ردعمل اور مذہب

محمد عمار فیضان  بدھ 13 فروری 2013

حدیث کے مطابق برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے روکو، اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کا اظہار کرو، اور یہ استطاعت بھی نہ رکھتے ہو تو دل میں برا جانو، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ گویا ہمارے مذہب نے ہماری رہنمائی کر دی ہے کہ کسی برائی کے حوالے سے کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے ازلی ہدیت سے منہ موڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کیا تو شاید وقتی کامیابی تو ملی ہو لیکن اپنے حقیقی منہج سے ہٹنے کا نتیجہ بعد میں کسی نہ کسی بڑی پریشانی کا باعث بنا ہے۔ موجودہ عہد جو مسلمانوں کے زوال کا دور ’سمجھا‘ جاتا ہے اس زوال کا اثر جہاں ہماری زندگیوں پر بظاہر نظر آتا ہے وہیں اس زوال کا اثر ہماری فکر میں در آیا ہے اور اس کا نتیجہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں روحانی اور فکری شکست کی صورت میں زیادہ ہوا ہے۔

نطشے کے مطابق جب Master Morality اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے تو شکست خوردہ عوام اور اس کے مقابلے میں موجود قوتیں اپنا طریقہ کار بھی تبدیل کرتی ہیں اور یہاں تک ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصطلاحات بھی اس ہی غلامی کے انداز سے ترتیب دیتی ہیں، مثلاً اقتدار میں موجود فرد کا نعرہ اور طریقہ یہ ہو کہ وہ ان چار اصولوں کی بات کرے Power، Aggression، Domination، Revenge، تو اس کے مدمقابل طاقتیں جو اس کے زیر ِنگیں ہیں اور اب اس سے جیت کا حوصلہ بھی نہیں رکھتیں تو وہ اس کے جواب میں اپنی یہ اصطلاحات پیش کرتے ہیں Peace، Love، Equality، Forgiveness۔ اس کے مطابق اس سے پہلے فکری سطح پر ایسی کوئی سوچ موجود ہوتی ہے اور نا ہی معاشرہ کا مجموعی رویہ ایسا ہوتا ہے، اور بظاہر ’خوبصورت‘ نظر آنے والے یہ نعرے اس وقت تک لگائے جاتے ہیں جب تک دوبارہ وہ قوتیں سر نہ اٹھا لیں جو طویل عرصے تک سر نگوں ہو کر یہ نعرے لگاتی رہی ہیں۔ اس کی کئی اور تعریفیں ہو سکتی ہیں لیکن اس وقت جس تناظر میں اس خیال کو بیان کرنا مقصود ہے وہ آج کے دن کے اعتبار سے ہے۔

ایک دہائی پہلے شاید اچھے اچھوں نے اس ویلنٹائن کا نام تک نہ سنا تھا، لیکن آج اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دن کے آنے سے کافی ماہ پہلے ہی اس کی تیاری ’لکیر‘ کے دونوں اطراف شروع ہو جاتی ہے، جہاں لبرل اور سیکولر طبقہ زور و شور سے اس کی حمایت میں ’سینہ تان‘ کر اس کو منانے کے لیے جان لگاتے ہیں، دوسری طرف مذہبی حضرات بھی سروں پر کفن باندھ کر اس کا مقابلے کرنے کو دوڑے آتے ہیں۔ اب صحیح اور غلط کی بحث کو علیحدہ چھوڑ کر اس سوال کا جواب تلاشنا بہت ضروری ہے کہ کیا تاریخ میں کبھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور اگر آئے ہیں تو اس کا جواب کن طریقوں سے مذہب سے وابستہ افراد نے دیا ہے؟ مسلمانوں کی تاریخ میں جب بھی کسی غیر مذہبی روایت سے سامنا ہوا ہے تو ہمیشہ اپنے ہی طریقہ کار سے جواب دیے گئے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے وہ ہی قوت حاصل کی جائے پھر جواب دیا جائے۔ حضرت لوط نے برسوں بے حیائی کے خلاف دعوت دی لیکن کوئی حیا کا دن نہ منایا، کعبہ کا برہنہ طواف ہوتا تھا، مسلمانوں نے کوئی کپڑے پہننے کا دن نہیں طے کیا۔

لبرل نظام کا کمال یہ ہے کہ وہ دونوں نقطہ نظر کے لوگوں کے موقف بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں کئی سال کی محنت کے بعد میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کیا گیا کہ ویلنٹائن بھی ایک دن ہوتا ہے اور ساری دنیا میں منایا جاتا ہے، اس ہی طرح کچھ لوگ ہمارے ہاں بھی اس کی خواہش رکھتے ہیں تو ان کو آزادی ہے کہ وہ اپنے دائروں میں رہتے ہوئے یہ تہوار منالیں۔ جب مذہبی حضرات نے اس پر یہ اعتراض لگائے کہ یہ ہماری مذہبی اور ثقافتی روایتوں کے خلاف ہے اور ان کی جانب سے کچھ مار دھاڑ کے واقعات رونما ہوئے تو اس پر ان کو ترغیب دینے والے افراد نے احتجاج کے ذریعے ان کی حمایت پیدا کی جو اس ’دہشت گردی‘ کا شکار ہوئے تھے۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرا رویہ یہ پیدا ہوا کہ چند حضرات نے معذرت خواہانہ اندز اپنایا اور اس دن کے خلاف اپنے ایک علیحدہ دن کا اعلان کر دیا، جس کی حمایت مذہبی سوچ کے حامل افراد نے کی اور اس دن کو ’حیا ڈے‘ قرار دے دیا اور اس دن کی نسبت سے پروگرامات، سیمنار، مظاہرے، نعرے، نغمے اور نجانے کیا کیا ایجاد کر لیا، یہ ہی وہ چیز ہے جس کی لبرل ڈھانچہ آپ سے امید رکھتا ہے، کیونکہ اس کے بعد آپ اپنا ’حقیقی‘ طریقہ کار چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے طریقہ کار جس کو ’جمہوری‘ نظام میں آزادی کا اظہار، اورfreedom of self expression جیسے منافقانہ ناموں سے نوازا جاتا ہے، کہ آپ اپنے ہی جیسے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر جو چیز آپ کو بری لگتی ہے اس کے خلاف ’ہر سطح‘ پر آواز اٹھائیں تا کہ جن کو آپ کو نقطہ نظر Reasonable لگا ہو وہ آپ کی بات کو قبول کر لیں اور اس طرح باقی وہ حضرات جن کو دوسرا موقف بہتر لگے وہ اس طرف چلے جائیں۔ یہاں سے ایک اور نئے ڈرامے کا آغاز ہو تا ہے۔

جس کو لبرل آرڈر میں Tolerance (برداشت) کا نام دیا جاتا ہے جس کو ٹھیک اور آفاقی ثابت کرنے کے لیے مذہب سے کوئی آیات، حدیث یا واقعہ نکال کر اس جگہ پر رکھ کر یہ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو اسلام کتنا پر امن مذہب ہے، یہاں تو سب سے زیادہ برداشت ہے، اﷲ کے رسول ﷺ نے بڑے بڑے دشمنوں کو معاف کر دیا تھا، آپؐ کے دور میں بھی کفار اپنے طریقوں سے زندگی گزارتے تھے، اس لیے اب ہمیں بھی چاہیے کہ لوگوں کو اپنا موقف پوری جان لگا کر بتائیں، بجائے اس کے کہ ہم ان کو ان غلط کاموں سے روکیں، یا اس کے خلاف کسی طاقت کا مظاہرہ کریں بلکہ ہمارا تو فرض ہے کہ بس ’اپنا دن‘ ان کے دن کے مقابلے میں ایسا منائیں کہ سب کو اندازہ ہو جائے کہ یہ ملک اسلام کے چاہنے والوں کا ہے، یہ چند لوگ ہیں جو بری حرکتیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ باقی عوام اس کے خلاف ہے۔

حقیقت یہ ہے ان خوبصورت ناموں سے ہمارے بڑے بڑے مذہبی حضرات تک دھوکا کھا جاتے ہیں، ان کی اصطلاحات کا مطلب یقیناً وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے لیکن کچھ سادہ لوح حضرات ان کے طریقہ کار کو اختیار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام کر لیا ہے، جب کہ نطشے کے مطابق یہ وہ ہی فکری تبدیلی ہوتی ہے جو جبر کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہو جاتی ہے اور بہت اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن اپنے اندر ایک الگ ہی نوع کی کہانی رکھتی ہے، جس کو وہ حضرات بخوبی جانتے ہیں جنہوں نے کئی برسوں میں اس سوچ کو پیدا کیا ہوتا ہے۔ اس تمام روداد کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب سے جڑے لوگوں کو کوئی بھی وہ طریقہ کار نہیں اختیار کرنا چاہیے جو بظاہر تو خوش نما ہو لیکن اندرون میں کئی خطرناک انجام رکھتا ہو، کیونکہ اس نام نہاد برداشت کا نتیجہ کسی اسلامی معاشرے کے قیام کے بجائے ایک لبرل سوسائٹی کی بنیاد رکھتا ہے۔ پیرس میں چند روز پہلے ہونے والے مظاہرے ان دلیلوں کا ثبوت ہیں، جہاں پر marriage for All کے ایک بل پاس ہونے کی تحریک کے ہم جنس پرستوں کے جانب سے 63% افراد نے اس کی حمایت کی جب کہ43% افراد نے اس کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کیا، جس کے بعد یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بل منظور ہو جائے گا لیکن اگر آپ اس کی مذہبی دلیل لانا چاہیں تو وہ بھی مل جائے گی کہ ہم نے تو اس کے خلاف کوشش کی اور اتنا بڑا احتجاج بھی کیا لیکن جمہوری روایت کے مطابق زیادہ لوگوں نے اس کی حمایت کر دی ہے، تو اب اس کو قبول کر لینا چاہیے۔

کیا کسی مذہبی معاشرے میں یہ ممکن ہو سکتا ہے؟ پڑوس کے ملک میں جہاں مذہبی روایات ہماری طرح مضبوط نہیں ہیں وہاں سے جاری چند ویڈیوز بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ بھی اس معاملے میں کسی Tolerance کا مظاہرہ نہیں کر رہے بلکہ ’طاقت‘ ہی کے زور سے اپنا معاشرہ بچا رہے ہیں۔ ایک دن گھر آتے ہوئے چند افراد نظر آئے ایک چورنگی پر ڈنڈوں میں بینرز لگائے کھڑے تھے جن پر ویلنٹائن کے خلاف نعرے درج تھے۔ مجھے نعرے تو نہیں ہاں وہ ڈنڈے اچھے لگے، اور مجھے وہی حدیث یاد آ گئی کہ ’’برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے روکو…‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔