حوصلہ بڑھانے والی فلمیں

 منگل 15 اگست 2017
یہ فلمیں دیکھنے والے پر نہ صرف گہرا تاثر چھوڑتی بلکہ اس کی زندگی بھی تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔ فوٹو : فائل

یہ فلمیں دیکھنے والے پر نہ صرف گہرا تاثر چھوڑتی بلکہ اس کی زندگی بھی تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔ فوٹو : فائل

فلمیں تفریح فراہم کرنے کی خاطر بنائی جاتی ہیں۔تاہم بعض فلموں میں مثبت پیغام بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ فلمیں دیکھنے والے پر نہ صرف گہرا تاثر چھوڑتی بلکہ اس کی زندگی بھی تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔ وہ ناظرین میں جوش ولولہ اور نیکی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔کچھ ایسی ہی انگریزی فلموں کا تعارف درج ذیل ہے۔

اٹس اے ونڈر فل لائف
یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی ۔ اس میں ہیرو کو ایسا شخص دکھایا گیا ہے جو کرسمس کی شام اپنے خواب ترک کرکے بے یارومددگار افراد کی مدد کرنے اور خودکشی پر تلے افراد کو بچانے کے لیے نکل جاتا ہے۔یہ اپنی مقصدیت اور مزاح کی بدولت ہالی وڈ کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر فرینک کاپرا تھے جبکہ مرکزی کاسٹ میں جیمز اسٹیورٹ اور ڈونا ریڈ سمیت دیگر شامل تھے۔

فورسٹ گمپ
زندگی میں سادہ طرز فکر حقیقی خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔ بغیر کسی بہت زیادہ کوشش کے زندگی کے بہاؤ میں بہتے جانا کامیابی کی ضمانت بھی بن سکتا ہے ۔یہی اس فلم کا مرکزی خیال ہے۔ 1994 میں رابرٹ زیمییکس کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ ایک رومانوی فلم ہے جس کا مرکزی کردار ذہین تو نہیں ہوتا مگر وہ حادثاتی طور پر متعدد تاریخی لمحات کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی بات دیکھنے والوں کو بھی بھا گئی۔

دی ساؤنڈ آف میوزک
1965 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے ۔یہ ایسی خاتون کی کہانی ہے جو نن بننے میں ناکام رہتی ہے۔پھر نیوی میں کام کرنے والا ایک کپتان اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اسے اپنے بگڑے سات بچوں کو سدھارنے کے لیے رکھ لیتا ہے ۔ بچے خوش نہیں ہوتے مگر وہ ایک ایک کرکے انہیں رام کر ہی لیتی ہے جبکہ بتدریج نیوی کا کپتان اوروہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس فلم کو رابرٹ وائز نے ڈائریکٹ کیا۔

بریو ہارٹ
یہ ایک نوجوان جنگجو کی کہانی ہے جس کے والد اور بھائی کو برطانوی فوجی ہلاک کردیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کے لیے بیس سال بعد نکلتا ہے مگر اس سے پہلے وہ اپنی بچپن کی دوست کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے۔وہ آزادی کے لیے جاری جدوجہد سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے کھیتوں میں امن کے ساتھ رہنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تاہم اس کی محبت جب برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہے تو پھر وہ اٹھتا اور قیامت ڈھا دیتا ہے۔

اے بیوٹی فل مائنڈ
معروف ریاضی دان جان فوربس نیش جونیئر کی حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم کو رون ہوورڈ نے ڈائریکٹ کیا جبکہ رسل کرو نے مرکزی کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کیا جو انتہائی تنک مزاج پروفیسر کا تھا۔ پھر وہ مرض شیز و فرینیا کا شکار ہوجاتا ہے اور دہائیوں تک اس کا مقابلہ کرکے کسی نہ کسی طرح اپنی ذہنی حالت پر کنٹرول حاصل کرتا اور بتدریج نوبل انعام جیتنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

دی لائن کنگ
کارٹون فلموں دیکھنے کے شوقین افراد میں سے کون ہوگا جس نے ایک شیر کے بچے اور مستقبل کے کنگ سیمبا کی اس کہانی کو نہ دیکھا ہو۔ 1994 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو راجر ایلرز اور روب منکوف نے ڈائریکٹ کیا۔اس کی کہانی محبت، ذمے داری، ہمت اور مضبوطی کا سبق دیتی ہے۔ اگر آپ نے اسے دیکھا نہیں تو ایک بار ضرور دیکھیں۔

دی پریسیوٹ آف ہیپی نیس
حقیقی زندگی کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی جانے والی یہ فلم حالیہ برسوں کی چند متاثر کن فلموں میں سے ایک ہے۔ ول اسمتھ نے ایسے تنہا شخص کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے بیٹے کی پرورش کرتے ہوئے طبی آلات فروخت کرتا ہے۔ مگر مالی حالت اتنی خستہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں بس اسٹیشن کے باتھ رومز اور بے گھر افراد کے شیلٹر میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ زندگی کے اس مشکل سفر میں وہ کبھی ہار نہیں مانتا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم کھڑا رہتا ہے،اس شخص کی زندگی کی مشکلات کو عبور کرنے کی یہ کہانی کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔

رے
ایک معروف موسیقار رے چارلس کی زندگی کی کہانی جو بچپن میں اپنی بینائی سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر بھی کسی نہ کیس طرح پیانو کو بجانا سیکھتا اور خود کو دنیا کے سب سے زیادہ چاہے جانے والے فنکاروں میں سے ایک کی فہرست میں لاکھڑا کرتا ہے۔ بینائی سے محرومی کے ساتھ اسے نسل پرستی اور منشیات کی لت کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک رکاوٹ بھی بیشتر افراد کو کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہیں مگر رے سب کو روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ جیمی فاکس نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ ٹیلر ہیک فورڈ نے اس کی ہدایات دیں۔

راکی
اس کو بیشتر افراد سب سے بہترین متاثرکن فلم قرار دیتے ہیں۔ اس کا بہترین تھیم سانگ، کلب فائٹر سے تمام تر مشکلات پر قابو پاکر ورلڈ چیمپئن بننے کے قریب پہنچ کر شکست کھانے کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم اسے خاص بنادیتے ہیں۔ سلویسٹر اسٹالون کے اس کردار کی مقبولیت ہی تھی جو اس پر اب تک فلمیں بن رہی ہیں اور متاثر بھی کررہی ہیں۔

ریمیمبر دی ٹائٹنز
یہ ایک حقیقی کہانی پر مشتمل ہے جس میں رگبی ٹیم کے عروج و زوال کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اہم پیغام یہ ہے کہ کوئی ٹیم اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب سب مل کر کوشش کریں۔ اپنی ذاتی رنجشیں ایک طرف رکھ کر اکٹھے ہوں تو کامیابی قدم چومتی ہے۔ جبکہ کسی کی بھی صلاحیت کا فیصلہ اس کے حلیے کی بجائے رویے سے کیا جائے۔2000 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو بواز یاکن نے ڈائریکٹ کیا۔

بلڈ ڈائمنڈ
ایک ماہی گیر، ایک اسمگلر اور کاروباری افراد کے ایک گروپ کے درمیان انمول ہیرے پر قبضے کے لیے ہونے والی یہ جنگ آپ کے اندر بھی جذبہ جگاتی اور بتاتی ہے کس طرح زندگی میں آگے بڑھا جاسکتا ہے۔

اکتوبر اسکائی
ایک چھوٹے سے قصبے کے لڑکے کی حقیقی کہانی جس کے خواب بہت بڑے ہوتے ہیں۔وہ اپنے والد کی مرضی کے خلاف جاکر راکٹ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس راہ میں آنے والی تمام تر مشکلات سے گزر جاتا ہے۔ 1999 کی اس فلم کو جوئی جونسٹن نے ڈائریکٹ کیا۔

ان بروکن
دوسری جنگ عظیم کے دوران طیارے کے جان لیوا حادثے کے بعد اولمپئن لیوئس زیمپیرینی کو 47 دن اپنے عملے کے دو ساتھیوں کے ساتھ سمندر پر لکڑی کے تختوں پر گزارنا پڑتے ہیں ۔اس کے بعد وہ جاپانی بحریہ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قیدیوں کے کیمپ میں پہنچ کر تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ زندگی کے اس بدترین دور سے نکلنے کی یہ کہانی آپ کے دلوں کو پگھلا کر رکھ دے گی جس میں ایک شخص کسی صورت ٹوٹنے سے انکار کردیتا ہے۔ انجلینا جولی کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ فلم 2014 میں ریلیز ہوئی۔

فائر آف چیروٹس
ویسے تو یہ فلم دوڑ کے میدان پر مبنی ہے مگر یہ دیکھنے والے افراد کو زندگی کے بارے میں متعدد سبق دیتی ہے۔دو افراد کے گرد گھومتی اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ جس پر یقین رکھتے ہیں، اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اپنی اقدار پر مفاہمت نہیں کرتے چاہے زندگی میں پیچھے ہی کیوں نہ رہ جائیں۔ یعنی یہ لوگ جس کو درست سمجھتے ہیں اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دیکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ایسا ہی کریں۔1981 کی اس فلم کو ہیوگ ہڈسن نے ڈائریکٹ کیا جبکہ بین کراس اور آئن چارلس نے مرکزی کردار ادا کیے۔

(رضوان خان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔