- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
کھیلو، کودو ... بڑھاپے میں دماغی بیماریوں سے محفوظ رہو
ٹورانٹو: ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو دوڑ اور ورزش کا عادی بنایا جائے تو کئی عشروں بعد بھی دماغی اور ذہنی صلاحیت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس کا انکشاف چوہوں پر کئے گئے تجربات کے بعد کیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ کم عمری میں کی جانے والی ورزش بڑھاپے میں یادداشت کی کمی کو ٹال سکتی ہے اور کئی دماغی امراض کو روکنے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے اگر ورزش کو معمول بنالیں تو اس سے ان کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت یعنی ذہانت بھی بہتر ہوتی ہے جو بڑھاپے تک برقرار رہ سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے سائنسداں ڈاکٹر مارٹن ووجووز کہتے ہیں کہ ورزش نہ صرف بچوں کی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ پوری زندگی اس کے مفید آثار نمایاں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ عمررسیدگی میں بھی یہ سیکھنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ انسانوں میں یہ الزائیمر جیسے مرض کے آثار کو دور رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔
تجربہ گاہ میں ماہرین نے 80 چوہوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ پہلے چوہوں کے ایک گروہ کو چھ ہفتوں تک چلتے پہیے پر دوڑایا یعنی ورزش کرائی۔ چار ماہ بعد جب چوہے درمیانی عمر کو پہنچ گئے تو تمام چوہوں کو ایک خاص ڈبے میں لے جایا گیا اور انہیں ہلکا کرنٹ دیا گیا۔ اس کے بعد جب جب انہیں ڈبے میں داخل کیا گیا وہ کرنٹ کو یاد کرکے خوف کے مارے ساکت ہوگئے۔
دو ہفتوں بعد ماہرین نے ان چوہوں کو تین مختلف جگہوں پر رکھا، یعنی بعض چوہوں کو اسی کمرے کے اسی باکس میں رکھا جب کہ دوسروں کو بھی اسی باکس اور کمرے میں رکھا لیکن ترتیب اور روشنی بدل دی گئی جب کہ چوہوں کے تیسرے گروہ کو بالکل الگ کمرے اور الگ باکس میں رکھا گیا۔
جن چوہوں نے بچپن میں پہیوں پر دوڑنے کی ورزش نہیں کی تھی وہ اسی لحاظ سے باکس میں جاکر ساکت ہوگئے یعنی انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ کون سا ڈبہ کرنٹ والا اور نقصان دہ ہے جب کہ ورزش کرنے والے 40 سے 50 فیصد چوہوں نے کرنٹ والا ڈبہ یاد رکھا اور ساکت نہیں ہوئے یعنی انہوں نے خطرے والے باکس کی جگہ کو یاد رکھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کم ازکم چوہوں کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی عمر میں ورزش ان کی سیکھنے اور سمجھنے صلاحیت اور یادداشت کو بڑھاپے میں برقرار رکھتی ہے۔ دیگر ماہرین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ باقاعدہ ورزش سے نئے دماغی خلیات بنتے ہیں جو ذہنی صحت برقرار رکھتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔