اپنے دکھ مجھے دے دو

عینی نیازی  منگل 15 اگست 2017

’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ساری زندگی ایک ساتھ رہنے والے جوڑے کی کتھا ہے، اس میں راجندرسنگھ بیدی نے انسانی نفسیات کا بہترین تجزیہ پیش کرتے ہوئے انسانی دکھ سکھ کو بانٹنے کی کہانی لکھی ہے، لیکن میں نے جب بھی روتھ فاؤکو دیکھا وہ مجھے بیدی کے ٹائٹل’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کا سراپا لگیں۔ میرے ذہن میں اس سے بہتر الفاظ ان کے لیے نہیں ملے کہ اپنا سکھ، اپنا تمام جیون دان کرکے جذام کے مریضوں سے ان کی تکلیف دورکرنے والی ایک ہستی تھیں، دنیا میں ان جیسے کم ہی انسان ہوں گے شاید ایسے ہی لوگوں پر فرشتوں کا گمان ہوتا ہے مگر مخلوق انسان ہوتے ہوئے فرشتہ بن جائے تو اس کا مرتبہ فرشتے سے بلند تر ہو جاتا ہے۔ قربانی انسان کوکندن بنا دیتی ہے، یہ دنیا ایسے ہی نیک لوگوں کے دم سے قائم ہے جو اپنی مشکلا ت پس پشت ڈال کر دوسرے انسانوں کے آنسوصافٖ کرتے ہیں۔ اپنے کاندھوں پر دوسرے انسانوں کے دکھ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

ان کا درد دورکرنے میں دن رات لگا دیتے ہیں۔ اپنے خواب اور نیند ان پر قربان کر دیتے ہیں روتھ فاؤ بھی کسی ستائش اور صلے کی تمنا کیے بغیر اپنے مشن میں لگی رہیں۔ نوبل انعام یافتہ مدرٹریسا، مہاراشٹرا کے بابا آمنے اورڈاکٹرروتھ فاؤ نے کوڑھ کے ان بیماروں کے علاج میں زندگی گزار دی۔ روتھ فا ؤ پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے ایک فرشتہ ثابت ہوئیں، انھوںنے کوڑھ کے مریضوں کے لیے اپنی زندگی وقف کردی یہ ان کا پرخلوص ایثار ہی تھا کہ پا کستان میں جذام کے خاتمے میں مدد ملی۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ 9 ستمبر1929ء کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی اقتدار میں آئے تو ان کے خا ندان کو مشرقی جرمنی چھوڑ کر مغربی جرمنی جانا پڑا، جہاں روتھ فاؤ نے اپنی تعلیمی مدراج طے کیے اور پھر ایک مشنری تنظیم کے ساتھ پاکستان آئیں اور یہاں سڑک پر ایک غریب بے بس کوڑھی مریض کی بدتر حالت دیکھ کر انھوں نے زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کیا، انھوں نے ساری زندگی ان مریضوں کے لیے وقف کر دی پلٹ کر پھر دوبارہ واپس وطن قیام نہیں کیا۔

روتھ فا ؤ نے کراچی میکلوروڈ (آئی آئی چند دیگر روڈ) پر ایک چھوٹا سا کلینک بنایا، اس سے پہلے عام طور پرجذام کو قہر خداوندی سمجھا جاتا تھا مریض کو آبادی سے دور رکھا جاتا، ان کے اپنے قریبی عزیز ان سے دور بھا گتے تھے مبادا یہ مرض ان پر حملہ آور نہ ہو جائے لیکن روتھ فاؤ نے ان بے کسوںکے رہنے کا انتظام کیا، ان کے خوراک،ادویا ت اورمرہم پٹی کا بندوبست کیا یہ سب کچھ روتھ فاؤ نے دردمند افراد کے مالی تعاون سے جاری رکھا، وہ ان بد قسمت انسانوں کے حصے میں آنے والی تکلیفیں و درد کم کر نے میں مصروف ہو گئیں ۔

جذام ایک نہایت ہی خطرناک مرض ہے جس میں پہلے ہلکے بھورے رنگ کے چنے کے دانے جیسے دھبے نمودار ہوتے ہیں جو بڑھتے جاتے ہیں علاج نہ کرانے کی صورت میںجسم سڑنے لگتا ہے اس سے نہایت بدبو دار مادہ رسنے لگتا ہے اور پھر انسان اپنے اعضاء سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس جان لیوا مرض میں مبتلا مریض مردوں سے بدتر ہوتا ہے۔ روتھ فاؤ نے ان مریضوں کی بے بسی کو بہت قریب سے محسوس کیا تھا۔

1960ء میں جب وہ نوزائیدہ پاکستان میں تشریف لائیں توایک جاذب نظر اکتیس سالہ خوبروخاتون تھیں ، ایک ترقی یافتہ ملک کی شہری تھیں جن کا اپنے وطن میں مستقبل روشن تھا لیکن انھوں نے کوڑھ کے مریضوں کی خدمت میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا اور 57 برس اس کام میں صرف کر دیے۔ ایک غیر قوم، غیرمذہب پر اس قدر ایثار ومحبت نچھاورکرنے کی داستانیں بہت کم ہی نظر آتی ہیں۔ روتھ فاؤکے اسپتال میں پاکستان کے کونے کونے سے جذام کے مریض علاج کروانے آتے، جہاں وہ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے مریضوں کا بہت توجہ سے علاج کرتی رہیں، زندگی کی جنگ لڑنے والوں کی مددگار بنیں بعد میں ان اسپتالوں کی توسیع کی گئی۔

ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف کو ٹرینگ دے کر 1963ء میں میری لپریسی سینیٹر بنایا وہ خود بھی پورے پا کستان کے دور درازعلا قوں میںجا کر جذام کے مریضوں کا علاج کرتی ان سے ہزاروں جذامیوں نے شفا پائی، وہاں کے مقامی اسپتالوں میں علاج کے لیے ٹرینگ دیتی رہیں۔ جرمنی سے انھوں نے ان مریضوں کے لیے خطیر رقم اکھٹا کی وقت کے ساتھ روتھ فا ؤ نے یہ ثابت کردیا کہ جذام ایک قابل علاج مرض ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ روتھ فاؤ کی انتھک محنت وعزم ہی تھا جو جذام جیسے مرض پر قابو پا لیا گیا ان ہی کی کاوشوں کے نتیجے میں 1998ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کوپہلا لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا ورنہ اب تک ہم کرڑوں روپے اور حکومتی سر پرستی کے باوجود اب تک پولیوجیسے خطرناک مرض سے جان نہیں چھڑا سکے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ کو بے شمار ملکی اورغیر ملکی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کے تمام بڑے اعزاز جن میں ہلال امتیاز، ستارہ قائداعظم، ہلال پاکستان، نشان قائداعظم، حبیب جالبؔ امن ایوارڈ اور جناح ایوارڈ کے ساتھ آغا خان یونی ورسٹی کی جانب سے ڈا کٹر آف سائنسزکا خطاب دیا گیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اپنی اس عظیم مسیحا شہری کو ایوارڈ سے نوازا۔

ایک بار جب روتھ فاؤسے سوال کیا گیا کہ آپ کو پاکستان میں سب بڑی خرابی کیا محسوس ہوتی ہے تو انھوں نے نہایت دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ’’آپ لوگوں کے ہاں ظلم بہت ہے، یہاں غریب اورمفلس لوگوں کا علاج ایک مذاق ہے بلکہ نہایت بھونڈا مذاق! اس لیے کہ آپ کے ہاں انصاف نہیں‘‘

دوسروں کے دکھ کے بدلے انھیں سکھ دینے والی مسیحا روتھ فاؤ آج ابدی نیند سوچکی ہیں۔ ایک پرسکون نیند، جس کی تمنا توکی جا سکتی ہے مگر اس کے لیے کڑی ریاضت وآزمائش کی ضرورت ہے جو ہرکسی کا نصیب نہیں ہوتی کہ جگنو، روشنیوں اور تتلیوں کے دیس جانے کے لیے دوسروں کے دکھ اپنے بنانے پڑتے ہیں۔ رو تھ فاؤکی خدمات ہمیں ہمیشہ یاد آئیں گی۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔