جرم جمہوریت کی سزا (حصہ اول)

نادر شاہ عادل  منگل 15 اگست 2017

وہ شخص جو اپنے انقلابی نظریات کے جرم میں شعلوں میں لپٹا ہوا تاریخ میں امر ہوا، وہ ابن آدم جس کا باغی اور سرکش سر سرکارکی قلمرو میں قلم ہوا مگر جس نے جاہلیت اور ظلم کے سامنے سرنڈر ہونے سے انکارکیا، وہ پیمانہ بکف اور میخانہ بدوش ملنگی جس نے نعرہ مستانہ پر موت کو زندگی پر فوقیت دی، جس دیوانے نے قوم وملک کی خاطر دشمن کا ہر وار جسم پر سہہ کر شہادت پائی اور وہ جنہیں جرم بے گناہی پر پھانسی دی گئی۔

وہ جو سلطانیٔ جمہورکے خواب دیکھتے ہوئے ابدی خواب گاہ پہنچائے گئے،ایسے سارے سحر منتظر لوگ اپنے ساتھ ایک انقلاب کے بیج لائے، ان کی قربانیوں سے زندگی کے کھلیانوں میں نئی شادابی پر بنجر ذہن کھل اٹھے، جمود زدہ سماجوں نے انگڑائی لی، آہن پیکروں کے پاؤں تلے زمین سرکنے لگی، غربت سے چور ہجوم نے اپنے وجود آتش فشاں بنالیے، اس میں بارود بھردیے، اشرافیہ سے نمٹنے کے لیے آگ، چنگاری، شعلہ، لاوا، ابھار، شب خون، بغاوت کی تپش اور ہولناک سیاسی ، نظریاتی، معاشی سائنسی اورکائنات گیر تبدیلیوں کی نوید لے کر طلوع ہوئے، غلامی اور محکومیت کا جنازہ اٹھ گیا۔

آزادی کی صبح کا افتادگان خاک نے والہانہ استقبال کیا۔ پھر وہ حیات لے کے چلے کائنات لے کے چلے اور چلے تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلے۔ ہزاروں مسیحا نفس رہنما تاریخ کے اوراق میں ملیں گے، ادھر دیکھئے تو سیکڑوں نام تاریخ کے ریفرنس بک اور یادوں کے جھروکے بن کر جدوجہد کا درس دیتے ہیں، ان کا کیا شمار جنہیں جمہوریت کی تاریک راہوں میں کبھی سفاکی سے مارا گیا اورکبھی پس چلمن ڈرا کر گھر بھیج دیا گیا، جمہوریت دشمنوں کو پاکستانی عوام بھول چکے ہیں، مگر کوئی انہیں دل کے قریب محسوس ہوتا ہے ، وہ سلطانی ٔ جمہور کا استعارہ ہیں، وہ ظلم پرستی کے خلاف توانا آواز ہیں، انہیں دیکھو اور سلام کرو یہ ضمیر کے قیدی وہ اہل وطن ہیں جو ہر الیکشن میں ووٹ دینے کیلیے صبح سویرے پولنگ اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں۔

یہ فرد واحد جو جاگیردار گھرانے سے اٹھا اور آج اس کا نام ہمدردی ووٹ سے زندہ ہے، جمہوریت کو رگیدا گیا،اسے رسوائی ملی،بار بار وزرائے اعظم گھر بجھوائے گئے مگر جمہوریت اہل وطن کی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے، آجکل ایسا منظر نامہ بھی ابھارا جا رہا ہے جس میں جمہوریت کی بالادستی کی صدا کو ریاستی رٹ کے خلاف مہم جوئی سے جوڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ دانا لوگ جو ایڈیٹ باکس پر چھائے ہوئے ہیں، ن لیگ کی ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی ’’اسپارٹیکس‘‘ یہاں موجود نہیں، کسی نے یوں ہی غمازی کی ہے، اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے، لڑا دے ممولے کو شہباز سے (پلیز شہباز شریف مراد نہیں۔)

آج ملک تاریخ، جدید حکمرانی کے دوراہے اور نازک ترین سیاسی موڑ پرکھڑاہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ کتابوں میںآشفتہ سروں اور جانثاروں کے جابجا تذکرے ملتے ہیں، ان کے برپا کیے ہوئے فکری انقلابوں سے ایوانوں پر لرزہ طاری ہوا، محل گرائے گئے، تخت اچھالے گئے، جابر سلطانوں کی لاشوں کوگلی کوچوں میں گھسیٹا گیا، تاریخ کے اوراق ان کی یادوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھرے پڑے ہیں۔

اہل نظر بار بار کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق حاصل کرو مگر تاریخ یہی کہتی ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتا اور یوں تاریخ دشمن رویہ ایسے مائینڈ سیٹ رکھنے والی قوموں سے وقت مذاق ہی مذاق میں جاپانی پہلوان کی طرح ’’انوکی لاک‘‘ لگا دیتا ہے، نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ آج کا منظر، ایک پھڑپھراتی قوم اور نیم بسمل جمہوریت کی ہا ہا کار سے عبارت ہے، لگا ہے جرم کا بازار دیکھو، سیاست دوراں فیصلہ کن کشمکش سے دوچار ہے۔

ایک تو دشمن گھات میں بیٹھے دوجے رات اندھیری۔ غافل جان کے لوٹ نہ لے کوئی محنت تیری میری۔ قوم مسرو تھی کہ ملکی جمہوریت بھی ٹو پارٹی سسٹم کی ڈگر پر چل پڑی ہے، اقتدار کی منتقلی کا پر امن سفر منزل تک پہنچا کر دم لے گا، لیکن فاؤل پلے نے سب کچھ تتر بتر کر دیا، بے رحم تاریخ نے سفینہ جمہوریت کو پھر سے طوفان میں گھر ہوا پایا، سی پیک کے گیم چینجر ہونے کا سحر طاری تھا کہ بلوچستان کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ وقت سنبھلنے کا ہے مگر کوئی سنتا نہیں، سیاسی قوتوں نے سینگ اٹکائے ہوئے ہیں، رستم وسہراب کی سیاسی ریسلنگ میں کسے احساس کہ جمہوریت اور آیندہ انتخابات تدبر اور تحمل کا پلے گراؤنڈ مانگتے ہیں۔ سیٹ تو رومن گلیڈی ایٹرز کیلیے تیار ہورہا ہے۔

یادش بخیر وطن عزیز کے 18 مظلوم و بے نوا ’’تو چل میں آیا‘‘ وزرائے اعظم کا اسی حوالے سے ذکر میڈیا میں تواتر سے ہورہا ہے، کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ 80 فیصد الیکٹرانک میڈیا ایک زمیں بوس وزیراعظم کی تدفین کی کمنٹری پر مامور ہیں، درجنوں بروٹس خنجر بہ دست ان پر کاری وار کرتے ہوئے پینترے بازیوں کا ایسا ڈراما اسٹیج کیے ہوئے ہیں کہ جمہوریت شرمندہ شرمندہ بدن دزدیدہ دزدیدہ سے نظر آتے ہیں، میڈیا دہائی دے رہا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم تندی ٔ باد مخالف سے گھبرائے بغیر اونچا اڑنے کے شوق میں کسی نئی ٹریجیڈی سے ہمکنار ہونے کے قریب ہیں، میڈیا کے پنڈتوں کے نزدیک ان کا چار روزہ جلوس نہیں جنازہ جا رہا تھا، وہ شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھنے کی رسم جمہوریت ادا کرتے ہوئے اپنے سیاسی کیریئر کے المناک ڈراپ سین کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔

کسی ستم گر کا کہنا ہے کہ انقلاب آشنا میاں صاحب سسٹم کے ڈسے ہوئے ہیں اور سسٹم ہی کا زہر بے اثر کرنے کے لیے ریلی لے کر نکلے تھے، پر جوش عوامی ریلوں نے ان کو خوش آمدید کہا، مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنگل کے اصول بھی بالادست درندوں اور سیم تن ہرنیوں اور غزالوں کی ناگہانی موت سے مختلف نہیں ہوتے، بفیلوز(بھینسوں) کو تنہا شیر نہیں گھیرتا کئی جنگل کے بادشاہ اور شیرنیاں اس کے پیچھے لگ جاتی ہیں، سو لگے ہوئے ہیں بھائی لوگ! لگڑ بگے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، یہی لگڑ بگے رومی سینٹ میں پہنچے تو سبھی جولیس سیزر کے ساتھ نہیں تھے،کوئی بروٹس بھی نکلا، جس کے خنجر کے وار سے زخمی شہنشاہ روم کی زبان سے وہ تاریخی جملہ خون کے فوارہ کی طرح اچھلا US YOU TOO BRUT گروٹس تم بھی ۔۔۔۔۔۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

نئی بات، غیر روایتی نعرہ، نیا انداز بیاں، تحریک، انقلاب اور تبدیلی کا اشارہ یا ارادہ اس شخص یا حکمران کی طرف سے جو خود ’’اسٹیٹس کو‘‘کا بندہ رہا ہو، بظاہر عجیب ہی لگتا ہے، لیکن حالیؔ نے کہا ہے کہ عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں۔کوئی بھی مالی کی جھاڑیوں اور پودوں کی کاٹ چھانٹ کو ظلم سے تعبیر نہیں کرتا، وہ باغ کا رکھوالا کہا جاتا ہے، اسے پھولوں کوکانٹوں سے آزاد کرنے کی ذمے داری دی جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ گلشن ِ جمہوریت کوکسی مالی کی ضرورت پڑگئی ہے، اپوزیشن کہتی ہے نواز شریف اور ان کے نعروں کی حقیقت یا اس میں چھپے ہوئے مکروفریب کی تفتیش کیلیے بھی کسی جے آئی ٹی کی ضرورت تو نہیں پڑے گی، یہ سپارٹیکس اپنے احتجاج، سوالات،گلے شکوؤں اور نیا انقلاب برپا کرنے کے عزم کو لے کر بچ کے جائے گا کہاں؟ قیاس آرائیاں جاری ہیں اور کج ادائیاں کیا کیا۔

واضح رہے سپارٹیکس مشہور امریکی مصنف ہاورڈ فاسٹ کے ناول کا زندہ جاوید کردار ہے، روم کی غلامی کے خلاف وہ مٹھی بھر عوامی لشکر لے کر وقت کی شہنشاہیت سے ٹکرایا اور پھر وہی ہوا جو میڈیا کے بقراطوں کے خیال میں نواز شریفانہ انقلاب کا بھی ہونا ہے۔ چلیں ذرا دیکھیں کہ جمہوریت کی دشت نوردی کے شوق کا عالم کیا ہے، صحرائے سیاست کی تنگ گھاٹی میں جانے والے وزیراعظم کا مشن کیا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں بے نام اور بے نشان ووٹرزکی توہین پر مبنی گجرانوالیائی ’’چیخ‘‘ اور لاہور اور شاہدرہ میں شیرکی دھاڑ کا کیا بنے گا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ریلی تھمی تو نقش کف پا نہیں ملا۔ جوابی جلسوں نے نشہ اتار دیا۔ بس چند ماہ کی دیر ہے، انقلاب اور انصاف کے مسند کے درمیان گھمسان کا ایک اور رن پڑنے والا ہے۔ کون نشانے پر ٹھیک بیٹھنے کو تیار ہے، ووٹرزکارڈ کی بازی گری جیتے گی؟ ڈوئل فائٹ ممکن ہے، ویسٹرن مووی کا کوئی سنسنی خیز مار ڈالنے والا منظر ابھرے گا، گاڈ فادر اور سسیلین حکومت کے طعنوں سے زخم زخم سپارٹیکس کا انجام کرک ڈگلس کی شاندار اداکاری کا ٹریلر تو ثابت نہیں ہوگا۔کچھ تو پتہ چلے۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔