- گودام پر چھاپہ، 1 کروڑ روپے کا بالوں میں لگانے والا زائد المیعاد رنگ برآمد
- پی ڈی ایم کی چھتری تلے
- رحمن ڈکیت کا بیٹا باپ کے نقش قدم پر چل پڑا
- پہلا ٹیسٹ؛ عابد علی کو نئے پارٹنر کا ساتھ میسر ہوگا
- ٹی 20 اسپیشلسٹ کی ٹیسٹ اسکواڈ میں شمولیت
- پاکستان کے ذمے واجب الادا 1ارب ڈالر کا اماراتی قرضہ موخر ہونیکا امکان
- الیکشن کمیشن کے باہراحتجاج، بلاول کا شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
- انجینئر بننے کی خواہش دل میں لیے طالبعلم غیرت کی بھینٹ چڑھ گیا
- عمر ایوب نے کہا تھا کہ 2020 تک گردشی قرضہ ختم ہو جائے گا، شہباز رانا
- گلوبل فنڈ کا انڈس اسپتال پر42 لاکھ ڈالرکی دھوکہ دہی کا الزام
- جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کی 14 سال بعد پاکستان آمد
- میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات گزشتہ پیٹرنز پر ہی لینے کا فیصلہ
- چنگان نے نئی اسمارٹ سیڈان السوین کی قیمت کا اعلان کر دیا
- موسم گرما میں گیس فراہمی، صنعتی شعبے نے حکومت کو پیشگی تحفظات سے آگاہ کر دیا
- افواہوں پر کان نہ دھریں، کورونا ویکسین سے نقصان نہیں ہوگا، ایکسپریس فورم
- علامہ اقبال کو اتنی ہی عزت دیتے ہیں جتنا ہم ایمیسکو کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں، رومانین ہائی کمشنر
- پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ نے 500 اسکیموں پر کام مکمل کرلیا
- 2020؛ ٹیلی کام سیکٹر نے 278 ارب خزانے میں جمع کرائے، پی ٹی اے
- مزید 2432 افراد میں کورونا کی تشخیص، 45 افراد جاں بحق
- یوٹیوب نے ویڈیوز اور ای کامرس کے دواہم فیچرز پیش کردیئے
دم مست قلندر مست مست

نصرف فتح علی خان کا کمال یہ تھا کہ وہ موسیقی ترتیب دینے سے لے کر گائیکی تک تمام رموز سے آگاہ تھے۔ اسی لیے دنیا نے اُن کے فن کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فوٹو: فائل
دم مست قلندر مست مست کی گونجتی ہوئی یہ آواز اور قوالی کی مخصوص تھاپ جب میں سنتی ہوں تو ایک کیف محسوس ہوتا ہے، ذہن کے پردے پر کچھ پرانی یادیں لہرانے لگتی ہیں اور اُن میں ایک آواز میرے کانوں سے میرے دل تک پہنچ رہی ہے، جیسے میرے والد قریب میں بیٹھے ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر اپنی بات دوہرا رہے ہوں، ’’تم جب چھوٹی تھی تو آڈیو سینٹر کے آگے یہ قوالی سُن کر رک جایا کرتی تھی، اِس لیے تمہاری خاطر یہ کیسٹ خریدنا پڑی۔‘‘ اب وہ دن نہیں، یہ یادیں دہرانے والے نہیں، قوالی گانے والا نصرت فتح علی نہیں لیکن دم مست قلندر مست مست اُسی طرح تر و تازہ ہے۔
نرم آواز، لہجہ میں برہم سا اُتار چڑھاؤ، سروں سے واقفیت، پکے راگ اور کلام کا چناؤ، یقیناً اِن سب کے ملاپ کے بعد جو بھی سامنے آئے گا، وہ عام سا تو نہیں ہوگا۔ وہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ برسہا برس گزرنے کے بعد بھی سننے والے کو جکڑ لے۔ دم مست قلندر سے ہلکا ہلکا سرور تک جو گایا وہ سننے والوں کو بھایا ہی بھایا۔ سُروں پر عبور ایسے ہے کہ لگتا ہے غزل اسی لیے لکھی گئی کہ اُسے سروں میں نصرت فتح علی خان ڈھال لے۔ منقبت، عارفانہ کلام، غزل، گیت، حمد جس صنف میں آواز کا جادو جگایا وہ پسند کرنے والوں کو سرشار کرگیا۔ اگر اب بھی آپ کے سامنے نصرت فتح علی خان کی پڑھی گئی حمد ’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے‘‘ سنی جائے تو اللہ کی وحدانیت اور اُس کی نعمتوں کے اقرار کی گواہی آپ کا دل دے گا۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے بھاری بھرکم استاد نصرت فتح علی خان کا فن بھی کم وزنی نہ تھا۔ موسیقی ترتیب دینے سے لے کر گائیکی تک تمام رموز سے آگاہ تھے۔ اِسی لیے دنیا نے اُن کے فن کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کیا پاکستان، کیا بھارت اور کیا ہالی ووڈ۔ ہر جگہ ہی نصرت فتح علی خان نے اپنا فن منوایا۔ 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ ڈیڈ مین واکنگ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی تو عروج کے نئے دروازے وا ہوئے، پھر’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ اور پھر یہ سلسلہ بھارت تک ہی جاپہنچا۔ لیکن نصرت فتح علی نے ’’میری پہچان پاکستان‘‘ گا کر بتادیا کہ دنیا میں جہاں جائیں پہچان پاکستان سے ہے۔
کتنے ہی گیت نصرت فتح علی کی پہچان بن گئے۔ ایک وقت تھا کہ شادی بیاہ کی ویڈیو میں رخصتی کے وقت پسِ منظر میں استاد نصرت فتح علی خان کا ’دولہے کا سہرا سہانا‘ لازمی سنی جاسکتی تھی۔ پاکستان کے مشہور ڈرامہ سیریل دھواں کے ٹائٹل سونگ ’کسی دا یار نہ ویچھڑے‘ کو جو شہرت اور پذیرائی ملی اُس نے ڈرامہ کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کشمیر کیلئے گایا جانے والا گیت ’جانے کب ہوں گے کم، اِس دنیا کے غم‘ میں سارے دکھوں، تکلیفوں اور اذیت میں جینے والوں کا درد اپنی گائیکی کے ذریعے بیان کردیا۔
16 اگست 1997ء کو دنیائے موسیقی کا یہ دمکتا ستارہ ڈوب گیا۔ تمغہ حُسن کارکردگی اور یونیسکو و گریمی ایوارڈ کیلئے نامزد ہونے والا فنکار نصرت فتح علی خان گردوں کے عارضے کے سبب شدید علیل ہوا تو پھر صحتیاب نہ ہوسکا۔ آج اِس فنکار کو گزرے 20 برس گزر گئے۔ اِس موقع پر میں استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات کے فرانسیسی سوانح نگار ”پیئر آلیں بو‘‘ کا نصرت فتح علی خان کی موسیقی اور فن گائیکی کے حوالے سے کہے گئے چند الفاظ پر تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گی،
’’نصرت فتح علی آج بھی دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ محبت کے جذبات، جدائی اور اِس طرح کے دیگر احساسات ہمارے معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں، اِس لیے وہاں بھی تخلیق ہونے والی شاعری اور موسیقی میں اُس طرح کا رنگ ہے جس کو آپ صوفی طرز کا رنگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی نصرت کی موسیقی کا بھی خاصا ہے‘‘
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔