں ملزمان کی گرفتاریوں کے باوجود جرائم پیشہ عناصر پولیس کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

کراچی پولیس چیف کی تبدیلی کے بعد نئے کراچی پولیس چیف غلام قادر تھیبو کی تعیناتی کے دوران شہر میں نہ صرف بنک ڈکیتی کی 4 وارداتوں میں ڈاکو لاکھوں روپے لوٹ کر فرا ہوگئے بلکہ اے ایس آئی سمیت 4 پولیس اہلکاروں سے بھی جینے کا حق چھین لیا گیا، جس میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار بھی شامل ہے۔

بنک ڈکیتی کی وارداتوں میں سے ایک واردات کے دوران ڈاکوؤں نے بنک مینجر کو سر عام فائرنگ کر کے مار ڈالا۔ شہر میں اسٹریٹ کرمنلز اور دہشت گردوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے کراچی پولیس چیف غلام قادر تھیبو کس حد تک شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، حالاں کہ وہ اس سے قبل بھی کراچی پولیس چیف کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے گزشتہ ماہ محکمہ پولیس میں بڑے پیمانے پر گریڈ 18 سے گریڈ21 کے پولیس افسران کے تبادلے و تقرریاںکی گئیں، اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے تبادلوں اور تقرریوں پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی کو ایک خط ارسال کر دیا کہ پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں میں ان سے رائے نہیں لی جاتی اور اس طرح کے عمل سے کراچی میں جاری آپریشن کے نتائج پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے تاحال اس خط کا جواب نہیں دیا گیا۔

کراچی پولیس چیف سمیت بڑے پیمانے پر پولیس کے تبادلوں اور تقرری پر آئی جی سندھ کی جانب سے کیے جانے والے تحفظات اور شہر میں اچانک سے بینک ڈکیتی کی وارداتوں ، پولیس اہلکاروںکی ٹارگٹ کلنگ ، ہاؤس رابری اور اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات ان کے تحفظات کو درست ثابت کر رہے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے گزشتہ ماہ 18 جولائی کو کراچی پولیس چیف کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد ماتحت افسران و اہلکاروںکو ہدایات جاری کی تھیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیوں کو مزید تیز اور مؤثر بنایا جائے تاہم ابھی ان کے چارج سنبھالے دو روز ہی ہوئے تھے کہ 20 جولائی کو ڈاکوؤں نے گلشن اقبال بلاک 2 میں واقع نجی بنک میں ڈکیتی کے دوران 24 لاکھ روپے سے زائد نقدی لوٹ لی اور باہر کھڑی ہوئی پک اپ میں بیٹھ کر فرار ہوگئے، پولیس ابھی اس واقعہ کی تفتیش ہی کر رہی تھی کہ اگلے روز 21 جولائی کو دہشت گردوں نے عوامی کالونی تھانے کی پولیس موبائل پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں اے ایس آئی سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے جبکہ فائرنگ کی زد میں آکر راہگیر لڑکا بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔ 24 جولائی کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر سے کراچی پولیس کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ٹریفک پولیس کے اہلکار محمد خان کو قریب سے گولیاں مار کر شہید کر دیا جبکہ فائرنگ سے دوسرا پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔

نئے کراچی چیف غلام قادر تھیبو کی تعیناتی کے دوران یکم اگست کو نیپئر کے علاقے میں بنک ڈکیتی کی دوسری واردات میں ڈاکو بنک سے 6 لاکھ روپے نقد اور لاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے، تاہم اس واردات میں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے بنک کے مینجر اور خاتون ملازمہ سمیت 9 ملزمان کو گرفتار کر کے لوٹی گئی نقدی اور طلائی زیورات برآمد کرلیے۔ 8 اگست کو فیروز آباد کے علاقے شارع قائدین پر واقع نجی بنک میں ڈکیتی کے دوران 4 لاکھ روپے سے زائد رقم لوٹ کر فرار ہونے والے ڈاکوؤں نے بنک کے باہر آپریشن مینجر عبدالرحیم موتی والا کو سر عام فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور قریب کھڑی ہوئی پک اپ میں بیٹھ کر فرار ہوگئے، اس سے قبل گلشن اقبال میں بنک ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والے ڈاکو پک اپ میں فرار ہوئے تھے اور اس واردات میں بھی پک اپ فرار ہونے میں استعمال کی گئی ہے۔

بنک ڈکیتی کی واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بننے والا بنک مینجر عبدالرحیم موتی والا دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس بنک آرہا تھا کہ اس نے اندر واردات ہوتی دیکھی تو وہ باہر ہی رک گیا اور جب ڈاکو فرار ہو رہے تھے تو اس نے ایک ڈاکو کو قابو کرنے کوشش کی تو اس کے ساتھی نے بنک مینجر پر فائرنگ کر دی۔ پولیس ابھی اس واردات کے بعد حاصل کیے جانے والے شوائد کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ ڈاکوؤں نے ایک بار پھر سے کراچی پولیس کی رٹ کو چینلج کرتے ہوئے کھارادر کے علاقے میں واقع نجی بنک میں عملے کو یرغمال بنا کر 6 لاکھ روپے سے زائد رقم لوٹ لی اور باآسانی فرار ہوگئے۔

شہر میں ڈاکوؤں کی جانب سے پے در پے بنک ڈکیتی کی وارداتوں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ نے کراچی پولیس چیف کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے جبکہ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ڈاکوؤں کی جانب سے شہریوں کو مزاحمت پر گولیاں مار کر ہلاک اور زخمی کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں کی جانب سے گھروں میں گھس کر اہلخانہ کو یرغمال بنا کر لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کے باعث شہریوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور ان کی جانب سے کراچی پولیس کی ناقص کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ جب تعلقات اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر پولیس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ تھانیداروں کی تعیناتی کی جائے گی تو امن و امان کی صورت حال میں کہاں سے بہتری آئے گی جبکہ اعلیٰ حکومتی شخصیات اور پولیس افسران کی جانب سے کئی دعوے سامنے آچکے ہیں کہ پولیس افسران کی تعینات خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کی جائے تاہم اس پر عملدر آمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔