پروپیگنڈے کا کمال

زمرد نقوی  پير 14 اگست 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

نواز شریف جب سے نااہل ہو کر سابق وزیراعظم ہوئے ہیں بیان پر بیان دے رہے ہیں لیکن یہ سب کے سب زیادہ تر علامتی اشارتی ہیں۔ سابق وزیراعظم بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ پتہ ہے نادیدہ قوتیں پورا سچ بولنے پر معاف نہیں کریں گی۔

نواز شریف سے زیادہ غیر سیاسی قوتوں کو کون جانتا ہے وہ عرصہ دراز تقریباً ان نادیدہ قوتوں کے ساتھی رہے۔ ہم دم اور ہم پیالہ جس کا انھیں فائدہ ہی فائدہ ہوا اور یہاں تک کہ ان کی رہنمائی اور سرپرستی میں وہ مقبول عوامی لیڈر بن گئے۔ یہیں سے جھگڑا شروع ہو گیا۔ نواز شریف کہنے لگے کہ مجھے اب حقیقی عوامی حمایت حاصل ہے۔ میں اب ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ نادیدہ سیاسی قوتوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

میاں صاحب عوامی حمایت آپ کو اس وقت ملی جب ہم نے آپ کے سب سے بڑے حریف پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کا علاقہ ممنوعہ بنا دیا۔ چالیس سال ہو گئے ہیں پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی حکومت نہیں بنا سکی۔ کئی دہائیوں سے پنجاب میں بلاشرکت غیرے آپ کا اقتدار قائم ہے۔ یعنی گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔ آپ کا تعلق  پنجاب سے اوپر سے کشمیری یعنی سونے پر سہاگہ۔

2014ء سے پہلے میڈیا پر آپ کے خلاف بولنے پر ممانعت سوائے تعریف کے چنانچہ سینٹرل پنجاب میں بسی عوام کی ایک بڑی تعداد آپ کو دیوتا سمجھنے لگی۔ پنجابی اور لاہوری ہونا بھی آپ کے حق میں گیا ۔ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ کا نعرہ صرف اس لیے لگایا گیا کہ کہیں تخت پنجاب نہ چھن جائے۔ وہ پنجاب جو ہر الیکشن میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسلام آباد پر کون حکومت کرے گا۔

نواز شریف کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حلقہ 120 جہاں نواز شریف کے نااہل ہونے سے ضمنی انتخابات اگلے ماہ ہونے والے ہیں وہاں چند دن پیشتر لاہور کے ایک ٹی وی چینل نے اس حلقے کی عوامی رائے عامہ کا سروے کیا تو پنجاب کیا لاہور میں گڈگورننس کی حقیقت سامنے آ گئی۔ یہ حلقہ جو میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے سائے میں واقع ہے کی ایک بستی میں جس میں پکے اچھے گھر بنے ہوئے تھے وہاں کی ایک کلومیٹر طویل گلی گندے نالے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ بدبو اتنی کہ خود سروے کرنے والے کی طبیعت خراب ہو گئی۔

وہاں کے رہائشیوں سے پوچھنے پر کہ آپ مدتوں سے اس غیرانسانی صورت حال میں رہنے کے باوجود ضمنی انتخاب میں آپ کس کو ووٹ دیں گے۔ بار بار پوچھے جانے پر وہاں کے رہائشیوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ وہ اس انتہائی تکلیف دہ صورت حال کے باوجود جس میں وہ ان کے اہل خانہ خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ رہائشیوں کی اکثریت نے بے بسی سے کہا کہ وہ نواز شریف کو ووٹ دیں گے کیونکہ ان کا تعلق ان کے علاقے سے ہے۔

ایک اور لاہور کے مقامی چینل نے اسی حلقے کی دوسری آبادی کا سروے کیا۔ دیکھ کر اور سن کر طبیعت پریشان ہو گئی۔ اس آبادی میں پانی دستیاب نہیں۔ پینے کے پانی کے لیے بچے اور بڑے مارے مارے پھرتے ہیں۔ سرکاری فلٹر پلانٹ زیادہ تر خراب ہیں۔ اس آبادی کے رہائشیوں کے دن رات کا بڑا حصہ پانی کی تلاش میں گزر جاتا ہے۔ نہانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خواتین کا کہنا تھا کپڑے دھوئے ایک ایک مہینہ گزر جاتا ہے۔ جہاں تک کھانے کے برتنوں کا تعلق ہے ان کو دھوئے دو تین دن گزر جاتے ہیں اور ان میں کیڑے چلنے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ گھروں میں پانی ہی میسر نہیں۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا نہ اس میں کوئی مبالغہ آمیزی ہے۔

یہ لائیو پروگرام اس غریب آبادی میں ہو رہا تھا جہاں کی بے بس عورتیں اور مرد اپنا مافی الضمیر بھی بیان نہیں کر سکتے۔ نہ انھوں نے حکومت اور اس کے کار پردازوں کے خلاف شکایت کی۔ انھیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کی اس مصیبتوں کا ذمے دار کون ہے۔ انتہائی غریب مرد و خواتین کی آبادی لگتا تھا افریقہ کے کسی صحرا سے تعلق رکھتی ہو۔ ایسی آبادیاںاس حلقے میں اور بھی ہیں جہاں گڈگورننس کا سایہ بھی نہیں پڑاجس کا اقتدار پچھلی کئی دہائیوںسے قائم ہے۔ یہ وہ حلقہ ہے جو لاہور کا دل کہلاتا ہے۔

لاہور کے کچھ علاقوں اور سڑکوں کو چھوڑ کر بیشتر علاقوں کا حال کم و بیش ایسا ہی ہے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں ابلتے ہوئے سیوریج، ناصاف پانی جو کینسر اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا موجب۔ اگر کوئی ترقیاتی کام شروع ہوتا ہے تو سالوں اس کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ میٹرو بس اورنج ٹرین کی مثال ایسے قالین کی ہے جس کے نتیجے لاہور کی گندگی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہو۔ ابھی حال ہی میں لاہور میں دستیاب پانی کے بارے میں رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے 8ٹاؤنز میں پینے کے پانی میں خطرناک آرسینک دھات کی مقدار انتہائی زیادہ ہے۔بے چارے شہری اس پانی کو پینے پر مجبور ہیں۔

نواز شریف کو اپنے حلقے میں آئے کم از کم بیس سال ہو چکے ہیں جہاں سے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے منتخب ہو رہے ہیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں کہ ان کا حلقہ کن مسائل سے دوچار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کا حلقہ عوامی سہولتوں کے لحاظ سے مثالی حلقہ ہوتا۔ جب کوئی عوامی نمایندہ اپنے حلقے میں آئے بغیر مسلسل منتخب ہو رہا ہو تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنے حلقے میں جا کر عوامی مسائل معلوم کرتا پھرے۔

بیرون لاہور پنجاب اور پاکستان کے عوام کو گمان کہ لاہورکے عوام کسی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ ہے پروپیگنڈے کا کمال جو اچھے بھلے انسان کو حقائق تک پہنچنے سے روک دیتا ہے۔ جب لاہور کا یہ حال ہے جس کا لاہور کا ہر شہری روزانہ مشاہدہ کرتا ہے تو اطراف لاہور کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ چھوٹے اضلاع قصبے دیہات جنوبی پنجاب میں عوامی سہولتوں کے فقدان کا اندازہ لگائیں تو آپ کانپ جائیں۔

خیبرپختونخوا میں بھی اس حوالے سے صورت حال کوئی اچھی نہیں۔ بلوچستان کے بارے میں  کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ پہلے ہمیں میڈیا کے ذریعے بتایا جاتا تھا کہ کراچی اور اندرون سندھ غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں لیکن اب جا کر پتہ چلا کہ لاہور بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں۔ میڈیا کی نظر التفات ہوئی تو لاہور کے بارے میں بھی اصل حقائق سامنے آ گئے۔

اگست کے آخر سے ستمبر کا آخر پاکستانی سیاست کے لیے انتہائی غیرمعمولی وقت ہے۔

سیل فون:۔0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔