سرقے کی ڈگریاں

رئیس فاطمہ  بدھ 13 فروری 2013

وہ غیر مسلم ہیں، لیکن کتنے ایماندار۔۔۔۔! دواؤں میں وہ ملاوٹ نہیں کرتے، کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کا خاص خیال رکھتے ہیں، جو چیزیں باسی ہوجائیں انھیں نئی پیکنگ اور نئی ایکسپائری ڈیٹ کے ساتھ دوبارہ مارکیٹ میں لاکر انسانی زندگیوں سے نہیں کھیلتے، وہ جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ وہ بھی اسی خدا کی مخلوق ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا۔وہ الیکشن میں دھاندلی نہیں کرتے، اور ہارنے والا جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام نہیں لگاتا۔ کیونکہ وہ غیر مسلم ہیں، اسی لیے اپنی غلطیوں پر شرمسار بھی ہوتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں، کیونکہ ان کی سوسائٹی کرپٹ اور جھوٹے لوگوں کی سوسائٹی نہیں ہے، جرمنی کی وزیر تعلیم انیتا شافان پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے چوری کے مقالے کا الزام لگایا گیا۔

ان الزامات کے بعد وہ فوراً اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ جب کہ سرقہ کا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے اور وہ اس الزام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی قریبی دوست بھی ہیں۔ لیکن انھوں نے چانسلر سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہے نا حیرت کی بات؟ کیا ہم اس قسم کے مثبت رویے کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟ اس کے باوجود ہمیں اگر فخر ہے تو صرف مسلمان ہونے پر۔ اسلام کے نام پر ہر قسم کی بے ایمانی ہمارا قومی مزاج ہے۔ زائد المیعاد دوائیں، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر اشیاء دھڑلے سے فروخت کی جاتی ہیں اور اس پر ندامت کے بجائے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ تاجر اپنا سرمایہ کیوں ڈبوئے؟ دواؤں کی بوتلوں اور بیرونی ڈبوں پر نئی تاریخ کا اسٹیکر عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہ دیدہ دلیری خوب پروان چڑھ رہی ہے، چلیے اور باتوں کو تو چھوڑیئے کہ الیکشن میں دھاندلی سے لے کر دیگر خرافات معاشرے کی جڑوں میں دیمک کی طرح بیٹھ گئی ہیں۔ ہم مجموعی طور پر اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ صرف اور صرف اپنے لیے سوچتے ہیں، میری گاڑی پہلے نکل جائے، میں قطار توڑ کر سب سے پہلے بل جمع کروا دوں وغیرہ وغیرہ۔ بس ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ:
تمام شہر جلے‘ ایک میرا گھر نہ جلے

صرف جرمن وزیر تعلیم کے حوالے سے بھی اگر بات کی جائے تو پاکستان میں ’’ڈگری، ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی‘‘۔ ایک وزیر کا یہ بیان اس کی ذہنی حالت کا بین ثبوت ہے۔ ایک طرف وہ غیر مسلم جرمن وزیر تعلیم جس نے الزام کی تردید سے پہلے استعفیٰ دے دیا اور دوسری طرف ہم مسلمان اور پاکستانی۔ جہاں ارکان اسمبلی میں سے بیشتر کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ ہائرایجوکیشن نے جب چھان بین شروع کی تو ادارے کے ذمے دار افسران کو دھمکیاں ملنے لگیں اور یوں یہ معاملہ جو بلبلے کی طرح اٹھا تھا، یکدم سے بیٹھ گیا۔ کیونکہ جعلی ڈگری کے حامل اراکین کو بڑی سیاسی جماعتوں کی خوشنودی حاصل تھی۔ اگر ان کی ڈگری منسوخ ہوجاتی تو ساتھ ہی اسمبلی کی رکنیت بھی منسوخ ہوجاتی اور سیاسی پارٹیاں یتیم ہوجاتیں۔

کثیر تعداد میں جعلی ڈگریاں رکھنے سے سیاسی پارٹیوں کی ساکھ تو بری طرح متاثر ہوئی ہے، لیکن جب ان کے قائدین اور وہ خود ہٹ دھرمی کے ساتھ انگلیوں سے ’’V‘‘ یعنی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے، بے شرمی سے ہنستے ہوئے، ڈھٹائی سے قہقہے لگاتے ہوئے، اپنی اپنی قیمتی گاڑیوں میں کھڑے اس سسٹم کا مذاق اڑا رہے تھے، جہاں انصاف کیا نہیں جاتا بلکہ خریدا جاتا ہے۔ تو سنجیدہ اور محب وطن لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ کہاں رہ رہے ہیں، کیا یہ کوئی جنگل ہے، جہاں طاقت کی حکمرانی ہوتی ہے، کمزور جانوروں کو طاقت ور جانور ڈکار لیے بغیر ہضم کرجاتے ہیں، اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا؟ چرچل نے صحیح کہا تھا کہ ’’انھیں آزادی نہ دو، یہ اس کے لائق نہیں ہیں‘‘ جس ملک میں جعلی ڈگریوں کا کام یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی ملی بھگت سے ہو رہا ہو، وہاں آیندہ کا منظرنامہ بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے۔ جرمن وزیر اعظم صرف الزام لگنے پر مستعفی ہوجاتی ہے اور ہمارے اساتذہ سرقے کی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ماتھے پر سجائے بیٹھے ہیں جب کہ بیشتر اساتذہ کا نام باقاعدہ اخبارات میں آچکا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر اپنے اپنے شعبے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ بعض نے تو اپنے ہی شعبے کے ایک استاد کا مقالہ چوری کرکے ڈگری لے لی، اور پھر بعد میں دونوں میں معافی تلافی بھی ہوگئی، کیونکہ دونوں ایک ہی سیاسی جماعت کے سپوت ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ دونوں کے نگراں بھی ایک ہی ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا اندر کوئی اور بھی کہانی ہے؟ کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان ہولناک انکشافات کی تفصیل بتائی جائے۔ لیکن لوگ جانتے ہیں کہ سرقے کی ڈگریاں کس طرح لی جاتی ہیں۔ دراصل نگراں استاد کو اب اتنی فرصت نہیں کہ وہ ہر شاگرد کا کام بنظر غائر دیکھے۔ ان کے لیے فخر کا مقام صرف یہ ہے کہ ان کے زیرنگرانی کتنے لوگ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، اس عاشقی میں انھیں ’’عزت سادات‘‘ کے جانے کا بھی کوئی غم نہیں، کیونکہ عزت اور خاندانی نجابت اب ماضی کی باتیں ہیں۔ سرقہ کرنے والے استاد جب اپنے مخاطب طالب علموں کو ’’ایمانداری، پارسائی اور خاندانی نجابت‘‘ سے آگاہ کرتے ہیں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ خود چوری کے مقالے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے منبر پر کھڑے ہوکر ’’سچ کی تلقین‘‘ کرتے اچھے نہیں لگتے، لیکن یہ وہ ملک ہے جہاں مذہب اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ سرقے کے مقالے اپنے ماتھوں پر سجائے، انھیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی آشیرواد حاصل ہے۔

نگراں پروفیسر صاحبان اب نہ ’’ببلوگرافی‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں نہ ہی لکھے گئے مقالے کے مندرجات کو پڑھتے ہیں، کیونکہ پڑھنے کی انھیں فرصت ہی نہیں، اس لیے ان معزز نگرانوں کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سرقہ کہاں سے کیا گیا ہے۔ وہ تو بس صفحات دیکھ کر ’’دستخط‘‘ کردیتے ہیں کہ انھیں صرف اپنے معاوضے سے مطلب ہے۔ خود نگراں اساتذہ کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہ چوری پکڑ نہیں سکتے، گزشتہ دس تا بارہ سال کے درمیان پی ایچ ڈی کرنے والے حضرات سے بات کرکے دیکھیے تو بیشتر کو تو اپنے موضوع سے بھی پوری واقفیت نہیں، کیونکہ اب یہ کام بھی ٹھیکے پر ہو رہا ہے۔ بعض تھوک فروشوں نے بڑی تعداد میں کچھ خوردہ فروشوں سے مختلف موضوعات پر کام کروا کے محفوظ کرلیا ہے۔ کسی بھی ڈاکٹریٹ کے طلبگار جنھیں اپنی تنخواہ بڑھوانی ہو یا صرف نام سے پہلے ’’ڈاکٹر‘‘کا لاحقہ لگانے کا شوق ہو۔ وہ جب ان سے رابطہ کرتے ہیں تو تھوک فروش انھیں چند عنوانات بتا دیتے ہیں، جو ان کے پاس پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کا انتخاب کرکے خریدار معاملات طے کرلیتا ہے اور۔۔۔۔۔پھر صرف دو سال کے قلیل عرصے میں وہ ڈاکٹر کہلانے لگتا ہے۔ یہ تو سرقے سے بھی بڑا فراڈ ہے۔ جو بڑی کامیابی سے ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں نہایت کامیابی سے جاری ہے۔

جنھیں دو لفظ بولنا نہیں آتے، جو ’’عوام‘‘ کو مونث بولتے اور لکھتے ہیں، جو ’’سمجھ میں نہیں آتا‘‘ کو ’’سمجھ نہیں آتی‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں، جو ’’دل برداشتہ‘‘ کو ’’دلبر داشتہ‘‘لکھتے ہیں، جو ’’میں نے کہا‘‘ کو ’’میں نے بولا‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا دم چھلا لگائے پھرتے ہیں کہ دو نمبر کے جعلی اور بے ایمان معاشرے میں، کوّے کا پر ہُما کا پر سمجھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔