میں ہوں زندہ پاکستان

عبدالقادر حسن  بدھ 16 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اپنے ہم عمروں کے مطابق یوں تومیں آج ستر برس کا ہوں لیکن بوڑھا نہیں ہوں شاید اس لیے کہ میرے وجود میں میری رگ و روپ میں قدرت نے کوئی ایسا جوہر بھر دیا ہے جس میں ہر دم ایک نئی زندگی کا پھول اُگتا ہے سوائے بڑھاپے کے اس پھول میں قدرت نے ایک دائمی اُمید بھر دی ہے ۔ یہ اُمید مجھے ’’زندہ‘‘ رکھتی ہے اور انشاء اﷲ رکھتی رہے گی ۔ میر ے ساتھ تو زندگی دینے والے کا یہی وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کی بے وفائی نہیں کرتا وفا کرتا ہے۔

آزادی کا مہینہ پچھلے ستر برس کی طرح اس بار بھی ہماری زندگی میں آیا ہے اور ہمارے حالات وہی ہیں جو آج سے ستر برس قبل تھے، ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب اپنا سفر مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس آزادی کی قدر نہیں کی جو ہمارے بڑوں نے اصل میں ہندوؤں سے لڑ کر حاصل کی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جان چھڑائی تھی تو یہ زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ انگریزوں کے ساتھ تو نباہ ممکن ہے لیکن ہندوؤں کے ساتھ رہنا مسلمانوں کے لیے ممکن ہی نہیں کیونکہ ان کے اور ہمارے رہن سہن میں فرق ہی نہیں بلکہ ہم ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

ہندوؤں کے کھانے، ان کا رہن سہن ،ان کا دھرم، ان کے اپنے ہی ہندوؤں کے ہاتھوں بھڑشت ہو جاتا ہے جب کہ ہم مسلمان مساوات کے داعی ہیں ہماری نئی ریاست کا تصور ہی برابری کی سطح کا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہوں گے ہر ایک کو مذہبی آزادی ہو گی ۔ اس مساوات کو ایک نئے ملک میں ہی لاگو کیا جا سکتا تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میرا ایک’’ چھوٹا سا مطالبہ ہے‘‘ کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اس لیے ہم ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیںجس میں ہر ایک اپنی مرضی سے رہ سکے گا اور اپنے مطلب کی زندگی گزار سکے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب کسی بھی فرقے سے ہو اس کو اسلامی ملک میں ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہو گی وہاں کوئی اچھوت نہیں ہو گا بلکہ سب انسان برابر ہوں گے ۔

یہی وہ بنیادی بات تھی جو برصغیر کے مسلمانوں کے دل و دماغ میں بیٹھ گئی انھوں نے اس بنیادی نقطے کو سمجھ لیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے بلکہ اپنا سب کچھ اس کے لیے داؤ پر لگا دیا۔ یہ بات لکھنے کی نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے علیحدہ ملک کے حصول کے لیے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں۔ انھوں نے نئی مملکت کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ تہہ وبالا کر دیا اور ان قربانیوں کا پھل ان کونئے مسلمان ملک کی صورت میں مل گیا وہی ملک جہاں ہم سب اب آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن ہم نے اپنے بڑوں کی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اس آزادی کی قدر نہیں کی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کو وہ اہمیت نہیں دی جو کہ اس کے شایان شان تھی بلکہ ہم اپنے آپ میں ابھی تک اس بات کا احساس ہی پیدا نہیں کر سکے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں اور اس آزادی کی قدرو قیمت کیا ہے اور ایک آزاد ملک میں رہنے کی کیا عیاشی ہے۔

اس عیاشی کی اصل قدرو قیمت وہ ہی جانتے تھے جو اس ملک کو بنانے کے بعد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے جانے کے فوری بعد ہی قربانیاں دے کر حاصل کی گئی آزادی مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جنہوں نے اس نوزائیدہ ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ وہ اس کے بجائے اپنے آپ کی بنیادیں مضبوط کرنے میں لگ گئے اور اس کے لیے انھوں نے اپنی نئی نویلی آزادی پر بھی سمجھوتہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ستر سالوں کے بعد بھی اپنے آزاد ملک کو ایک غلام اور اجنبی ملک سمجھ کر ہی اس میں رہتے رہے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کے مفادات کچھ اورہیں ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ جس آزادی سے ہمارے بزرگ ہمیں روشناس کرا گئے تھے۔

اس کو اس ملک کی اشرافیہ نے کہیں دفن کر دیا اور ایک آزاد ملک کے باسیوں کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا کہ یہی اس اشرافیہ کے مفاد میں تھا اور یہ طوق اس کامیابی سے ڈالا کہ ہم ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں اور اسی کے گرد گھوم رہے ہیں اور یہ چکر ہمیں غلامی سے نکلنے ہی نہیں دے رہا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم اب اس کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس غلامی سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں اور اس آزادی کے بارے میں ہماری اشرافیہ کے پاس نام نہاد مختلف تاویلیں موجود ہیں جو کہ بوقت ضرورت عوام کو پیش کر دی جاتی ہیں تا کہ وہ مطمئن رہیں اور انھی کے گن گاتے رہیں۔

ہمارے پڑوسی ملک میں بھی یوم آزادی ہے اور انھیں اپنے یوم آزادی پر بجا طور فخر بھی ہے جس میںکسی مارشل لاء کا خلل نہیں ہے جب کہ ہم اس وقت بھی کسی مارشل لاء کے متوقع خطرے کی زد میں ہیں۔ ہم اگرچہ ایک ساتھ ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے اور ایک ساتھ ہی نیا سفر شروع کیا۔

پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں نسبتاً ایک کم آبادی والا چھوٹا ملک تھا جو کہ بعد میں ہماری اشرافیہ کے اپنے مفادات کی وجہ سے ہی مزید چھوٹا ہو گیا بلکہ آدھا رہ گیا کہ ہمیں اپنا اقتدار زیادہ عزیز تھا اور ہم اس میں شراکت کے روادار نہ تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم آبادی اور زیادہ وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان آج تک اپنے ہمسایہ ملک کا معاشی طور پر ہم پلہ نہیں ہو سکا گو کہ ہم نے دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار ایٹم بم بھی بنا لیا ہے اور دنیا کی ان چند طاقتوں میں شامل ہو گئے جن کے پاس یہ اہم اور خطرناک ہتھیار موجود ہے لیکن ہم نے اپنی معاشی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی بری ترین معیشتوں میں شامل کر لیا اور دیوالیہ ہونے کے قریب بھی پہنچ گئے۔

یہ سب کچھ کسی نے باہر سے آکر نہیں کیا بلکہ ہمارے ملک کے اپنے ہی لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا اور کیے جارہے ہیں جب کہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کو برداشت کر رہے ہیں ۔ یہ کوئی دوچار برس کے قصے والی بات نہیں بلکہ ستر سالوں کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی داستان  ہے اور اس داستان میں دکھ ہی دکھ ہیں لیکن یہ وہ ملک ہے جو غیر مرئی طاقتوں کے سہارے وجود میں آیا اور انھی کے سہارے چل رہا ہے۔

ہمارے مذہب میں مایوسی گناہ ہے اورہم اس خوبصورت ملک کے باسی کبھی بھی اپنے ملک سے مایوس نہیں ہوتے ہیں، یہ اشرافیہ ہے جو مسلسل اس کوشش میں رہتی ہے کہ عوام کو اتنی پستی میں گرا دیا جائے کہ وہ اس ملک کی سلامتی سے مایوس ہو جائیں اور اشرافیہ کا اقتدار پکا ہو جائے مگر ہمارا ایمان ہے کہ یہ ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اس کا وجود ہمیشہ برقرار رہے گا اور مایوسیاں پھیلانے والے نیست و نابود ہو جائیں گے اور پاکستان ایک دائمی زندگی پائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔