اسحاق نور فقط ایک ستارہ شناس نہیں ہے

راؤ منظر حیات  پير 14 اگست 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

تجسس انسانی زندگی کی بنیادہے۔اسی جذبہ سے سائنس،تحقیق اوردلیل نے جنم لیا۔مگرتجسس کی تعریف بہت مشکل ہے۔کئی بارآسان مگرمتعدد بارانتہائی مشکل بلکہ ناممکن سی۔ہربشر،پرندہ اورجانوراس کیفیت سے کہیں نہ کہیں دوچار ضرور ہوتا ہے۔ معلوم ہوجاتاہے کہ اسکاذہن کسی کھوج میں ہے مگراکثر پتہ ہی نہیں چلتاکہ وہ چاہتا کیا ہے۔اسی موڑ سے معلوم سے نامعلوم کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ایسا سفرجوبذاتِ خودایک قافلہ بھی ہے اور شائد منزل بھی۔

ہرسوچنے والاذی شعورذہن وہ سب کچھ جاننا چاہتاہے جواسے پتہ نہیں ہے۔مستقبل اورآنے والے وقت میں جھانکنا چاہتا ہے۔ اس کا جواب مختلف اندازسے دیاجاتاہے۔لیکن ایک عجیب ساجواب جس پرمیں نے کبھی سوچا نہیں،تحقیق نہیں کی، ستاروں کاعلم ہے۔کیالفظ استعمال کروں،نجوم یاستارہ شناسی۔بہرحال یہ علم موجود ضرورہے۔یہ الگ بات ہے کہ کتنا درست ہے یا کتنا درست نہیں۔پراسے مکمل طورپررَدکرناکافی مشکل ہے۔

بات نجوم یاآنے والے وقت میں جھانکنے کی ہورہی تھی۔سائنس کاطالبعلم ہونے کی وجہ سے میرااس پرکسی قسم کاکوئی یقین نہیں تھا۔شائدمکمل طورپراب بھی نہیں ہے۔مگرچندلوگوںسے ملکریہ ضروراندازہ ہواہے کہ بہرحال یہ اپنی طرح کا ایک مکمل سمندر ہے۔چنددن پہلے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔گجرات کارہنے والایہ بوڑھا شخص کسی بھی طرح متاثر کن شخصیت کامالک نہیں تھا۔آج کے زمانے میں بہت کم لوگ کُرتے کے ساتھ پاجامہ پہنتے ہیں۔اسحاق نورنے سفید کُرتا اور ڈھیلا سا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔سیدھے سادھے لباس پرایک پراناساویسٹ کوٹ اورہاتھ میں سامان کاایک تھیلا۔

تین چارگھنٹے طویل ملاقات میں عام سے نظرآنے والے شخص نے انتہائی غیرمعمولی باتیں کیں۔حیران کردینے والے راز بیان کیے۔ اسحاق نورسے میری ملاقات کیوں ممکن ہوئی۔اس کی مکمل وجہ مجھے معلوم نہیں ہے۔سوچنے کے بعد ایسے لگتاہے کہ ملاقات بہرحال طے تھی اورضرورہونی تھی۔ذہن کے ایک کونے  میںیہ حیرت انگیزجملہ درج ہے کہ یہ ملاقات ہرصورت میں ظہورپذیرہونی تھی۔کالے اورسفیدبالوں والے اس شخص میں کوئی بھی ایسی چیزنہیں کہ اسے متاثرکن کہا جا سکے۔مگرنشست مجموعی طورپرحیران کن تھی۔میں نے تو اسحاق نورکانام تک نہیں سناہواتھا۔کچھ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس انسان کواپنے اکتسابی علم پراس درجہ گرفت ہوگی۔

بات کافی پینے سے شروع ہوئی۔پوچھنے لگاکہ کونسی کافی پیتے ہو۔میری پسندیدہ کافی Davidos ہے۔ بتانے پراسحاق نورکہنے لگاکہ پسی ہوئی کافی اچھی نہیں ہوتی۔ جو لوگ اسے پسندکرتے ہیں، انھیں کافی کے متعلق پوری معلومات نہیں۔بہترین کافی توبیجوں (Beans)کی صورت میں ہوتی ہے۔اسے خودپیسناچاہیے،تب ہی صحیح ذائقہ پتہ چلتاہے۔ذہن میں آیاکہ یہ شخص ویسے ہی باتیں کررہاہے۔اسحاق نورنے تھیلا اُٹھایا۔ اس میں سے کافی کے بیجوں کاایک بڑاساپیکٹ نکال کرسامنے رکھ دیا۔

بتانے لگاکہ روزصبح اُٹھ کرکافی پیتاہے۔بینزکوکافی میں تبدیل کرنے کی چھوٹی سی دیسی مشین گھرمیں رکھی ہوئی ہے۔ حیران سارہ گیا۔مگراس کی باتیں بالکل درست تھیں۔ کافی کا اصل مزہ اس کے بیجوں کوپیس کرہی حاصل ہوتا ہے۔ پر یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔اسحاق نوران میں سے ایک ہے۔ باتوں باتوں میں یہ بھی اندازہ ہواکہ مالی فائدہ کے عنصر سے بہت اوپرنکل چکاہے۔پیسے کاحصول اس کے لیے بے معنی نہیں بلکہ لایعنی ہے۔میرے ذہن میں تھاکہ اس شعبے کے لوگ توباتیں کرنے کے بھی پیسے لیتے ہونگے۔ پھر نور نے آہستہ آہستہ کھلناشروع کردیا۔

میری ضروریات بہت کم ہیں یا بہت ہی کم کرلی ہیں۔ایک بیٹی کی شادی کردی ہے۔گجرات کی ایک بستی میں سادہ سا گھر،نہ کسی سے ملنااورنہ کسی کے پاس شوق سے جانا۔ جواب میرے لیے کافی حیران کن تھا۔کیونکہ ستارہ شناس لوگ تو ہر وقت امیرگاہگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مگر اس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا۔متمول لوگوں سے دوربھاگنے والاشخص کتناآسودہ حال ہوگا، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اسحاق کی آنکھوں میں پیسے کا لالچ بھی نظرنہیں آرہا تھا۔ جولوگ اس کے پاس حساب کتاب لگوانے آتے بھی ہیں۔ان میں سے اکثریت کو ناراض کرکے واپس بھیج دیتا ہے۔اگرمعمولی سے پیسے مل جائیں، توخاموشی سے گھر بیٹھ کرکتابیں پڑھناشروع کردیتا ہے۔

انتہائی دقیق موضوعات پر مستند کتب ۔پوچھنے لگاکہ وِل ڈیورانٹ(Will Durant) کو پڑھاہے۔اثبات پرکہنے لگاکہ اس نے ڈیورانٹ کی شہرہ آفاق کتاب”Story of Civilization”بڑے اطمینان سے پڑھی ہے۔میں حیران ہوگیا۔کیونکہ اس کتاب کی گیارہ جلدیں ہیں۔اس عظیم فلسفی نے انھیں لکھتے ہوئے بیس برس کے لگ بھگ صَرف کیے تھے۔ہرخاص وعام ان مشکل کتابوں کے نزدیک تک نہیں جاتا۔ دور دور سے سلام کرکے جان چھڑا لیتا ہے۔طالبعلم کی دانست میں ان گیارہ جلدوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے کم ازکم دوسال چاہیے۔مگراَن پڑھ نظر آنے والے شخص نے وہ تپسیاکی ہوئی تھی۔جس بین الاقوامی فلسفی کانام لیا،اسحاق نوراسے پڑھ چکاتھا۔پوری دسترس تھی۔ میں آہستہ آہستہ ذہنی طور پر پگھلنا شروع ہوگیا۔

اسحاق نورنے کلاسیکل موسیقی پربات شروع کی تو میں ششدررہ گیا۔بیگم اخترفیض آبادی،کے ایل سہگل اورروشن آرا بیگم پرمکمل اعتمادسے بات کررہاتھا۔کون سی غزل یاگیت،کس راگ میں بنایاگیا،اسے بھرپور طریقے سے معلوم تھا۔بڑے غلام علی خان کاذکر ہوا تو اس نے میری تصحیح کی۔مشہورترین ٹھمری،”باغوں میں پڑے جھولے”دراصل استادبرکت علی خان نے گائی تھی۔میں ہمیشہ سمجھتارہاکہ بڑے غلام علی خان کاکمالِ فن تھا۔

تھوڑے عرصے میں اسحاق نورنے”تقسیم برصغیر” سے پہلے کے ایسے ایسے گویوں کے نام لینے شروع کردیے جو میرے لیے بالکل اجنبی تھے۔بہت ہی کم موسیقی کے دلدادہ لوگوں کواندازہ ہے کہ سواج گھندھارہ اور گمار گندھاردا بے مثال کلاسیکل گائک تھے۔ نور کو ان کا سارا کام اَزبر تھا۔ پہلا شخص تھاجس نے برصغیرکے جنوبی حصہ کی موسیقی سن رکھی تھی۔علاقائی موسیقی پربھی اسے مکمل دسترس تھی۔ مگر کیسے۔ یہ سوال نہیں کرسکا۔کرتابھی توشائدجواب نہ پا سکتا۔ بتانے لگا کہ کلاسیکل موسیقی کی ایک محفل میں گیاتولوگوں نے مسکین سمجھ کرباہرنکال دیا۔

دوبارہ گیا، تو پیٹنا شروع کر ڈالا۔یہ صرف چالیس سال پہلے کاواقعہ تھا۔جیل روڈ لاہورپرواقعہ کسی مقام پریہ محفل منعقدکی گئی تھی۔اسحاق نور معصومیت سے اپنے اس دور کا ذکر کر رہا تھا جو شائد مکمل طورپرتجسس اور مفلوک الحالی کاتھا۔میرے خیال میں اس کے حالات تو پہلے جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ پر اب “سفیدپوش” کا لفظ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے۔ آہستہ آہستہ اس طرف آگیاجس علم پراسے مکمل دسترس ہے۔یعنی ستارہ شناسی۔بڑی خاموشی سے بتانے لگاکہ اکثر کراچی چلا جاتا ہے۔

کسی شہرمیں بھی یکسوئی سے نہیں رہتا۔مگرہرشہرمیں رہتا ہے۔ سفر در سفر یاشائد گردش درگردش۔فلکیات کا تمام علم اکتسابی ہے۔ بات بھی درست ہے کہ کوئی شخص بھی پیداہوتے وقت اس مشکل علم کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔اب جہان حیرت کھلنے لگا۔جس قومی سیاست دان یااہم آدمی کانام لیا۔ تو کسی نہ کسی طریقے سے اسحاق نور سے زائچہ بنواچکا تھا۔ پرویزمشرف سے پہلی ملاقات ہوئی تو کورکمانڈر منگلا تھا۔ نورنے بات کرنے کے بعدبتایاکہ اس ملک کا صدربنے گا۔ پرویزمشرف گھبراگیا۔کیونکہ یہ 1999 سے قدرے پہلے کی بات تھی۔اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ آرمی چیف بنے گااوراس کے بعدمارشل لاء لگا دے گا۔

اسحاق نورنے اسے بہت پہلے یہ سب کچھ بتادیا تھا۔اس طرح زرداری سے اسپتال میں پندرہ برس پہلے ملاقات ہوئی تھی۔اسپتال کوجیل کا درجہ دیاگیاتھا۔ نور نے زرداری کوتفصیل سے بتا دیا تھا کہ تم اس ملک کے صدر بنوگے۔زرداری کو بالکل یقین نہیں آیا۔اس وقت قیدمیں تھا۔دوردورتک یہ بھی آثار نہیں تھے کہ مستقبل قریب میں جیل سے باہر آپائے گا۔ صدر بننے کا تو خیر تصوربھی نہیں کر سکتا تھا۔

زرداری اس درجہ حیرت زدہ تھاکہ بالکل خاموش ہوگیا۔یہ پیشن گوئی کسی بھی دنیاوی کسوٹی پرصائب نہیں ہوسکتی تھی۔ پر وقت نے ثابت کردیاکہ اسحاق ٹھیک کہہ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح اس نے 1987 میں ایک مضمون میں لکھ کر بتایا تھاکہ بینظیر 1988میں ملک کی وزیراعظم ہوگی۔ یاد رہے کہ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور بینظیرکے حکومت میں آنے کے کوئی آثارنہیں تھے۔

ستارہ شناسی کی باریکیوں کاکوئی علم نہیں۔اس جانب کبھی دھیان یاوجدان گیاہی نہیں۔یہ کسی بھی ماہر فلکیات سے میری پہلی تفصیلی ملاقات تھی۔اس سے پہلے یہی سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ قیافہ ہے،وہم ہے،تُکے ہیں۔ مگر اسحاق نورسے ملنے کے بعدلگ رہاہے کہ یہ ایک بھرپورعلم ہے۔ اگرمجھے اس کی جزئیات کاعلم نہیں،توصرف اس وجہ سے فلکیات کے علم کورَدنہیں کرسکتا۔ انکار کرنا ناانصافی ہوگی۔طالبعلم کی دانست میں اسحاق نورصرف ایک پیشن گوئی کرنے والاشخص نہیں ہے۔ایک بھرپور عالم بھی ہے اورکچھ کچھ درویش بھی!وہ صرف اورصرف ایک ستارہ شناس نہیں ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔