آمریت اور جمہوریت کا موازنہ

زاہدہ حنا  بدھ 16 اگست 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہندوستان نے نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کی طلب گاری اس لیے نہیں کی تھی کہ لاکھوں لوگ قتل کردیے جائیں، لاکھوں اپنے گھروں سے نوچ کر اجنبی زمینوں میں پھینک دیے جائیں۔ لاکھوں عورتیں بے حرمت ہوں، اپنے بچوں سے بچھڑیں، انھیں اپنی نگاہوں کے سامنے قتل ہوتے ہوئے دیکھیں اور غیروں کے گھروں میں رہتے ہوئے ان کی یاد میں سسکی بھی نہ لیں ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی ملکوں میں دھوم دھڑکے سے جشن آزادی منایا جارہا ہے۔

ہماری نوجوان نسل شاداں و فرحاں ہے، گیت گائے جارہے ہیں اور آتش بازی چھوڑی جارہی ہے۔ ہندوستان میں فلموں، کتابوں اور تھیٹر کے ذریعے نئی پیڑھی تک گزرے ہوئے صرف 70 برس کی ہی نہیں، اس سے کہیں پہلے کی تاریخ بھی ہر آنے والی نسل تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے سب تو نہیں لیکن بھر بھی ہزاروں ایسے ہیں جو اپنی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ماضی قریب کی تاریخ اور سیاست کے حقائق سے نئی نسل کو بہت دور رکھا جاتا ہے۔

آج ہمارے یہاں یہ بات کتنوں کو معلوم ہے کہ فیض صاحب نے جو نظم اگست یا ستمبر 1947 میں لکھی تھی اور دسمبر 1947 کے ادبی جریدے ’’سویرا‘‘ میں شایع ہوئی تھی، اس کی پاداش میں ’’سویرا‘‘ کی اشاعت پر 6 مہینوں کی پابندی لگی۔ ’’سویرا‘‘ کے علاوہ ’نقوش‘ اور ’ادب لطیف‘ بھی پابندی کی زد میں آئے۔

یہ اگست کا مہینہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم کو 70 برس مکمل ہوئے۔ اس موقعے پر فیض صاحب کی وہ نظم جو ’’صبح آزادی‘‘ کے نام سے دسمبر 1947 میں شایع ہوئی تھی، حرف بہ حرف نقل کررہی ہوں۔

’’یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر/ وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں/ یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر/ چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں/ فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل/ کہیں تو ہوگا شبِ سُست موج کا ساحل / کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غم دل/ جواں لہو کی پُر اَسرار شاہراہوں سے/ چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے/ دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے/ پکارتی رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے/ بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن/ بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن/ سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن/ سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور/ سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام/ بدل چکا ہے بہت اہلِ دردکا دستور/ نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام/ جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن/ کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں/ کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی/ ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں/ ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی/ نَجاتِ دیدۂ و دل کی گھڑی نہیں آئی/ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘

70 برس پرانی اس نظم کو پڑھ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے۔ انھی دنوں (ر) جنرل پرویز مشرف کے انٹرویو اور بیانات بھی آرہے ہیں۔ انھوں نے اگست 2017 کی ابتدائی تاریخوں میں بی بی سی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں جب بھی مارشل لا نافذ کیا گیا تو ایسا وقت کی ضرورت کے تحت کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جمہوریت، آمریت، کمیونزم یا سوشلزم کے دور میں زندہ ہیں۔ انھیں صرف اس سے غرض ہوتی ہے کہ ملک اور وہ ترقی کررہے ہوں، ملک میں خوش حالی ہو اور انھیں روزگار کے مواقعے میسر ہوں۔

ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ انتخابات اور لوگوں کو آزادی دینے کے نتیجے میں اگر ترقی نہیں ہورہی ہے تو انتخابات منعقد کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عوام مسلسل (جی ہاں بقول ان کے مسلسل) فوج سے رابطہ کرتے ہیں اور یہ درخواست کرتے ہیں کہ انھیں نااہل اور بدعنوان لوگوں (سول حکومتوں) سے نجات دلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی عوام کے پُر زور اصرار پر اقتدار کو ہاتھ میں لیا۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ سری لنکا سے پاکستان واپسی کے سفر کے دوران پاکستانی عوام نے اقتدار پر قبضے کے پُر زور اصرار کو کتنے ہوائی جہازوں میں بھر کر ان تک بھیجا تھا۔ انھوں نے اس کی صراحت بھی نہ کی کہ دوران پرواز ان ’’درخواستوں‘‘ کو ان کے جہاز میں کس طرح منتقل کیا گیا۔ ہم نے ہوائی جہازوںمیں ’’پٹرول‘‘کی منتقلی تو دیکھی ہے لیکن ’’فریادیوں‘‘ کی عرض داشتوں کی منتقلی کا قصہ پہلی مرتبہ سنا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کا یہی ’’پُر زور اصرار‘‘ ہوتا ہے جس کی بناء پر عساکر کو حکومت سنبھالنی پڑتی ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کی نظر میں ان کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔

اپنے اس انٹرویو میں انھوں نے ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیشہ ڈکٹیٹر رہے ہیں جنہوں نے پٹری سے اُترے ہوئے ملک کو دوبارہ پٹری پر چڑھایا۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کے بارے میں عوام سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ آمریت نے ہر مرتبہ ملک کا کیا حشر کیا ہے اور آگے بڑھنے کے بجائے وہ ہمیشہ پیچھے گیا ہے۔ عوام کو زندگی کی سختیاں صبح سے شام تک جھیلنی پڑتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی کمیابی اور نایابی کیا چیز ہوتی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آمریت میں کس طرح ان کا روزگار اور ان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔

سابق جنرل صاحب کو شاید یاد نہیں رہا کہ بانی ٔ پاکستان نے اپنی ابتدائی تقریروں میں نوجوان فوجی افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے سابق ڈکٹیٹر کی یاد داشت کے کیا کہنے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آزادی کے فوراً بعد سے فوج کا ایک کردار تھا۔ سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے یقینا ایک کردار تھا لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ملک کے نظم و نسق میں اس نے ابتداء سے اپنا کردار ادا کیا اور اس کی بنیادی وجہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی سول حکومتوں کی نا اہلی اور نظم و نسق کی خرابی تھی تو دل جل کر کباب ہو جاتا ہے۔

ان کے یہ بیانات تازہ ترین ہیں لیکن ہم زی نیوز کو دیا جانے والا ان کا وہ انٹرویو کیسے بھول جائیں جو انھوں نے 2015 کی ابتدائی تاریخوں میں دیا تھا اور کہا تھا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر الیکشن کے نتیجے میں کوئی حکومت وجود میں آئے تو یہ دراصل جمہوری حکومت ہے۔ انھوں نے دسمبر 2014 میں کراچی کی ایک تقریب میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ انھوں نے اور ان سے پہلے اقتدار پر قبضہ کرنے والے دوسروں نے قومی مفاد کی بناء پر یہ فیصلہ کیا تھا۔

عوام کے محبوب، ڈکٹیٹر صاحب جو ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے لیے کب حالات ’’سازگار‘‘ ہوں اور کب وہ پاکستان کا رخ کریں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے لیے جمہوری طرز حکومت مناسب نہیں۔ یہاں صدارتی طریق حکمرانی زیادہ سود مند ہے۔ یہ پرویز مشرف صاحب ہی نہیں ماضی کے ہمارے تمام آمر پاکستان کے لیے صدارتی نظام حکومت کو نسخہ ٔ شفا خیال کرتے ہیں۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ آئین کے اعتبار سے فوج، وزیر دفاع کے تحت ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سول حکومتیں عسکری معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کا اختیار نہیں رکھتیں اور نہ وہ ڈیفنس بجٹ کے بارے میں لب کشائی کرسکتی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف آج بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انھوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کس طرح امریکا کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ وہ افغانستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کی امریکی جنگ کو کھینچ کر پاکستان میں لائے اور جہادی گروہوں کے لیے پاکستان کی سرحدیں کھول دیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک ہم دہشت گردی کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو دہشت گردوں کی گرفت میں نہ ہو۔ ان لوگوں سے نجات کے لیے ہی موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف نے آپریشن رد الفساد شروع کیا۔

اس میں پاکستانی فوج کا جتنا بھاری نقصان ہوا، اس کی تفصیلات سے (ر) جنرل پرویز مشرف بہ خوبی آگاہ ہیں۔ اگر وہ صرف اپنے اس کارنامے پر ہی نظر کریں تو انھیں اندازہ ہوگا کہ ان کا دور حکومت صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں، فوج کے لیے بھی کس قدر تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کی 70 ویں سالگرہ مناتے ہوئے ہم یہ نہیں جانتے کہ ابھی اور کتنے برس ایسے گزریں گے جب ہمیں آمریت اور جمہوریت کا موازنہ سننا اور سہنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔