راجا داہر اور عرب سردار

 منگل 15 اگست 2017
اس زمانے میں جبکہ داہر اور رن مل میں لڑائی کی ٹھن رہی تھی۔ فوٹو : فائل

اس زمانے میں جبکہ داہر اور رن مل میں لڑائی کی ٹھن رہی تھی۔ فوٹو : فائل

680ء میں چندر سندھ کا حکمران تھا۔جب وہ اسی سال چل بسا تو درباریوں و امرا نے صلاح و مشورہ کر کے سابق حکمران، چچ کے بیٹے داہر کو تخت پر بٹھا دیا۔یوں داہر سندھ کا راجا بن گیا۔  

اپنی حکومت کے پہلے سال وہ الور میں رہا اور ملک کے انتظامات بہتر بنانے کے لیے تدبیریں سوچتا رہا۔ ایک سال کے بعد پورے سندھ کادورہ کیا۔ سندھ کی مشرقی سرحد پر جا کر اس نے قابل بھروسہ لوگ رکھے تاکہ باہر کے حملوں سے ملک محفوظ رہے۔ پھر سندھ کی مغربی سرحد پر جا کر وہاں کے انتظامات ٹھیک کیے۔ وہاں سے وہ برہمن آباد پہنچا اور چند دن رہ کر اپنے چھوٹے بھائی دھرسین کو علاقے کا حاکم مقرر کیا۔ پھر وہ وہاں سے کیچ و مکران پہنچا اور وہاں چند مہینے ٹھہر کر کرمان کے بادشاہ سے‘ جس کی سلطنت کی حدیں سندھ سے ملتی تھیں‘ محبت اور دوستی کے معاہدے کیے۔

اس طرح سندھ پر حملے کے اس خطرے کو دور کردیا جو ہمیشہ کرمان کے بادشاہ کی طرف سے لگا رہتا تھا۔ ان سب انتظامات سے فارغ ہو کر وہ الور لوٹا۔ الور میں راجا دہر کی جو اپنے ملک کے انتظامات ٹھیک کر رہا تھا‘خبریں برابر پہنچ رہی تھیںجن کو سن کر الور کے چھوٹے بڑے خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔ جب راجا کے آنے کی خبر ملی تو سارا شہر اس کے استقبال کے لیے امنڈ پڑا۔ راجاداہر نے بھی اس دن خزانے کا منہ کھول دیا اور جی بھر کے شہر کے چھوٹے بڑے کو انعام و اکرام سے نوازا۔

شہر کے بڑے بڑے نجومیوں اور برہمنوں کا ایک وفد بھی راجا سے ملا ۔ واپسی کی مبارک باد پیش کر کے نجومیوں نے کہا ’’مہاراج کو خدا سلامت رکھے‘ ہم نے آپ کا اور آپ کے بھائی بہن کا زائچہ بنایا ہے۔ آپ دونوں بھائیوں کا طالع مبارک ہے۔ ہمیں اس میں کوئی نحوست نظر نہیں آئی لیکن آپ کی بہن کے زائچے سے معلوم ہوا ہے کہ جو آدمی بھی اس سے شادی کرے گا، وہی سندھ کے تخت و تاج کا بادشاہ ہو گا اور بائی رانی یہاں سے باہر نہیں جائے گی۔‘‘

راجا داہر برہمنوں کی پیش گوئی سن کر پریشان ہو گیا۔ اس نے ایک دن وزیروں ‘ مصاحبوں‘ پنڈتوں اور نجومیوں کو بلا کر مشورہ کیا اور کہا کہ اب تم بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اتنی بڑی سلطنت اور حکومت کیسے چھوڑی جا سکتی ہے اور میں دوسروں کو اس ملک کا راجا بنتے ہوئے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ اس کے سوا اور کوئی تدبیر میری سمجھ میں نہیں آتی کہ میں خود بائی کے ساتھ شادی کر لوں۔

سب نے یک زبان ہو کر کہا: مہاراج! یہ بڑا پاپ ہے۔ سارے ملک میں بڑی بدنامی ہو گی۔ داہر نے کہا ،میں نے اس کا علاج بھی سوچ لیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ میں خود بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتا اور جو چیز بری ہو، اس کو اچھا کون بنا سکتا ہے۔ لیکن رسمی طریقے پر یہ ہو سکتا ہے کہ ہندو دھرم کے مطابق میرے اور بائی کے درمیان گٹھ بندھن کی رسم ادا کر دی جائے‘ یعنی میری دھوتی کے کونے سے اس کی اوڑھنی کا پلہ باندھ دیا جائے۔ اس طرح رسماً وہ میری رانی اور میں یہاں کا راجا ہوں گا لیکن ہم میں میاں بیوی کے تعلقات قائم نہ ہوں گے۔نجومیوں کی بات بھی پوری ہو جائے گی اور میں بھی پاپ سے بچ جاؤں گا۔

لوگوں نے راجہ داہر کی اس بات کو پسند کیا۔ شادی کی رسم باقاعدہ برہمنوں نے ادا کی اور دونوں کی شادی ہو گی۔جب راجا داہر اور بائی کی شادی کی خبر برہمن آبادپہنچی تو اس کے بھائی دھرسین کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔ اس نے اپنے بھائی راجا داہر کو لکھا کہ تم نے یہ کام اتنا برا کیا ہے کہ ہمارے خاندان کی عزت خاک میں مل گئی ۔ تمہیں ہر گز ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے تھا۔راجا داہر نے اس خط کے جواب میں بھائی کو لکھا کہ میں خود بھی اس کام کو بہت برا سمجھتا ہوں۔ یہ شادی میں نے محض رسمی طور پر نجومیوں کے کہنے سے کر لی ہے اور خدا جانتا ہے کہ آج بھی میں اور بائی بہن بھائی ہیں۔

دھرسین نے پھر راجا داہر کو جواب میں لکھا کہ تم شاید اس تدبیر سے تقدیر کو بدلنا چاہتے ہوں لیکن خوب یاد رکھو، جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ تم اس کام سے توبہ کر کے اپنی اس بدنامی کو دور کرو جو سارے ملک میں ہو رہی ہے۔ مگر راجا داہر نے اس پر بھی بھائی کے لکھنے کی پروا نہ کی۔ دھرسین کو اور بھی غصہ آیا اور وہ ایک بڑی فوج لے کر داہر کے مقابلے کے لیے الور روانہ ہوا۔

ادھر داہر کو خبر ملی کہ دھرسین اس کے مقابلے کے لیے آ رہا ہے۔ راجاداہر نے بھی ایک بڑا لشکر تیار کیا اور بھائی کا انتظار کرنے لگا۔ دھرسین کے ا لور پہنچنے میں دیر ہوئی تو یہ کچھ دن شکار کے لیے باہر نکل گیا۔ یہ سیرو شکار ہی میں تھاکہ چند دن کے بعد دھرسین الور آپہنچا اور اس نے قلعہ میں داخل ہونا چاہا۔

شہر کے لوگوں نے قلعہ بند ہو کر لڑائی شروع کر دی اور ایک آدمی راجا داہر کو بلوانے کے لیے بھجوایا۔ جیسے ہی راجہ داہر کو لڑائی کی خبر معلوم ہوئی وہ فوراً الور پہنچا۔ راجا داہر کی ماں نے دونوں بھائیوں کو بلا کر سمجھایا اور لڑائی سے روکا ۔ دھرسین نے اپنی غلطی مان کر بھائی کے پاؤں چومے اور راجا داہر نے بھی دھرسین کو گلے لگا لیا۔ پھر دونوں بھائی دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ جب دھرسین اسی جگہ لوٹا جہاں ٹھہرا ہوا تھا تو اسے تیز بخار ہو گیا اور اس کے سارے بدن پر بڑے بڑے آبلے پڑ گئے۔ تین دن بعد وہ اس بیماری میں مر گیا۔ دھرسین کے مرنے کے بعد راجاداہر برہمن آباد گیا اور وہاں بھروسے کے قابل لوگوں کو عہدہ دار مقرر کر کے الور واپس ہوا۔

دھرسین کے مرنے کے بعد راجا داہر اطمینان اور سکون سے زندگی گزار رہا تھا کہ 59ھ میں راجا رن مل نے ایک بڑی فوج لے کر الور پر حملہ کیا۔ راجا رن مل کے پاس اتنی بڑی فوج تھی کہ اس کو دیکھ کر راجا داہر پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے وزیر سے مشورہ کیا اور کہا کہ د شمن کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اب بتاؤ ہمیں کیا تدبیر کرنی چاہیے؟ وزیر نے کہا مہاراج میری رائے میں اول تو دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو خوب روپیہ خرچ کر کے کام نکال لینا چاہیے کیونکہ خزانے میں روپیہ پیسہ اسی دن کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔

اس زمانے میں جبکہ داہر اور رن مل میں لڑائی کی ٹھن رہی تھی، عرب کاایک مشہور سردار محمد علافی جو بنی اسامہ کے خاندان سے تھا‘ ایک آدمی کو قتل کر کے اپنے خاندان کے پانچ سو آدمیوں کو لے کر چپکے سے سندھ بھاگ آیا اور راجہ داہر کے علاقے میں رہنے لگا تھا۔ وزیر نے کہا ،مہاراج! اس کے علاوہ جو تجویز میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ عرب ہمارے ملک میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے بھی مشورہ لینا چاہیے۔ عرب بہت بہادر دلیر ہوتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی اچھی تدبیر بتا سکیں۔ راجا داہر کو وزیر کی یہ بات بہت پسند آئی اور وہ فوراً ہی ہاتھی پر بیٹھ کر محمد علافی کے پاس آیا۔

اس سے کہا ،میرا جو سلوک اب تک تمہارے ساتھ رہاہے‘ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں تمہاری کتنی عزت کرتا ہوں۔ آج رن مل کے ہاتھوں ہمارے ملک پر مصیبت آرہی ہے۔ اس کے ٹالنے میں تم ہماری مدد کرو اور ہمیں مشورہ دو کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ محمد علافی نے راجا داہر سے کہا ،آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ میں ایسی تدبیر کروں گا کہ آپ کا دشمن ساری عمر یادرکھے گا۔

پھر اس نے کہا، اول نے آپ مجھے کچھ فوج دیجیے تاکہ میں اس کو ساتھ لے کے دشمن کا حال معلوم کروں ۔ دوسری تدبیر یہ کیجیے کہ یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر خندق کھود کر ٹھہریئے ۔ راجا داہر نے محمد علافی کو پانچ سو سوار دے دیئے۔ محمد علافی نے ان پانچ سو سواروں اور اپنے ساتھی عربوں کو لے کر ایک رات جب کہ رن مل کی فوجیں بے خبر سو رہی تھیں، شب خون مارا اور اچانک اتنے زور سے حملہ کیا کہ رن مل کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس کے ہزاروں آدمی قتل ہوئے اور ہزاروں پکڑے گئے۔ دشمن کا بے شمار سازو سامان ان کو ملا۔ دشمن کے پچاس ہاتھی بھی ان کے ہاتھ لگے۔

اس کامیابی پر راجا داہر محمد علافی سے بہت خوش ہوا اور اس کو بڑا انعام و کرام دیا اور سرحد مکران پر ایک علاقہ ان لوگوں کے قیام کے لیے مقرر کر دیا‘ جہاں پر اسلامی حکومت کے یہ باغی آباد ہو گئے۔داہر نے سندھ پر 33 سال حکومت کی۔ 92ھ (710-11ء ) میں محمد بن قاسم نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجا داہر مسلمانوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور سارا سندھ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔

(مولانا اعجاز الحق قدوسی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔