ایئرکنڈیشنر کا پانی؛ یو پی ایس بیٹری کی بہترین دوا

 ہفتہ 19 اگست 2017
ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والے پانی کو بے کار سمجھ کر پھینکنے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والے پانی کو بے کار سمجھ کر پھینکنے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والا پانی اتنا صاف ستھرا ہوتا ہے کہ اسے یو پی ایس بیٹری کے لیے ’’بہترین دوا‘‘ تک قرار دیا جاتا ہے۔

اگر آپ کے گھر میں یو پی ایس ہے تو آپ کو ہر سال کم از کم ایک مرتبہ اس کی بیٹری ضرور تبدیل کرنی پڑتی ہو گی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کمزور پڑتی چلی جاتی ہے اور آخرکار بالکل جواب دے جاتی ہے۔

اس دوران جب بیٹری کا پانی خشک ہو جاتا ہے تو عام طور پر کشید کردہ خالص پانی (ڈسٹلڈ واٹر) ڈالا جاتا ہے جبکہ بعض لوگ بد احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نلکے کا پانی تک بیٹری میں ڈال دیتے ہیں جو اس کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے اور بیٹری صرف چند مہینوں ہی میں ناکارہ ہو جاتی ہے۔

بیٹری کی عمر بڑھانے کے لیے معمولی سی تیزابیت کا حامل پانی بھی استعمال کیا جاتا ہے جو مقامی مارکیٹ میں ’’1250 نمبر کے پانی‘‘ کے نام سے دستیاب ہے جبکہ بعض مقامی کمپنیاں ’’بیٹری واٹر‘‘ کے نام سے یہی پانی فروخت کرتی ہیں جو بہت مہنگا ہوتا ہے۔

ایئرکنڈیشنر کا پانی اس سے کہیں زیادہ بہتر اور مفید ہوتا ہے جس کے بارے میں بیٹریاں فروخت کرنے والے مقامی دکانداروں کا کہنا ہے کہ یہ یو پی ایس بیٹری کو اچھی حالت میں رکھنے کے لیے موزوں ترین ہے۔ کراچی میں بیٹریوں کی فروخت اور مرمت سے وابستہ کئی دکاندار ایئرکنڈیشنر کے پانی کو باقاعدگی سے خرید کر استعمال بھی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایئرکنڈیشنر کا پانی استعمال کرنے پر بیٹری اپنی اوسط عمر سے تقریباً دو یا تین ماہ تک زیادہ کام کرتی ہے، چاہے وہ یو پی ایس میں نصب ہو یا پھر کسی گاڑی لگی ہوئی بیٹری ہو۔

یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والے پانی کے بہترین ہونے کی وجہ بھی جان لیجیے: یہ پانی دراصل ہوا میں موجود آبی بخارات (water vapors) کے ٹھنڈا ہو کر مائع حالت میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بنتا ہے اور اسی بناء پر بہت خالص بھی ہوتا ہے۔ اگر اسے احتیاط سے جمع کرلیا جائے تو ڈسٹلڈ واٹر سے بھی زیادہ خالص اور مفید ثابت ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔