نئے اسکول

عبدالقادر حسن  منگل 15 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

صبح صبح والدین کے خوشی سے تمتماتے ہوئے چہروں نے ایک خبر سنائی کہ حکومت نے اسکولوں میں بچوں کی خوش خوراکی پر پابندی لگا دی ہے اور اب اسکولوں میں بچوں کے منہ کسی ٹافی وغیرہ سے نہیں کتاب کے کسی حصے کو چباتے ہوں گے اور ان کے منہ کی حرکت کسی کتاب کے کسی حصے کو چباتے ہوئے دکھائی دے گی کسی ٹافی وغیرہ کو چباتے ہوئے نہیں۔

ہماری تعلیمی دنیا میں اسے ایک انقلاب کہا جا سکتا ہے کہ اس سے ہمارے بچوں کے معدے اور منہ سلامت رہیں گے۔ ہماری تعلیمی دنیا ہی بدل جائے گی، ہمارے طلبا زیادہ وقت جیب خرچ کھانے میں لگا دیتے ہیں اب ان کا یہ وقت سبق کا کوئی حصہ یاد کرنے میں گزرے گا اور ان کا یہ قیمتی وقت برباد نہیں جائے گا۔

حکومت نے اسکولوں میں مختلف مشروبات پر یہ پابندی کیوں لگا دی ہے اس کا نتیجہ تو طلبا سے پوچھیں لیکن طلبا کے والدین اور اساتذہ کس حال میں ہوں گے اور طلبا کے ساتھ ان کی دنیا بھی بدل جائے گی جو اپنی جیبوں پر یہ بوجھ بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور جس کا ان بچوں کی تعلیم میں کوئی حصہ نہیں ہوتا سوائے اسکول کے قرب و جوار کے دکانداروں کی معقول لگی بندھی آمدنی کے۔ اسکول کے بچے جہاں اس کمی کو شدید محسوس کریں گے وہاں ان کے والدین بھی مطمئن ہوں گے کہ ان کی صبحیں بھی آرام سے گزریں اور ان کے دن اور راتیں بھی سکھ چین سے گزریں گے۔

آج کے زمانے میں اگر کچھ لوگ ہر وقت آپ کی خدمت اور آپ کے ساتھ تعاون پر تیار ملیں تو یہ بھی ایک نعمت ہے لیکن اس ضمن میں تجربہ بتاتا ہے کہ آزمائش شرط ہے کیونکہ کسی بااعتماد فرد کی بے وفائی بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اور اس کا دیا ہوا دکھ یاد رہتا ہے اور بھولتا نہیں ۔ یہ بڑی فضول سی باتیں ہیں اس لیے کر رہا ہوں کہ میں خود ان سے گزر چکا ہوں اور یہ میں اپنے ساتھیوں کا قرض سمجھتا ہوں جو ادا کر رہا ہوں ۔

اور جو آج یہ ادھار اور قرض محسوس کرتا ہے جو اپنے بچپن میں والدین سے وصول کرتا رہا ہے اور وہ بھی والدین کی حیثیت سے زیادہ ہی، وہ کسی ضدی بچے کی ضد پوری کرتے تھے لیکن کئی گھرانے تو کئی گھریلو خرچ بچانے کی کوشش کرتے اور شام کو دوست احباب کے ساتھ اپنا دل کا بوجھ ہلکا کرتے کیونکہ ہمارے ہاں عام گھروں کی آمدنی ہی ضرورت کے تحت ہی ہوتی لیکن اور اس میں سے بچوں کی ضدیں بھی پوری کرنی پڑتیں جو ایک بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ گھریلو خواتین بڑی ہی قربانی کرتیں جو بچوں کی ضد خواہش اور پیارپورا کرنے کے لیے کتنے ہی ضروری خرچ بچا لیتی ہیں اور ان کے بغیر ہی دن رات کے خرچ پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

آج کل کے زمانے میں دنیا بھر کی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے نت نئے طریقے متعارف کرا دئے ہیں جن میں ان مصنوعات کو استعمال کرنے والوں کو مختلف ترغیبات دی جاتی ہیں تا کہ وہ انہی کی مصنوعات کو استعمال کریں جس سے ان کو منافع کی مد میں ایک خاطر خواہ رقم وصول ہوتی ہے۔

ان نت نئی مصنوعات کی کشش سے سب سے پہلے ہمارے بچے ہی متاثر ہوتے ہیں اور وہ ان کے اشتہار دیکھ کر ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور پھر ان کو استعمال کرنے کے لیے اپنے والدین کی جیب پر بوجھ ڈالتے ہیں ۔ دنیا کی نئی نئی مصنوعات متعارف کرانے والی کمپنیاں یہ جانتی ہیں کہ ان کا آسان ترین شکار آج کل کے نوجوان ہی ہیں جو کہ بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اور ان کا باقاعدہ استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اسکولوں اور کالجوں میں مختلف مصنوعات جن میں مختلف قسم کے مشروبات اور کھانے کی اشیاء شامل ہیں ان کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے کہ ان کے استعمال سے بچوں کی صحت خراب ہوتی ہے اور ان کی نشوو نماء میں فرق پڑتا ہے ۔ دیر آید درست آید کے مطابق حکومت کو اس بات کا خیال بہت دیر سے آیا ہے اور اب تک نہ جانے کتنی نسلیں ان غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کے استعمال کی وجہ سے خرابی کا شکار ہو چکی ہیں لیکن اگر ابھی بھی یہ قدم اُٹھالیا گیا ہے تویہ درست سمت میں پہلا قدم ہی کہا جاسکتا ہے۔

بچوں کی پسندیدہ غذاء ہی بازاری اشیا ہیں جو کہ بچے بڑے شوق سے کھاتے پیتے ہیں اور ان کی وجہ سے اپنی صحت خراب کرتے ہیں دراصل ان اشیا میں بچوں کو رغبت ہی اس طرح کی دی جاتی ہے کہ وہ ضد کر کے والدین کو اس بات کے لیے مجبور کر دیتے ہیںکہ ان کو یہ خرید کر دی جائیں اور والدین بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ یہ عالمی ساہوکار کمپنیاں یہ بات اچھی طرح جان چکی ہیں کہ بچے ہی آسان شکار بن سکتے ہیں اس لیے وہ اپنے ان آسان شکاروں کو ہی اپنی مصنوعات کا ہدف بناتے ہیں ۔

نوجوان نسل ہی ملک کے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے اور ایک اچھا تربیت یافتہ نوجوان ہی ملک کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے ان کو بچپن سے ہی اگر صحیح رہنمائی میسر آجائے تووہ آگے چل کر معاشرے کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ۔ والدین کی کل کائنات اور سرمایہ ان کی اولاد ہی ہوتی ہے حکومت کی جانب سے کیے گئے اس نئے فیصلے سے والدین کو اپنے بچوں کی صحت کے متعلق کسی حد تک اطمینان نصیب ہو گا کہ اسکول میں اب ان کو معیاری غذاء ملے گی لیکن اب حکومت پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کرائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے ۔

اس ضمن میں متعلقہ افسران ہی اس حکومتی فیصلے پر موثر عمل کرا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کو مسلسل اپنے اس فیصلے کا پہرہ دینا ہوگا ۔ اس کے علاوہ ہر اسکول میں بچوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق غذائی اشیا کے متعلق آگاہی کی بھی انتہائی ضرورت ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں اس بات کو بٹھا دیا جائے کہ کون سی اشیا کا ستعمال ان کے لیے مضر ہے۔

یہ آگاہی اسکولوں کے اساتذہ ہی دے سکتے ہیں اور اب اساتذہ کو عمومی تعلیم کے ساتھ غذائی اشیا کے متعلق بھی تعلیم دینی پڑے گی کیونکہ یہی نسل آگے چل کر ملک میں ایک صحت مند معاشرے کی ضامن ہے ۔ حکومت کی جانب سے اس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس اہم کام کو شروع کرنے میں حکومت شاباش کی مستحق ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔