پارٹی بدلنے کا مقابلہ اور ایوارڈز

سعد اللہ جان برق  بدھ 16 اگست 2017
barq@email.com

[email protected]

ناظرین و سامعین ہم کا معافی دائے دو کہ ہم چینل ہیاں سے ہواں تک کے لوگ گزشتہ کچھ عرصے سے پاناما کے پاجامے کے ایک ادھیڑیں میں کچھ زیادہ بزی ہوگئے تھے، در اصل ہم یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ہمارے خیال کے نام کے برخلاف یہ ہوآں سے یہاں تک کیسے ہو گیا، اس لیے ہم مملکت اللہ داد ناپرسان کے معاملات سے کچھ دور رہے ہیں لیکن ابھی ابھی گزشتہ دنوں مملکت ناپرسان کے قومی مقابلے منعقد ہوئے تھے.

یہ مقابلے ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتے ہیں اور ملک چنے ہوئے ’’پارٹی بدلو‘‘ لیڈروں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں جو وکٹوریہ کراس کی طرز پر ہوتے ہیں، اول آنے والے کو پارٹی کراس، دوم آنے والے کو فلور کراس اور تیسرے نمبر والے کو بریڈنگ کراس کے ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔اس مرتبہ اول آنے والے لیڈر کا نامی اسم گرامی ویسے تو نوسرباز ہے لیکن ملک بھر میں پارٹی باز کے نام سے بھی جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں ان کا سیاسی نعرہ ہے ’’ہر لحظہ ہے ہماری نئی آن نئی شان‘‘

ان کو ہم نے مملکت ناپرسان کی راجدھانی انعام آباد اکرام آباد سے بذریعہ چارٹرڈ ٹرٹڑ یعنی کچھوا بلایا ہوا ہے ان کے ساتھ ہمارے اپنے دو پالتو بٹیرے ہیں جن کو آپ جانتے تو ہیں لیکن پہچانتے نہیں، ہمارا مطلب ہے ماہر تعویزات و عملیات و چورنات علامہ بریانی عرف برڈ فلو اور دوسرے ہیں خدا مارے چشم گل چشم عرف قہر خداوندی ماہر و تجزیہ نگار گھریلو معاملات اور سیاسی خرافات، تو لیجیے شروع کرتے ہیں

اینکر ہاں تو جناب : ۔ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں

نوسر :۔ کیوں تم نے بھی کوئی پارٹی بنا لی ہے کیا

اینکر :۔ پارٹی نہیں بلکہ پروگرام ’’چونچ بہ چونچ‘‘ میں آپ کو خوش آمدید

نوسر:۔  میں سمجھا یہ کوئی نئی پارٹی ہے

اینکر:۔ چینل ہیں

نوسر:۔ اچھا تو پھر ذرا جلدی کیجیے مجھے تین مقامات پر شمولیتی جلسوں میں بھی شرکت کرنا ہے

چشم:۔ آپ کتنے عرصے سے یہ شمولیت کھیل رہے ہیں

نوسر:۔ تقریباً ڈھائی سو سال سے

علامہ :۔ مگر آپ کی عمر

نوسر:۔ اس میں میری چار پیڑھیوںکاتجربہ بھی شامل ہے

اینکر:۔ مگر ناپرسان کو بنے ہوئے تو

نوسر:۔ میں سمجھ گیا میں بہت جلد سمجھ جاتا ہوں اس لیے تو ہر پارٹی کو بھی بہت جلد سمجھ لیتا ہوں، ناپرسان بننے سے پہلے انگریزوں سکھوں اور مغلوں کی بھی تو ایک طرح سے پارٹیاں ہی تھیں

چشم:۔ بالکل درست صرف ریپ اور گینگ ریپ کا فرق ہے

اینکر :۔ آپ ذرا مجھے بولنے دیں گے پلیز

علامہ:۔ ہم نے تمہارے منہ پر ہاتھ تو نہیں رکھا بجو

اینکر :۔ جناب نوسرباز آپ نے ابھی تک خود بہ نفس نفیس کتنی پارٹیاں بدلی ہوں گی۔

نوسر:۔ یہ حساب کتاب تو میرے منشی کے پاس ہوگا میں صرف اتنا بتا سکتا ہوںکہ آج تک مملکت ناپرسان میں ایسی کوئی پارٹی بنی نہیں جس میں مجھے شمولیت کا فخر حاصل نہ ہو

علامہ:۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ابھی آپ یہاں اور وہاں ناپرسانی تاریخ کے مطابق کم ازکم تین پارٹیاں تو اس عرصے میں بنی ہوںگی

نوسر:۔ اس کے لیے میں نے اپنے منشی کو ہدایت کر رکھی ہے کہ پارٹی بنتے ہی میری شمولیت کا اعلان فوری طور پر کر دیا کرے

اینکر:۔ ویسے آپ کس قسم کی پارٹیوں کو پسند کرتے ہیں

نوسر:۔ پارٹیوں میں کوئی قسم بھی ہوتی ہے کیا؟

چشم :۔ مطلب یہ کہ دائیں بازو بائیں بازو

علامہ:۔ آگے پیچھے بھی تو ہیں ؟

نوسر:۔ میں یہ سب کچھ نہیں مانتا لیکن ملک گیر سطح کی پارٹیوں سے لے کر صوبہ گیر شہر گیر بلکہ محلہ گیر پارٹیوں تک میں شامل ہوتا رہا ہوں

چشم :۔ کمال ہے

نوسر :۔ کیا یہ کوئی پارٹی ہے

علامہ :۔ نئی پارٹی میں بنانے والا ہوں

نوسر:۔ مبارک ہو ابھی سے مجھے بنیادی ارکان میں  شامل کر لیجیے

اینکر :۔ میں پارٹی کا پوچھ رہا ہوں

نوسر:۔ یہی تو سب سے بڑی پارٹی ہے

چشم :۔ یہ بری بات نہیں ہے کہ آپ ؟بری کیسے ہے یہ تو سورج کی صفت ہے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

علامہ:۔ آپ کی کوئی پارٹی تو زیادہ فیورٹ ہوگی

نوسر:۔ وہ تو ہماری خاندانی پارٹی ہے

چشم :۔ کونسی پارٹی

نوسر:۔ سرکاری پارٹی

اینکر:۔ یہ کیا بات ہوئی

نوسر:۔ یہی تو اصل بات ہر پارٹی کی منزل و مرام سرکاری بننے کی ہوتی ہے نا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔