ٹرمپ کی لتاڑ اور شمالی کوریا

شکیل فاروقی  جمعرات 17 اگست 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں منیلا میں ایک علاقائی فورم میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے وزرائے خارجہ کا ٹاکرا ہوگیا۔ اس موقعے پر جنوبی کوریائی وزیرخارجہ نے شمالی کوریاکے وزیر خارجہ کی دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی لانے کے لیے پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جب کہ امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر اس پر دباؤ ڈال رہا ہے اس قسم کی پیشکش کو بھلا کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے۔

دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کا یہ ٹاکرا شمالی کوریا پر اس کے بیلسٹک میزائل (ICBM) کے تجربے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے ایک روز بعد ہوا تھا۔ اس سے پہلے جنوبی کوریائی صدر مون اور امریکی صدر ٹرمپ  کے درمیان ایک گھنٹہ طویل بات چیت میں امریکا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا سے امریکا، جنوبی کوریا اور دنیا کے بعض دیگر ممالک کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے جواب میں شمالی کوریا نے امریکا اور جنوبی کوریا پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ یہ دونوں ممالک فوجی مشقیں کرکے تناؤ اور کشیدگی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی 17 روزہ فراغت کے بعد جنوبی کوریا کو سخت لہجے میں لتاڑا تھا کہ وہ امریکا کو دھمکیاں دینے سے باز آجائے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر شمالی کوریا باز نہ آیا تو اسے ایسی آگ اور غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی دنیا میں کوئی اور مثال نہ ہوگی۔ صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے صرف چند ہی گھنٹوں کے بعد شمالی کوریا کی خبر رساں ایجنسی نے امریکا کو دھمکی دی کہ وہ گوام کے پاس جہاں امریکا کے کئی فوجی ٹھکانے ہیں اپنے میزائل داغنے والا ہے۔

امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں اپنی زبان پر قابو نہیں ہے اور وہ جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں گویا:

بک گیا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

امریکا کے سابق صدور بولنے کے معاملے میں اکثر محتاط ہی رہا کرتے تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ’’پہلے تولو‘‘ پھر بولو، کیونکہ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ لیکن موجودہ امریکی صدر کا رویہ اس کے الٹ ہے جس کی وجہ سے ان کے ماتحتوں کو خواہ مخواہ کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات بڑی شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے۔بے چارے ٹرمپ کیا کریں کہ چمڑے کی زبان پھسل ہی جاتی ہے۔ موصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ:

لگے منہ بھی چڑانے‘ دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی‘ سو بگڑی تھی‘ خبر لیجیے دہن بگڑا

صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے خلاف شدید دھمکیاں دے کر بڑی مشکل کھڑی کردی ہے اور امریکا کو سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اگر ان دھمکیوں پر عمل نہیں کیا جاتا تو پھر امریکا کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور اگر خدا نہ کرے انھیں عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو عالمی امن کے لیے سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے جس کی لپیٹ میں پوری دنیا آسکتی ہے اور قیامت صغریٰ برپا ہوسکتی ہے۔ یہ تو وہی مثل ہوئی کہ ’’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘ نگلے تو اندھا‘ اُگلے تو کوڑھی۔‘‘ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔

ایٹمی ہتھیار انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ ان کا ہولناک نتیجہ دنیا ہیروشیما اور ناگاساکی (جاپان) میں پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔ ان کے فال آؤٹ کے خوف سے روس اور امریکا ہمیشہ سے محتاط رہے ہیں اور گرم جنگ سے بچ کر سرد جنگ سے کام چلا رہے ہیں۔ دھمکیاں دینا اور اکڑ فوں دکھانا انتہائی خطرناک کھیل ہے اور اپنے حریف کی طاقت کا غلط اندازہ لگانا سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔

یہ سودا انتہائی مہنگا بھی پڑ سکتا ہے اور اس میں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ کیوبا کا میزائل بحران اس کی سب سے بڑی مثال ہے جب امریکا اور روس ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے ہوئے جنگ کے کنارے پہنچ گئے تھے۔ تب اگر ذرا سی بھی چوک ہوجاتی تو خوفناک ایٹمی جنگ چھڑ گئی ہوتی۔ اس کے بعد امریکی اور روسی حکمت عملی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور مفکرین اپنی اپنی جگہ پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے جس کے نتیجے میں سرد جنگ کا آپشن معرض وجود میں آیا۔ امریکا میں اس نظریے کا سہرا نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات تھامس شیلنگ کے سر ہے۔ چنانچہ گرم جنگ کی جگہ سرد جنگ نے لے لی اور یوں دنیا ایٹمی جنگ کی ہولناک ممکنہ تباہی و بربادی سے بچ گئی۔ اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ عالمی لیڈروں کو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے بے حد محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے اور اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ قابو میں رکھنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ بدقسمتی سے شمالی کوریا کے خلاف بیان دیتے ہوئے اپنے جامے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے الفاظ کے چناؤ میں انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے امریکا کی کیفیت اب یہ ہے کہ ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ سوال یہ ہے کہ اب کریں تو کیا کریں؟ امریکا کے اس رویے نے اس کی عالمی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

اگر امریکا شمالی کوریا کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے بدلے میں شمالی کوریا بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو بیٹھا نہیں رہے گا۔ جوابی کارروائی کے طور پر وہ سب سے پہلے جنوبی کوریا کو نشانہ بناسکتا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کے بعض اتحادی اس موقع پر اس کا ساتھ دینے سے انکار کرسکتے ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ کی بہت سی باتوں سے انھیں آج بھی اتفاق نہیں ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے خلاف اپنی دھمکی کو عملی جامہ نہیں پہناسکتے جس کا نتیجہ انھیں اور ان کے ملک امریکا کو ساکھ ملیامیٹ ہونے کی ضرورت میں بھگتنا پڑے گا۔ گویا:

ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔