نواز شریف کی ریلی اور اس کے نتائج

مزمل سہروردی  پير 14 اگست 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی کامیاب تھی کہ نہیں۔ دونوں طرف کے دلائل میں وزن بھی ہے۔ جو اس کو کامیاب قرار دے رہے ہیں ان کے پاس بھی عوام کا جم غفیر بطور دلیل موجود ہے۔ اور جو ناکام قرار دے رہے ہیں وہ اہداف کے حصول میں ناکامی کو بطور دلیل استعمال کر رہے ہیں۔ بہر حال اس کا ابھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی جی ٹی روڈ کی ریلی کامیابی اور نا کامی کے درمیان کہیں پھنس چکی ہے۔ عام فہم زبان میں یہ ریلی نہ تو مکمل کامیاب رہی کہ اپنے اہداف حاصل کر سکی اور نہ ہی مکمل نا کام رہی کہ اس کا ذکر ہی نہ کیا جائے یا اس کے پاکستان کی سیاست پر کوئی اثرات نہ ہوں۔

آپ اسے مزید ایسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جیت کر بھی ہار گئے ہیں اور ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ نہ یہ مکمل جیت ہے اور نہ ہی یہ مکمل ہار۔ اکثر کرکٹ کے میچ میں ایک ٹیم بہت اچھا کھیلتی ہے لیکن آخر میں میچ ہار جاتی ہے۔ اب ٹیم کی کارکردگی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہ ہار پر حاوی ہو رہی ہو تی ہے اور ہار اس اچھی کاکردگی کو فتح قرار نہیں دی جا سکتی۔

نواز شریف کی جیت یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نا اہلی کے سیاسی جھٹکے اور وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ ن لیگ کا ووٹ بینک کمزور ہو جائے گا۔ ن لیگ کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوا ہے۔ یعنی پنجاب میںووٹ بینک ہی ختم ہو گیا ہے۔ ویسے تو پنجاب کا ہر حلقہ اس کی ایک مثال ہے لیکن اگر قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کی مثال ہی لی جائے تو 2008 کے انتخابات میں پیپلز  پارٹی کے امیدوار جہانگیر بدر نے اس حلقہ سے 24 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے اور پھر 2013 کے انتخابات میں اسی حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو صرف 24 سو ووٹ ملے۔ ایسا پنجاب کے تمام حلقوں میں ہوا۔

اس لیے یہ خیال تھا کہ نواز شریف کی نا اہلی کا ڈائریکٹ اثر ان کے ووٹ بینک پر ہو گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی ریلی اس حد تک تو کامیاب رہی کہ انھوں نے اپنے ووٹ بینک کو سہارا دیا ہے۔ ووٹر کو متحرک کیا ہے۔ اس کو حوصلہ دیا ہے کہ میں ابھی میدان میں ہوں، فکر کی کوئی بات نہیں۔ لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کیا ہے جو سیاست کی بنیاد ہے۔ووٹ بینک بچ گیا تو سیاست بھی بچ جائے گی۔

لیکن نواز شریف کی ہار یہ ہے کہ صرف ووٹر کو متحرک کرنے کے لیے چار دن کی اتنی بڑی ریلی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کام آسانی سے شہر شہر جا کر بھی ہو سکتا تھا۔ نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے بعد جو لائن لی تھی وہ یہ بتا رہی تھی کہ وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ فائنل راؤنڈ کھیلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ان کے سامنے طیب اردگان کی مثال تھی۔ طیب اردگان کی جانب سے ترکی کی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کر نے کی مثالیں ن لیگ کی محفلوں میں دی جا رہی تھیں۔

ترکی میں جس طرح عوام نے اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں طیب اردگان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کی مثالیں دی جا رہی تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کو رول ماڈل بنایا جا رہا تھا۔ نواز شریف جی ٹی روڈ پر عوام کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف نکالنے نکلے تھے۔سب کہہ رہے تھے کہ دس لاکھ لوگوں کا ٹارگٹ تھا۔ امید تھی کہ لوگ ساتھ نکلیں گے اور آخر تک ساتھ رہیں گے۔ جب لاہور پہنچیں گے تو بس عوام کا فیصلہ آ گیا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگ آئے لیکن اتنی تعداد میں نہیں آئے۔

اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس اب کیا راستے ہیں۔ ایک راستہ تو وہ ہے جو ن لیگ کے سنیئرز کہہ رہے ہیں کہ کم سے کم ٹکراؤ کی طرف جایا جائے۔ جو چوہدری نثار علی خان کہہ رہے ہیں۔ جو دبے دبے الفاظ میں شہباز شریف بھی کہہ رہے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ سے بگڑی بات بنائی جائے۔ نواز شریف کپتان سے چیف سلیکٹر بن جائے تا کہ باقی ٹیموں کے کپتانوںکو بھی چیف سلیکٹر بنایاجاسکے۔ نواز شریف شاید اپنی نا اہلی تو ختم نہیں کر سکتے لیکن وہ اپنے سیاسی حریفوں کی نااہلی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کی حد تک تواسکرپٹ پر عمل ہو گیا ہے۔ وہ باقی اسکرپٹ کا راستہ کیوں روک رہے ہیں۔

ان کی ریلی عمران خان کو سیاسی زندگی بخش رہی ہے۔ وہ ایک جگہ اپنی واپسی کا راستہ بھی روک رہے ہیں اور دوسری جگہ عمران خان اور زرداری کو زندگی بھی بخش رہے ہیں۔ یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ اگر ضیاء الحق کے دور میں وطن واپسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بڑی عوامی تحریک چلائی تو ان کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا دیا گیا ۔ اگر بے نظیر اس قدر چیلنج نہ کرتیں تو وہ اتحاد نہ بنتا۔ اور پھر بعد میں بے نظیر نے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی اور شراکت اقتدار کیا۔ لیکن تب بہت دیر ہو گئی تھی۔

اب نواز شریف کیا کر رہے ہیں۔ وہ ایک طرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنی پانچ حکومتیں بھی چلانا چاہتے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کو چیلنج بھی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم اور شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اسٹبلمشنٹ کے ساتھ جنگ بھی لڑنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔ وہ سیاسی طور پر دو کشتیوں کی سواری نہیں کر سکتے۔ وہ کسی بڑے حادثہ کو دعوت دے رہے ہیں۔

وہ فوری طور پر کلثوم نواز کے کاغذات منظور کروانا چاہتے ہیں۔ اور سب کوعلم ہے کہ ایک دفعہ کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں تو وہ فوراً وزیر اعظم بن جائیں گی۔ یہ سارا پریشر کلثوم نواز کے کاغذات منظور کروانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔اداروں کو للکارا جا رہا کیونکہ اب فوری طور پر کلثوم نواز کے کاغذات کا کیس بھی عدالت جانا ہے۔

اگر کلثوم نواز بچ جاتی ہیں تو نواز شریف اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھیں گے۔ پھر یہ ریلی ان کے نزدیک کامیاب ہو گئی۔ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ اصل اعلان بعد میں کروں گا۔ کیا جنہوں نے اتنی محنت سے نواز شریف کو نکالا ہے وہ کلثوم نواز کو آنے دیں گے۔بات سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن اگر کلثوم نواز کے کاغذ مسترد ہو گئے تو آپ پھر اس ریلی کے اہداف میں ایک اور ناکامی کا اضافہ ہو جائے گا۔ پھر ہی نواز شریف سمجھیں گے کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس بار نواز شریف جلدی میں ہیں۔ نا اہلی کے بعد انھوں نے سیاست کے ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹونٹی بنا دیا ہے۔ کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کر کے اور ریلی نکال کر انھوں نے اپنے مخالفین کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کے حوالہ سے باقی فیصلے بھی فورا کیے جائیں۔ وہ گیم کو لمبا نہیں لیجانا چاہتے ہیں۔ وہ اس گیم کو لمبا کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ جلدی فیصلے کے موڈ میں ہیں۔ حالانکہ یہ سیاست کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ لیکن اب یہ نواز شریف کی خواہش ہے۔ اس لیے مخالف فریقین کو ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میچ کو ٹی ٹونٹی کے طور پر ہی کھیلنا پڑے گا۔ اور نتائج بھی فوری فوری سامنے آجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔