کامیابیوں کی داستاں

سید بابر علی  پير 14 اگست 2017
ناگفتہ بہ حالات کے باوجود مکمل کیے جانے والے قابل فخر منصوبے۔ فوٹو: فائل

ناگفتہ بہ حالات کے باوجود مکمل کیے جانے والے قابل فخر منصوبے۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے ہمیں آج تک دیا ہی کیا ہے، اس ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کے سوا ہے کیا؟ اس ملک میں نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔۔۔یہ اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں اکثر و بیشتر ہم دیکھتے، سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔

ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں کرپشن کا رونا وہ بھی روتا ہے جو ’پانی میں دودھ‘ کی ملاوٹ کرتا ہے، ہزاروں کی تنخواہ پر کروڑوں روپے کی گاڑی میں گھومتا ہے۔ اس ارض پاک کو دہشت گردوں کا مسکن قرار دے کر اپنے بچوں کو بیرون ملک بھجوا نے والے خود مذہب کا چوغا پہن کر فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں، نوجوانوں کے تاریک مستقبل کی پیش گوئی اسی دھرتی سے جنم لینے والے ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسی ملک سے ملنے والی ڈگری کی بنیاد پر بیرون ملک اسکالر شپ حاصل کرکے وطن سے نمک حرامی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

تعلیم، طب، انجینئرنگ، صحافت، سیاست غرض کہ زندگی کے ہر طبقے میں موجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اسی ملک سے نام بنا کر، روزگار حاصل کرکے، قومی خزانے کو لوٹ کر اسی ملک کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا ’’فریضہ‘‘ سر انجام دیتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔

پاکستان نام ہے ایک سوچ کا، پاکستان نام ہے ہماری شناخت کا۔ پاکستان نام ہے امن پسند ملک کا۔ وطن عزیز میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی بدولت پاکستان نے تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود بہت سے ایسے کام کیے جنہیں سر انجام دینا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے تقریباً نا ممکن تھا۔ ویسے تو پاکستان کے قابل فخر منصوبوں کی فہرست بہت طویل ہے اور انہیں احاطۂ تحریر میں لانے کے لیے سیکڑوں صفحات درکار ہیں، تاہم یہاں پاکستان کی کچھ اہم ترین کام یابیوں کا تذکرہ قارئین کی نذر ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا ارتھ فلڈ ڈیم

1968میں حکومت پاکستان نے دنیا کے سب سے بڑے ارتھ فلڈ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس وقت کے ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے بننے والے 470 فٹ بلند اس ڈیم کو آٹھ سال میں مکمل کیا گیا۔ دنیا کے سب سے بڑے ارتھ فلڈ ڈیم کی تعمیر تین مرحلوں میں کی گئی۔ تکمیل کے بعد سے اب تک اس ڈیم سے 341ارب 14کروڑ میگا واٹ سے زائد بجلی بنائی جاچکی ہے۔ 2013 میں وزارت پانی و بجلی نے ایک چینی کمپنی کے ساتھ اسے توسیع دینے کا معاہدہ کیا، جس کی تکمیل آخری مرحلے میں ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام

بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زرعی پیداوار کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے آب پاشی کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں کیں، پاکستانی انجینئرز کی بدولت ہی پاکستان کو دنیا کا سب سے بڑا نظام آب پاشی رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک کروڑ  44لاکھ ہیکٹر رقبے پر محیط یہ ایری گیشن سسٹم پانی کے تین ذخائر پر مشتمل ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے تربیلا اور چشمہ ڈیم دریائے سندھ اور منگلا ڈیم کو دریائے جہلم پر تعمیر کیا گیا۔ یہ نظام لاتعداد بیراج، ہیڈ ورکس اور نہروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام میں شامل زرعی زمین کی پیاس بجھانے والی نہروں کی مجموعی لمبائی ساڑھے 58 ہزار کلومیٹر سے تجاوز کرچکی ہے۔

دنیا کی سب سے بلند بین الاقوامی سڑک

پاکستان اور چین کو باہم لانے والی سڑک شاہراہ قراقرم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ سول انجینئرنگ کی شاہ کار یہ سڑک سطح سمندر سے 15ہزار 397فٹ بلند ہے۔ تیرہ سو کلومیٹر طویل اس سڑک کی تعمیر کا آغاز1966میں ہوا۔ 1979میں اس کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی لیکن عوام کے لیے اسے1986 میں کھولا گیا۔ شاہراہ قراقرم کا 887کلومیٹر حصہ پاکستان اور 413کلومیٹر حصہ چین میں ہے۔ حسن ابدال سے شروع ہونے والی اس شاہراہ کا اختتام چینی صوبے کاشغر میں ہوتا ہے۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں، لینڈ سلائیڈنگ اور خطرناک موسم میں اس سڑک کی تعمیر پاکستانی اور چینی انجینئرز کے لیے بہت بڑا چیلینج تھا۔ اس روڈ کی تعمیر کے لیے درجنوں افراد نے اپنی جان کی قربانی دی۔ شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے آپ دریائے سندھ، ہنزہ، گلگت، خنجراب اور چینی صوبے شن جیانگ کی جھیل کراقل کو بھی اپنا ہم سفر پاتے ہیں۔

دنیا کا سب سے ہائی ڈینسیٹی پروسیسر

یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اسمارٹ ٹولز، کمپیوٹرز اور مواصلاتی انقلاب میں برپا ہونے والا انقلاب مائیکرو چپس (نیم موصل پتری) کی بدولت ہے۔ یہ چپس جتنی مختصر اور تیز رفتار ہوں گی، ڈیٹا کی ترسیل اتنی ہی معیاری ہوگی۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی آئی ٹی ماہرین نے دنیا کا سب سے ہائی ڈینسٹی میڈیا پروسیسر ایجاد کیا۔ اس پروسیسر کی ایجاد نے وائس اوور آئی پی (ایک انٹرنیٹ پروٹوکول، جس سے صوتی مواصلات اور ملٹی میڈیا( تصاویر، ویڈیوز وغیرہ) سیشنز فراہم کیے جاتے ہیں) کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ پاکستان کا ایجاد کردہ یہ سنگل چِپ پروسیسر وائس اوور آئی پی یا انٹرنیٹ کے ذریعے بیک وقت دوسو کالز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت

28مئی 1998کی دوپہر ٹھیک سوا تین بجے بلوچستان کے علاقے چاغی کی راس کوہ پہاڑیوں پر گرد کے بادل دکھائی دیے۔ گرد کا طوفان تھمنے تک دنیا بھر کی ذرایع ابلاغ میں ایک نیا طوفان کھڑا ہوچکا تھا۔ ایک ترقی پذیر اسلامی ملک پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ یہ دھماکے حریف ملک بھارت کی جانب سے ایک ہفتے کیے گئے ایٹمی تجربات کے جواب میں کیے گئے تھے۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کا ایٹمی قوت بننا یقیناً ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے پہلا ایٹمی تجربہ گیارہ مارچ 1983کو کیا تھا، تاہم Kirana-I کے نام سے ہونے والے تجربے کا اعلان سترہ سال بعد 2000 ء میں کیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں استعمال ہونے والی فٹبالز کے نصف کا تیارکنندہ

اگر کھیل کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستانی قوم کرکٹ کے جنون میں مبتلا نظر آتی ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑی ہی نوجوانوں کے رول ماڈل ہیں، لیکن کرکٹ کے علاوہ ایک کھیل ایسا بھی ہے جو پاکستان کے مرہون منت ہے۔ دنیا میں فٹ بال کھیلنے والی اقوام میں پاکستان کا نمبر 159ہے، لیکن سرفہرست ممالک میں سے نصف سے زاید کلب، ٹیمیں پاکستانی ساختہ فٹ بال ہی استعمال کرتی ہیں، جب کہ 2014 میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی کی ہی بنی ہوئی ٖبالز سے کئی ریکارڈ ٹوٹے اور متعدد نئے ریکارڈ بنے۔ کھیلوں کے سامان کے مرکز سیالکوٹ دنیا بھر میں بننے والی فٹ بالز میں سے نصف پاکستانی کاری گروں کے ہاتھوں سے بنی ہوتی ہیں۔

پہلا موسمیاتی راکٹ

7جون 1962کو پاکستان نے پہلا موسمیاتی راکٹ رہبر 1بلوچستان کے ساحل سونمیانی سے لانچ کیا۔ اس کام یاب تجربے کے بعد پاکستان موسمیاتی راکٹ لانچ کرنے والا جنوبی ایشیا کا پہلا، ایشیا کا تیسرا اور دنیا کا دسواں ملک بن گیا۔ رہبر1- کو پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن، پاکستان کی پانچ رکنی ٹیم نے ہنگامی بنیادوں پر محض نو ماہ کے عرصے میں تیار کیا۔ رہبر1- کی کام یابی نے بعد میں پاکستان کے میزائل پروگرام کو بہتر بنانے میں اہم کردار کیا ادا کیا۔ پہلے تجربے کی کام یابی کے بعد اسپارکو نے اگلے دس سالوں میں مختلف وزن لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو سو سے زائد راکٹ لانچ کیے۔ رہبر راکٹ پروگرام 8اپریل 1972تک جاری رکھا گیا۔

پاکستان کا پہلا فولاد ساز ادارہ

اگرچہ پاکستان کی پہلی اسٹیل مل کا سنگ بنیاد 1967 میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹا گانگ میں کیا گیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد دو جولائی 1968کو کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ روس کے اشتراک سے بننے والے اس فولاد ساز ادارے کی پیداواری صلاحیت گیارہ لاکھ سے پچاس لاکھ ٹن اسٹیل اور آئرن راڈ بنانے کی تھی۔ تاہم حکومتی عدم توجہی، سیاسی بنیادوں پر ہونے والی اضافی بھرتیوں، رشوت اور دیگر عوامل نے اس عظیم الشان ادارے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

پہلا ایٹمی بجلی گھر

آزادی کے بعد مملکت پاکستان کو دیگر بہت سے مسائل کی طرح توانائی کے بحران کا بھی سامنا تھا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے سائنسی مشیروں سے مشاورت کے بعد کینیڈا کی جنرل الیکٹرک کمپنی کے ساتھ ملک کا پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔1966میں کراچی کے ساحلی علاقے پیرا ڈائز پوائنٹ پر کراچی نیوکلیئر پاور پراجیکٹ (کینپ) کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ 28اکتوبر 1972کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس پراجیکٹ کا افتتاح کیا۔ سنگل یونٹ پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹر پر مشتمل یہ پراجیکٹ 137میگا واٹ گنجائش کا حامل تھا۔ تاہم اس وقت کینپ کی پیداواری صلاحیت کم ہوکر 85میگاواٹ رہ گئی ہے۔ n

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔