مجھے اب سلیم ملک سے نفرت نہیں

سلیم خالق  بدھ 16 اگست 2017
صاف کردار والے لوگوں کو بورڈ کے اردگرد بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ فوٹو فائل

صاف کردار والے لوگوں کو بورڈ کے اردگرد بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ فوٹو فائل

آج میں آپ لوگوں کے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں، جب 2000ء میں سلیم ملک میچ فکسنگ کے الزام میں پابندی کا شکار ہوئے تو مجھے ان سے نفرت سی ہو گئی، یہ سوچ کر میرا خون کھول اٹھتا کہ اس انسان نے پیسوں کیلیے ملک کو بیچا، جان بوجھ کر میچز ہارا، یہ سب کچھ سامنے آنے سے ملک کی بدنامی کا بھی باعث بنا، ایسے شخص کو تو زندگی بھر کرکٹ سے دور ہی رکھنا چاہیے، مگر اب میری سوچ تبدیل ہو گئی، اب میں ان سے نفرت نہیں کرتا کیونکہ ایک ہی جرم میں آپ نے دیگر کو چھوڑ دیا جبکہ ایک کھلاڑی کو نشان عبرت بنا دیا۔

یہ کہاں کا انصاف ہے، دیگر نے بھی جوئے سے کروڑوں کمائے مگر اب بھی ہیرو بنے گھومتے ہیں، اسکول اور کالج جانے والے موجودہ کرکٹ شائقین کو شاید جسٹس قیوم کی میچ فکسنگ رپورٹ کا زیادہ علم نہیں ہوگا، ان سے میری درخواست ہے کہ ایک بار اسے ضرور پڑھیں،اس کا لنک یہ ہے http://www.pcb. com.pk/downloads/ Qayyum_report.pdf، اس رپورٹ میں یہ لکھا گیا کہ وسیم اکرم کو کپتانی سے ہٹایا جائے۔

ان پر نظر رکھی اور اثاثوں کی چھان بین کی جائے، عطا الرحمان اور عامر سہیل نے کیا الزامات لگائے اور کیا کچھ ہوا یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، مگر اس سزا سے صاف ظاہر ہواکہ دال میں کچھ کالا ضرور تھا، مگر ہم پاکستانی بڑے دل والے ہیںاور سب کچھ بھلا کر پھر سے گلے لگا لیتے ہیں البتہ اس کیلیے بڑا پلیئر ہونا ضروری ہوتا ہے، آج وسیم اکرم ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بہت بڑے اسٹار ہیں، ہر جگہ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

نجم سیٹھی نے تو انھیں پی ایس ایل کا سفیر بھی بنایا ہوا ہے، اسلام آباد یونائٹیڈ کے وہ مینٹور رہے البتہ اب یہ عہدہ چھوڑ دیا ہے، ویسے بھی وہ ٹیم اسپاٹ فکسنگ کی وجہ سے خاصی بدنام ہو گئی تھی، مشتاق احمد پر تین لاکھ روپے جرمانہ ہوا، وہ قومی ٹیم کے بولنگ کوچ رہنے کے بعد اب نیشنل کرکٹ اکیڈمی کیلیے خدمات انجام دے رہے ہیں، وقار یونس ایک لاکھ روپے جرمانے کی زد میں آئے، وہ بھی طویل عرصے قومی ٹیم کے کوچ رہے اور اس کا تیا پانچا کر کے اب اپنے دوسرے ملک آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی جرمانے کی وجہ سے آسٹریلیا نے وقار یونس کو کوچ نہیں بنایا مگر پاکستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، انضمام بھی ایک لاکھ روپے جرمانے کی زد میں آئے ، وہ اب چیف سلیکٹر ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ یہ جرمانے ایک ریٹائرڈ جج نے ایسے ہی تو نہیں کیے، کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی، اگرفیصلہ غلط تھا تو کسی نے چیلنج کیوں نہیں کیا، بس یہیں سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر آپ طاقتورہیں تو بچ جائیں گے، ماضی میں جو لوگ شکوک کی زد میں آئے آج انہی کا پاکستان کرکٹ پر راج ہے۔

صاف کردار والے لوگوں کو بورڈ کے اردگرد بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا، بعد میں اسپاٹ فکسنگ کیس میں بھی ایسا ہی ہوا، عامر، سلمان اور آصف جیل تک گئے مگر عامر کو شروع سے ہی بچہ ثابت کر کے بچانے کی کوشش ہوتی رہی، پھر انھیں ٹیم میں واپس بھی لے آیا گیا، آصف پابندی ختم ہونے کے بعد خود ہی اپنی کرکٹ سے زیادہ سنجیدہ نہیں رہے جبکہ انضمام الحق نے ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کیلیے سلمان بٹ کو لاہور کا کپتان بنانے کی منظوری بھی دے دی،اس سے صاف ظاہر ہے کہ جلد وہ قومی ٹیم میں بھی واپس آنے والے ہیں۔

یوں وہ شخص جو فکسنگ میں پکڑا گیا، جس نے عامر کو بھی مجبور کر کے پھنسایا جو کئی برس تک اپنی بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا اور پھر جب کوئی راہ نہ بچی تو سچ تسلیم کر لیا، اب وہ دوبارہ اجلی گرین شرٹ زین تن کرے گا، شاید یہ دیکھ کر کچھ لوگوں کا خون کھول اٹھے مگر اب اپنے آپ کو اس کیلیے تیار کر لیں، کل پھر سلمان کسی کو نہیں ورغلائے گا اس کی گارنٹی مجھ سے نہیں انضمام صاحب سے مانگیے گا، پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کی بھی مثال سامنے ہے۔

آئی سی سی کے کہنے پر مجبوراً قدم اٹھایا مگر من پسند کھلاڑیوں کو بچا لیا گیا اور دیگر کو پھنسا دیا، اگر حقیقی زیرو ٹالیرنس پالیسی ہوتی تو شرجیل خان اور خالد لطیف کے ساتھ مزید کئی کھلاڑی بھی دبئی سے واپس آتے مگر ایسا نہ ہوا، مجھ جیسے میڈیا والے شور مچاتے رہے مگر محمد عرفان وغیرہ کو معطل نہ کیا بلکہ پوری پی ایس ایل کھلا دی، بعد میں قسطوں میں معطل کرتے رہے، جسے بچانا تھا اسے کم سزا دے دی، دیگر کو سزا دینا چاہتے ہیں مگر معاملے کو کسی بھارتی سیریل کی طرح طول دیا جا رہا ہے۔

جس طرح نجم سیٹھی بگ تھری معاہدہ سائن کر کے ڈالرز کی بوریاں لانے کا کہہ رہے تھے، اسی طرح اس کیس میں بھی ثبوتوں کا پلندہ پاس ہونے کا وعدہ کیا گیا مگر پھر بھی کئی ماہ گذرنے کے باوجود کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا، سلیم ملک سے لے کر خالد لطیف وغیرہ کے کیس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ عدم برداشت کی کوئی پالیسی نہیں بلکہ اس معاملے میں بھی اثرو رسوخ، پسند ناپسند وغیرہ کو مدنظر رکھ کر فیصلے ہوتے ہیں، کل سلمان بٹ بھی واپس آ جائیں گے تو آپ کسی نئے کھلاڑی کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ فکسنگ بُری بات ہے، کل کے فکسرز آج ہیرو بنے پھرتے ہیں، سب ان کے آگے پیچھے گھومتے ہیں، ایسے میں کیسے فکسنگ کو روکا جا سکتا ہے۔

آپ تو جواریوں کا کام آسان کر رہے ہیں جو اب ان مثالوں سے نئے شکار آسانی سے پھانس سکتے ہیں کہ دیکھ لو فلاں فلاں نے اتنے پیسے جوئے سے کمائے کچھ جرمانہ بھرا یا پابندی کاٹی اب پھر ہیرو ہے، تم بھی ایسا ہی کرو، اگر حقیقت میں کرکٹ سے کرپشن کم کرنی ہے تو اس کیلیے تاحیات پابندی کے سوا کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے، ساتھ ہی ملک سے غداری کے الزام میں کرمنل کیس چلائیں اور جائیدادیں بھی قبضے میں کریں، چاہے کوئی بھی کھلاڑی ہو اسے یہی سزا دیں ،ماضی کے جواریوں کو ہیرو بنانے اور عہدے سونپنے سے گریز کریں، تب ہی نئے کھلاڑیوں کو ایمانداری سے کھیلنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے، بصورت دیگر پی ایس ایل جیسے مزید کئی کیسز کیلیے تیاررہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔