مویشیوں کے علاج کے لیے شفاخانے قائم کیے جائیں

ایڈیٹوریل  بدھ 13 فروری 2013
موجودہپ دور میں بھی ہاری اپنے مویشیوں کو لاحق بیماریوں کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرتے ہیں، فوٹو: ایکسپریس نیوز

موجودہپ دور میں بھی ہاری اپنے مویشیوں کو لاحق بیماریوں کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرتے ہیں، فوٹو: ایکسپریس نیوز

مویشیوں میں بیماریوں کی تشخیص، روک تھام اور علاج کے سلسلے میں چوبرجی لاہور میں ڈاکٹر ڈائیگنو سٹک لیبارٹری قائم کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد جانوروں کو بیماری سے محفوظ رکھنا اور مویشی پال حضرات کو بہتر انداز میں معاشی خود کفالت کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے اور اندرون سندھ خاص کر کراچی کے ملحقہ گاؤں گوٹھوں کے مویشیوں کے لیے بھی ایسی ہی ڈائیگنوسٹک لیبارٹری قائم کی جانے چاہیے۔ مویشی دیہی معیشت کا لازمی جز ہے۔

ایک ہاری کے لیے مویشی اتنے ہی اہم اور ضروری ہوتے ہیں جتنی زرعی زمین۔ مویشی کے بغیر ہاریوں کی خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے زراعت ہی ایسا شعبہ ہے جسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس وقت اچھی نسل کی گائے، بھینس کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہے، اسی طرح بھیڑ اور بکری بھی زرعی معیشت کا اہم حصہ ہے، گھوڑا، گدھا اور اونٹ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت نے اتنے قیمتی جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے وہ کوششیں نہیں کیں، جو کی جانی چاہئیں۔ دیہات میں جانوروں کے شفا خانے قائم نہیں ہیں۔

ہاری اپنے قیمتی جانوروں کو لاحق ہونے والی بیماریوں کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرتے ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جن پر صوبائی حکومتوں کو توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دیہات اور قصبوں میں ایسے سینٹر قائم ہونے چاہئیں جہاں ہاری اپنے بیمار مویشیوں کا علاج کرا سکیں تاکہ وہ مالی نقصان سے بچ سکیں۔ ایک ہاری سال بھر میں بھیڑ، بکریاں اور مرغیاں اور گائے، بھینس اور اونٹ پال لے تو اسے اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے جس سے اس کی زندگی میں بھی خوشحالی آ سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔