بھارتی حکمراں ہوش کے ناخن لیں!

شکیل فاروقی  منگل 15 اگست 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

چین نے بھارت سے ایک مرتبہ پھر پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فوجی دستے چینی علاقے سے فوراً اور غیر مشروط طور پر واپس بلالے۔ اس علاقے میں 48 بھارتی فوجی بلڈوزرز کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے موجود ہیں جو سراسر غیر قانونی اور ناجائز اقدام ہے۔

بھارتی حکومت نے اپنے اس غیرقانونی اقدام کو درست ثابت کرنے اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے بہت سے حیلے بہانے تراشے ہیں۔ چنانچہ چین نے اس سلسلے میں ایک خصوصی حقائق نامہ جاری کیا ہے۔ بھارت میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن لیوجن سانگ نے یہ دستاویز چینی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری کی ہے۔ جس میں تمام صورتحال کا تفصیل کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 18 جون کو 270 سے زیادہ بھارتی مسلح فوجی دو بلڈوزروں کے ساتھ سکم سیکٹر میں چینی سرحد کے اندر 100 میٹر تک گھس آئے اور انھوں نے چین کی طرف سے زیر تعمیر سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کردیں جس سے نہ صرف چینی علاقے کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ خواہ مخواہ کی کشیدگی بھی پیدا ہوگئی۔ چین کے ڈپٹی چیف آف مشن نے کہا کہ تاریخی طور پر تمام قانونی حقائق اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے سارے شواہد چینی موقف کی مکمل تائید کرتے ہیں، جب کہ بھارتی فوجی دستے اس علاقے میں سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر موجود ہیں۔

اس دستاویزکو جاری کرنے کا اصل مقصد بین الاقوامی برادری اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہے جس میں بھارتی عوام بھی شامل ہیں کیونکہ بھارتی حکومت اپنے اس غیر قانونی اقدام کو مختلف حیلوں بہانوں سے جائز قرار دیکر اپنے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چینی ڈپٹی چیف آف مشن نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت چین اور اس کے عوام کو کمزور نہ سمجھے کیونکہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری کا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔

یہ پہلا موقعہ نہیں جب بھارت نے چین کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سے قبل ماضی میں بھارت نے 1962 میں بھی چین کو کمزور جانتے ہوئے اس کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تھا اور منہ کی کھائی تھی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اگرچہ اپنی سوانح حیات میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’جب تک تم کمزور ہو اس وقت تک اپنے سے زیادہ طاقتورکے ساتھ مت الجھو ‘‘ لیکن اس کے باوجود انھوں نے 1962 میں چین کے ساتھ پنگا لے لیا جو بھارت کو بڑا مہنگا پڑا اور چین نے بھارت کے دانت کھٹے کردیے۔

عینی شاہدوں کا کہنا ہے اس وقت راج دھانی دہلی پر زبردست خوف و ہراس چھایا ہوا تھا اور شہر کے لوگ چین کی ممکنہ جوابی کارروائی کے ڈر سے شدید طور پر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے اور اندیشہ تھا کہ کسی بھی وقت چینی فوجی شہرکے گلی کوچوں میں گشت کرتے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔

اگرچہ اس وقت ہندوستان میں Defence of India Rules لاگو تھے اور تقریر کی آزادی پر سخت پابندی عائد تھی لیکن وزیر اعظم نہرو کی اس ناکامی پر چراغ پا ہوکر حزب مخالف کے ایک شعلہ بیان مقرر میر مشتاق احمد نے اپنی دھواں دھار تقریر میں پنڈت نہرو کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور حکومت کی مجال نہ تھی کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ غرض نہرو اور ان کی حکومت پر شدید تنقید ہوئی اور جگ ہنسائی و رسوائی اس کے علاوہ ہوئی۔

پنڈت نہرو اس دھچکے کی تاب نہ لاسکے اور بیمار پڑگئے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے دماغ پر فالج کا حملہ ہوگیا تھا۔ پنڈت جی کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگایا اور چین کو بھارت سے کمزور سمجھ کر اس سے لڑائی مول لے لی۔

گزشتہ جون میں بھوٹان کی حکومت کو معلوم ہوا کہ چینی فوج کے انجینئرز ڈوکلام سطح مرتفع پر ایک سڑک تعمیر کر رہے ہیں جسے چین اپنا علاقہ تصور کرتا ہے مگر بھارت کا پٹھو بھوٹان چین کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا ۔ بھارتی حکومت بھوٹان کے حکمرانوں کی سرپرست بنی ہوئی ہے چنانچہ جب 1962 میں چین بھارت جنگ ہوئی تھی تو بھارتی فوجی بھوٹان کے علاقے میں آزادانہ گھومتے پھرتے تھے۔

1959 میں چین نے تبت کو اپنے علاقے میں شامل کرلیا۔ تب چین نے بھوٹان کو بھی باور کرایا کہ ڈوکلام کا علاقہ تبت کا حصہ ہے۔ تب سے چین کے تمام نقشوں میں ڈوکلام چین کا حصہ ہے تاہم بھوٹان کی حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔ چین اور بھارت کے درمیان ایک اور پرانا تنازع بھی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین میں شامل علاقے آکسائی چن ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے جب کہ چین کا کہنا ہے کہ بھارتی ریاست آروناچل پردیش چین کا حصہ ہے جس پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی سرحدی تنازع پر دونوں ممالک میں 1962 میں جنگ بھی ہوئی تھی۔

بھارت وادی چمبی میں واقع علاقہ ڈوکلام سطح مرتفع کو تزویراتی نکتہ نظر سے بڑی تشویش کے ساتھ دیکھتا ہے کیونکہ چین کے زیر اثر آنے کے بعد چین یہاں عسکری تعمیرات بھی کر سکتا ہے۔ یہ علاقہ عسکری لحاظ سے اس لیے بھی بہت اہم ہے چونکہ یہ بھارتی علاقے سیلگوری راہداری کے بہت قریب ہے۔ 1962میں جب چین اور بھارت کی جنگ ہوئی تھی تو بھارتی حکمرانوں کو سخت اندیشہ لاحق تھا کہ چینی فوج سیلگوری راہداری پر قبضہ کرکے بھارت کو اس کی شمال مشرقی ریاستوں سے آسانی کے ساتھ کاٹ سکتی ہے۔

بھارتی فوج 6 عسکری کمانڈز پر مشتمل ہے جب کہ چین کی فوج 5 تھیٹرکمانڈز میں منقسم ہے۔ چینی فوج کی مغربی کمانڈز نفری کے لحاظ سے بھارت کی مشرقی کمانڈز سے زیادہ بڑی ہے اور سب سے زیادہ خاص بات یہ ہے کہ اس علاقے میں چینی فضائیہ بھارتی فضائیہ سے بہت زیادہ طاقتور ہے۔ مغربی تھیٹر کمانڈز میں اپنی برتری قائم رکھنا چین کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ پہاڑی راستوں کی وجہ سے علاقے میں بری فوج کے نقل، حرکت کے امکانات بہت مسدود ہیں جب کہ لڑاکا اور بمبار طیاروں کی مدد سے دشمن کے اوپر کاری وار کیا جاسکتا ہے۔

ابھی چند روز پہلے بھارتی حکمرانوں نے چین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 2017 ہے 1962 نہیں ہے جس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے چین نے یہ کہا تھا کہ بھارت کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہے کیونکہ چین بھی اب بہت طاقتور ہوچکا ہے اور 1962 اور 2017 کے چین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر بھارتی حکومت نے وادی چمبی اور ڈوکلام میں چین کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو وہ 1962 سے بھی بری طرح مار کھائے گی اور علاقے کا چوہدری بننے کا بھارتی خواب چکنا چور ہوجائے گا۔

بہتر یہی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور طاقت کے نشے میں اپنے پڑوسیوں سے ٹکرانے سے گریز کرے۔ یاد رہے کہ چینی عسکری ماہرین نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اگر بھارتی فوج نے مستقبل میں پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی حکومت کی درخواست پر چینی فوج بھارتی حملے کو روکنے کے لیے پیش رفت کرسکتی ہے۔ سی پیک کے پس منظر کے حوالے سے بھی پاکستان کا دفاع اور سلامتی چین کے ساتھ وابستہ ہے اور بھارت کا پاکستان پر حملہ چین پر حملہ تصور کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔