وزیراعظم کی طرف سے کراچی، حیدرآباد پیکیج کا اعلان

ایڈیٹوریل  پير 14 اگست 2017
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے توکراچی جیسے میگا سٹی کے باسیوں کے مسائل بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔۔ فوٹو: اے پی پی

حقیقی معنوں میں دیکھا جائے توکراچی جیسے میگا سٹی کے باسیوں کے مسائل بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔۔ فوٹو: اے پی پی

نومنتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کراچی آمد صوبے اور پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی ہے ، یوں کہہ لیجیے کہ ایک بہت بڑی خوشخبری کا اعلان ہوا، جس کا مطالبہ بہت طویل عرصے اور بڑی شدومد سے کیا جا رہا تھا۔ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے 25 ارب روپے اور حیدرآباد کے لیے 5 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکیج کے تحت انفرااسٹرکچر اور دیگر منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مزید منصوبے شروع کیے جائیں گے۔

حقیقی معنوں میں دیکھا جائے توکراچی جیسے میگا سٹی کے باسیوں کے مسائل بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ شہر میں روزمرہ کے مسائل سے لے کر پانی وبجلی کی عدم دستیابی ، سڑکوں کی خستہ حالی سے لے کر شہرکچرے کا ڈھیر بن چکا، پورا انفرا اسٹرکچر آبادی کے بے تحاشا دباؤ کے باعث تباہ ہوچکا ہے ۔ ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے، پینے کے پانی کی شدید ترین قلت ہے۔

مسائل کی نہ ختم ہونے والی طویل فہرست ہے ،گوکہ امن وامان کی صورتحال ماضی کی نسبت خاصی بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی تک اسٹریٹ کرائمز کی کثرت وبہتات ہے، جس نے عام شہریوں کو عدم تحفظ کا شکار بنا رکھا ہے۔ ان مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جس پر ملک گیر سطح پر فوری طور پر عملدرآمد شروع ہونا چاہیے۔ ایم کیوایم کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے۔

حکومت کا آخری سال ہے ، اگلے برس الیکشن ہونے والے ہیں ، لہذا وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی ، حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کے لیے بھی خصوصی ترقیاتی پیکیجزکا جلد اعلان کرے ، تاکہ عوام کے مسائل  حل ہوں، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے نہ صرف پاکستانی عوام کے مسائل میں کمی واقع ہوگی بلکہ ملک بھر میں معاشی اورتجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکے گا۔جس کی وجہ سے روزگارکے بہتر مواقعے پیدا ہوں گے ۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ عوام خوشحال ہوں اور انھیں ریلیف ملے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔