قانون اور سیاست میں جمہوری کشمکش

ایڈیٹوریل  جمعرات 17 اگست 2017
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد ایک کثیر طرفہ قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔ ۔ فوٹو : فائل

سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد ایک کثیر طرفہ قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔ ۔ فوٹو : فائل

پاناما لیکس کیس کے بعد سیاسی صورتحال میں جو بھونچال آیا ہے اسے سیاسی مبصرین تحیر اور تشویش کی نظر سے دیکھتے ہوئے بھی امید افزا سحر کے طلوع ہونے سے تعبیر کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک جمود زدہ طرز حکمرانی کو طاقتور اداروں کی فعالیت کا سامنا ہے اور جو بھی ہونا ہے اسے بہر طور ملکی مفاد کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جب کہ قانونی معاملات میں حقیقت پسندی، سیاسی تدبر اور دوراندیشی پر مبنی سیاسی پیش قدمی سے ملک کو لاحق خطرات اور اندیشوں سے بچایا جا سکتا ہے، وسیع النظری سے قانونی معاملات کا قانونی اقدار اور انصاف کے حقیقی تصورات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا کیس دلائل کے ترازو میں ڈالنے کی سعی کرنی چاہیے کیونکہ ان تمام قانونی مراحل کا تعلق ملک کے نظم حکمرانی میں مضمر خرابیوں اور اصلاح کی جانب مراجعت کے نازک اقدامات سے ہے۔

تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے بعد جہاں ایک طرف وزیراعظم کی نااہلی کے بعد نکالی جانے والی ریلی اور اس میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر ن لیگی رہنماؤں کے میڈیا میں رپورٹ ہونے والی تقاریر اور بیانات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا، جو قانونی رویے اور عدلیہ پر اعتماد کا صائب مظہر بھی ہے، دوسری جانب ایک کثیر طرفہ قانونی جنگ کا آغاز ہوا ہے جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی دائر درخواستوں میں موجودہ سیاسی صورتحال کا سیاق وسباق بھی جھلکتا ہے اور سیاسی ازکار رفتگی، بوسیدگی اور جمود سے دامن کش ہوکر نئی تبدیلیوں کی دھمک بھی سنائی دینے لگی ہے، کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، عوام کو عدلیہ سے بڑی توقعات ہیں جب کہ سیاست دان بھی اپنے تند وتیز بیانات کے باوجود عدالت کے احترام اور اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی نظر ثانی درخواستیں دائر کررہے ہیں جن کی روشنی میں اعلیٰ عدالتوں میں اہم قانونی اور آئینی نکات اٹھائے جا سکتے ہیں ۔

ملک کے فہمیدہ حلقے ملکی سیاست کے نشیب وفراز پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں، ادھر ،آئین ، اختیارات سے تجاوز اور کرپشن سمیت حکمرانوں کی غیر معمولی املاک، اقاموں ، دولت ، لائف اسٹائل اور انداز حکمرانی کے سربستہ رازوں پر سے پردہ اٹھ جانے کے امکانات پر میڈیا میں گرماگرم تبصرے اور تجزیئے جاری ہیں، یوں ملک اپنی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر آ گیا ہے ، چند سیاسی مدبرین کے نزدیک یہ نائن الیون کے بعد کی صورتحال کے مماثل منظر نامہ ہے جس میں داخلی طور پر بہت سارے سیاسی حقائق کے منکشف ہونے اور فرسودہ و جمود زدہ سیاسی نظام کی تطہیر اور تنظیم نو کی جانب ملکی پیش رفت کے واضح امکانات موجود ہیں۔ جو کبھی نہیں ہوا ، ملک میں پہلی بار ہوتا نظر آرہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاف  کی نئی منزل تک جمہوریت کا یہ قافلہ کب اور کیسے پہنچتا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے نااہلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، یہ اہم واقعہ ہے،  وزیراعظم نے نظرثانی کی3 درخواستیں دائر کی ہیں جن میں موقف اپنایا گیا کہ عدالت کا ان کے اور ان کے اہلخانہ کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم اختیارات سے تجاوز اور اختیارات کی تقسیم کے متعلق آئین پاکستان کی شق 175 سے متصادم ہے ۔ انھوں نے کیس کے حتمی فیصلے تک28جولائی کو سنائے گئے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا بھی کی ہے، 3نظرثانی درخواستیں عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کی درخواستوں کے جواب میں دائر کی گئی ہیں، پہلی درخواست میں سراج الحق، وفاق، کابینہ ڈویژن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے، دوسری درخواست میں عمران خان، نیب، وفاق، سیکریٹری داخلہ ،ایف بی آر، مریم نواز ، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن صفدر اور اسحق ڈار جب کہ تیسری درخواست میں شیخ رشید احمد، وفاق، کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، نیب اور ایف بی آر کو فریق بنایا گیا ہے۔34صفحات پر مشتمل نظرثانی درخواست سینئر وکیل خواجہ حارث نے دائرکی ۔

ادھر لاہور ہائیکورٹ نے عدلیہ مخالف بیان بازی کرنے پر میاں نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق سمیت 14 پارلیمنٹیرینز کی نااہلی اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 اگست کو جواب طلب کرلیا، جسٹس مامون رشید شیخ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ اراکین پارلیمنٹ نے پاناما کیس کی سماعت سے قبل اور جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مسلسل عدلیہ مخالف بیان بازی کی جو کہ واضح طور پر توہین عدالت ہے، اس ضمن میں چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کیاگیا ہے جب کہ درخواست پر آیندہ سماعت 25 اگست کو ہوگی ، دوسری جانب سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے، پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری بھی سرگرم ہیں۔

انھوں نے مال روڈ لاہور پر رات دس بجے تک دھرنا ختم کرنے کا یقین دلایا، ن لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین بھی سیاسی اتحاد کی کوششوں میں کراچی پہنچے جہاں ان کی مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر صبغت اللہ پگارا سے ملاقات طے تھی ، سیاسی صف بندیوں  اور آیندہ انتخابی صورتحال میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور ن لیگ کو اس کے اہم حلقوں میں ٹف ٹائم دینے کے لیے قائدین میں رابطوں کا سلسلہ کئی سطحوں پر جاری ہے،بیک ڈور چینلز فعال ہیں، آصف زرداری اچانک دبئی سے لاہور پہنچ گئے ہیں ، پیپلز پارٹی کے ذرایع کے مطابق پنجاب پر فوکس بڑھایا جائے گا، سابق صدر ایک ہفتہ تک لاہور میں قیام کا ارادہ رکھتے ہیں، مشاورت اور سیاسی صورتحال پر پارٹی میں تبادلہ خیال کا عمل بھی آگے بڑھایا جائے گا، ادھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے پاکستان تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے اور اب پاکستان کوکرپشن اور ظلم سے بچانے کے لیے پنجاب کے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

پی ٹی آئی نے شریف برادران کے خلاف نیب ریفرنسز میں تاخیر پر تشویش ظاہر کی ہے، دریں اثنا سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے لیے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کر دی گئی، عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد پولیس حکام سے جواب طلب کر لیا، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو اپنے مالی گوشواروں کی تفصیلات جمع کرانے کی یاد دہانی کرائی ہے ، اس بار سیاسی جماعتوں کے سربراہ جماعت کے مالی گوشواروںکیساتھ اپنے دستخط سے سرٹیفکیٹ بھی منسلک کرینگے جن میںکسی بھی ممنوعہ ذرایع سے پارٹی فنڈنگ نہ لینے اوراپنی جماعت کی مالی پوزیشن سے متعلق آگاہ کریں گے،  واضح رہے پیپلزپارٹی اور پاکستان عوامی تحریک نے لاہور کے حلقے این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرتے ہوئے انھیں چیلنج کردیا ہے، ن لیگ نے اعتراضات کو مسترد کیا ہے۔

اسی تناظر میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت کابینہ کا پہلا باضابطہ اجلاس ہوا جس میں ملکی صورتحال زیر بحث آئی ، حکمران مسلم لیگ کی قیادت مسلم لیگ (ن) کا اہم غیر رسمی مشاورتی اجلاس جاتی امراء رائے ونڈ میں ہوا جس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے عوامی رابطہ مہم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ بلاشہ پیدا شدہ سیاسی ماحول قانون اور سیاست کے مابین نئی کشمکش سے عبارت ہے مگر پیش رفت غیرمعمولی ہے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔