راجہ صاحب نے آخری موقع بھی گنوا دیا

جاوید چوہدری  بدھ 13 فروری 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم ہیں‘ یہ درمیانے درجے کے ایک اسٹاک بروکر آئن ڈونلڈکیمرون کے صاحبزادے ہیں‘ ان کے والد دونوں ٹانگوں سے معذور تھے‘ یہ چل نہیں سکتے تھے اور انھوں نے زندگی کے 78 سال ویل چیئر پر گزار دیے‘ ڈیوڈ کیمرون نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ‘ سیاست اور اکنامکس میں ڈگری حاصل کی اور 1991ء میں سیاست میں آ گئے‘ یہ 22 برس سے سیاست کر رہے ہیں‘ یہ 11مئی2010ء کو برطانیہ کے وزیراعظم بنے‘ یہ 1980ء کی دہائی میں طالب علم تھے اور ان کے اسکول کا ایک وفد اس وقت کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے ملاقات کے لیے گیا‘ ڈیوڈ کیمرون بھی اسی وفد میں شامل تھے‘ یہ وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ گئے‘ وزیراعظم سے ملاقات ہوئی‘ انھوں نے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کی سیر کی اور یہ واپس آ گئے‘ ڈیوڈ کیمرون کے والد نے اس رات ان سے پوچھا ’’ آپ کا دورہ کیسا رہا؟‘‘ نوجوان ڈیوڈ کیمرون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’ ہم نے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں بہت انجوائے کیا‘ وزیراعظم نے کافی اور پیسٹریوں سے ہماری تواضع کی‘ وہ ہمیں اپنی طالب علمی کے دور کے لطیفے بھی سناتی رہیں اور ہم نے وزیراعظم کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں‘‘۔

ڈیوڈ کیمرون کے والد مسکرائے اور انھوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’ کیا تم لوگ وہاں صرف تصویریں اتروانے‘ وزیراعظم کے لطیفے سننے اور پیسٹریاں کھانے گئے تھے؟‘‘ ڈیوڈ کیمرون نے حیران ہو کر والد کی طرف دیکھا‘ آئن ڈونلڈکیمرون نے کہا ’’ بیٹا آپ وزیراعظم کے لطیفے کسی بھی وقت اور کسی بھی عوامی تقریب میں سن سکتے تھے‘ آپ کو پیسٹریاں کوئی بھی کھلا سکتا تھا اور آپ وزیراعظم کے ساتھ تصویر کسی بھی وقت کھنچوا سکتے تھے لیکن آپ ایک کام کسی اور وقت نہیں کر سکتے تھے اور آپ نے یہ موقع ضایع کر دیا‘‘ ڈیوڈ کیمرون نے نے والد سے پوچھا ’’ ڈیڈ وہ کیا کام تھا؟‘‘ کیمرون کے والد نے جواب دیا ’’ آپ ان سے وزیراعظم بننے کا طریقہ سیکھ سکتے تھے‘ آپ ان سے یہ سیکھ سکتے تھے برطانیہ جیسے ملک کی وزیراعظم کام کیسے کرتی ہے‘ اس کی ترقی کا راز کیا ہے‘ برطانیہ کے لوگ وزیراعظم سے محبت کیوں کرتے ہیں اور وزیراعظم برطانیہ کے لوگوں کی بہبود کے لیے منصوبے کیسے بناتی ہے‘‘ والد کی بات ڈیوڈ کیمرون کے دل پر لگی اور اس کے بعد انھوں نے زندگی کا مقصد بنا لیا یہ دنیا کے جس بڑے شخص سے ملیں گے یہ اس سے اس کی کامیابی کا گر سیکھیں گے‘‘۔

ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اس وقت برطانیہ کے دورے پر ہیں‘ یہ دو دن قبل اسی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے لیے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ گئے‘ منگل کے تمام پاکستانی اخبارات میں ڈیوڈ کیمرون اور راجہ پرویز اشرف کی خوبصورت تصویریں چھپی تھیں‘ دنیا کے دو عظیم وزیراعظم 328 سال پرانی 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسکرا رہے تھے‘ دونوں وزرائے اعظم کے پیچھے برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کا معمولی سا دروازہ تھا اور دروازے کے اوپر سفید رنگ میں 10 کا ہندسہ چمک رہا تھا‘اس دروازے اور برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کی کوئی دیوار اور کوئی کھڑکی بلٹ پروف نہیں‘ وزیراعظم کی رہائش گاہ سڑک سے صاف دکھائی دیتی ہے اور میں عام سیاح کی حیثیت سے درجنوں مرتبہ اس جگہ جا چکا ہوں اور اس دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر تصویر بھی کھنچوا چکا ہوں‘ وزیراعظم ہائوس کے سامنے ایک غیر مسلح گارڈ ہوتا ہے جس کی ذمے داری لوگوں کو دروازے کے سامنے سے ہٹانا اور وزیراعظم کے اسٹاف کو ملاقاتیوں کی آمد کی اطلاع دینا ہے‘ نائین الیون کے بعد برطانوی حکومت نے اس کمپائونڈ کے سامنے حفاظتی جنگلے لگا دیے ہیں لیکن آپ اس کے باوجود سڑک سے ڈائوننگ اسٹریٹ میں جھانک سکتے ہیں‘ یہ تین بیڈروم کی 328 سال پرانی چھوٹی سی رہائش گاہ ہے اور برطانیہ کے 78 وزیراعظم نہ صرف اس رہائش گاہ میں رہے بلکہ انھوں نے دنیا کے سیکڑوں عظیم سمجھوتے‘ اس چھوٹی سی رہائش گاہ میں کیے‘ یہ دنیا کے تمام بڑے لیڈروں سے تین کمروں کے اسی گھر میں ملتے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کاش ڈیوڈ کیمرون سے ہاتھ ملانے‘ تصویر کھنچوانے اور پیسٹری‘ کافی لینے کے بجائے یہ سادگی سیکھ سکتے ‘ یہ ان سے یہ سیکھ سکتے تھے ہم ملک کو کس طرح اتنا محفوظ بنا سکتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم بھی تین کمروں کے مکان میں رہ سکے‘ ایک گاڑی میں دو گارڈز کے ساتھ سفر کر سکے اور اس کی جان کوکوئی خطرہ نہ ہو‘ یہ ان سے یہ بھی سیکھ سکتے تھے۔

ہم ملک کے لیے کیا کریں کہ ہمارے صدر کو کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں دو‘ دو سو ایکڑ کے بم پروف محلات میں نہ چھپنا پڑے‘ یہ ملکہ یا بادشاہ سلامت کے لائف اسٹائل کے بجائے صدر اوبامہ کی طرح عام زندگی گزاریں‘ لائین میں لگ کر کافی اور سینڈوچ خریدیں‘ ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک ایسا سسٹم بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے وزیراعظم‘ کابینہ کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ عام لوگوں میں بیٹھ کر سفر کریں اور ان کی جان کو کسی سے کوئی خطرہ نہ ہو‘ ہمارے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے وہ اعتماد بھی حاصل کر سکتے تھے جس کے ذریعے یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اکانومی کلاس میں بیٹھ کر اسپین میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں‘ تھری اسٹار ہوٹل میں رہتے ہیں‘ سڑک پر بنی کافی شاپس میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کافی پیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی‘ یہ ان سے ریلوے کا ایک ایسا نظام بنانے کا طریقہ بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے ہمارے وزیراعظم ریل میں بیٹھ کر اسی طرح گوجرخان‘ گجرات اور گوجرانوالہ جا سکتے جس طرح یہ چند دن قبل لندن سے بریڈ فورڈ گئے تھے اور انھیں اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز اور پروٹوکول کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے وہ سسٹم بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے ایک عام‘ معذور اور لوئر مڈل کلاس والد کا بیٹا صرف اور صرف محنت کے ذریعے دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کا وزیراعظم بن سکتا ہے اور اسے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی پارٹی سربراہ کے جوتے سیدھے کرنا پڑتے ہیں اور نہ ہی فوج اور عدلیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے وہ وژن بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے یہ روزانہ کتابیں پڑھتے ہیں‘ ہر ہفتے فلم دیکھتے ہیں‘ روز صبح ایک گھنٹہ جاگنگ کرتے ہیں‘ اپنی ٹیکس ریٹرن وقت پر جمع کراتے ہیں‘ دنیا کے ہر معاملے میں وقت کی پابندی کرتے ہیں‘ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں اور طالب علم ان کے علم اور مطالعے پر حیران رہ جاتے ہیں‘ یہ برطانیہ کے شہریوں کو بہتر سے بہتر معیار زندگی دے رہے ہیں‘ یہ عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کنٹرول کر رہے ہیں‘ انھوں نے دہشتگردی کا دوسرا بڑا ہدف ہونے کے باوجود برطانیہ کو دہشت گردوں سے کیسے بچا کر رکھا ہے‘ لندن میں7 جولائی 2005ء کو دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا لیکن برطانوی حکومت نے اس کے بعد اس نوعیت کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہونے دیا‘ برطانیہ میں لوڈ شیڈنگ کیوں نہیں ہوتی‘ سردیوں میں گیس کا پریشر کم کیوں نہیں ہوتا‘ لندن‘ مانچسٹر اور برمنگھم میں پٹرول اور سی این جی کی لمبی لمبی لائنیں کیوں نہیں لگتیں‘ برطانیہ میں پائونڈ کی ویلیو اچانک کم کیوں نہیں ہوتی‘ وہاں این آئی سی ایل جیسے اسکینڈلز کے بعد ملزمان قانون سے کیوں نہیں بچ پاتے‘ وہاں میمو اسکینڈل کیوں نہیں ہوتا‘ وہاں سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے زور کیوں نہیں لگانا پڑتا‘ وہاں کینیڈین شہری اچانک آ کر پورے ملک کا بھٹہ کیوں نہیں بٹھا دیتے‘ وہاں وزیراعظم گرفتاری کے حکم کے بعد وزیراعظم کیوں نہیں رہتا‘ وہاں رینٹل پاور کیس کے فیصلوں کے بعد وزیروں کو وزیراعظم کیوں نہیں بنایا جاتا اور لوگ وہاں وزیراعظم کے سابق ہونے کے باوجود اس کی عزت کیوں کرتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے یہ سب کچھ سیکھنا چاہیے تھا لیکن یہ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں ڈیوڈ کیمرون سے ہاتھ ملا کر‘ تصویر کھنچوا کر‘ پیسٹری کھا کر اور کافی پی کر واپس آ گئے‘ یہ راجہ بن کر لندن گئے تھے اور مہا راجہ بن کر واپس آ گئے‘ یہ ڈیوڈ کیمرون سے وزیراعظموں کی طرح مسکرانے کا آرٹ تک نہ سیکھ سکے‘ یہ اس سے پاکستان کے کسی ایک شہر‘ جی ہاں ایک شہر کو برطانوی شہر بنانے کا فن نہ سیکھ سکے‘ کاش راجہ صاحب ڈیوڈ کیمرون سے وہ سیکھ آتے جو انھیں صرف اور صرف کیمرون ہی سکھا سکتا تھا مگر یہ گئے‘ تصویر کھنچوائی اور واپس آ گئے‘ تاریخ نے ہمارے راجے کو اصلی وزیراعظم بننے کا موقع دیا لیکن یہ مہاراجہ بن کر واپس آ گئے‘ انھوں نے آخری موقع بھی گنوا دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔