آگ کی بارش

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 17 اگست 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

روسی بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد امریکا کی حیثیت دنیا کی واحد سپر پاور کی بن گئی تھی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ روس آہستہ آہستہ اپنی سابقہ پوزیشن پر آتا رہا اور چین اس تیزی کے ساتھ فوجی اور اقتصادی محاذ پر پیش رفت کرتا رہا کہ امریکا کے منصوبہ ساز مستقبل میں چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ کہنے لگے۔ دنیا کی واحد سپر پاورکا مطلب دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھنا ہوتا ہے۔

امریکا ایک طویل عرصے تک واحد سپر پاور کے ’’عالمی عہدے‘‘ پر فائز رہا اور دنیا کو یونی پولرکہا جانے لگا لیکن اکیسویں صدی میں ہونے والی طاقت کی تقسیم نے دنیا کو یونی پولر سے ملٹی پولر میں بدل دیا جس کی وجہ سے امریکا کا یہ اعزاز ختم ہوگیا کہ وہ دنیا کے فیصلے بلا شرکت غیرے تنہا کرسکے ۔ اب عالمی اہم مسائل پر امریکا کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی رضامندی بھی درکار ہوتی ہے لیکن جب سے دنیا کا ایک سرپھرا شخص ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر منتخب ہوا ہے امریکا بعض سنگین مسائل پر ایسے فیصلے کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایک بار پھر دنیا کو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

شمالی کوریا بالواسطہ طور پر امریکا کا آج سب سے بڑا حریف بنا ہوا ہے اور یہ بات امریکی حکمرانوں کی خود پسندی کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت جنوبی کوریا کے حوالے سے آج بالواسطہ شمالی کوریا کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی کسی قیمت پر شمالی کوریا کی ایٹمی ہتھیاروں کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شمالی کوریا کا براہ راست امریکا سے کوئی جھگڑا نہیں لیکن امریکا جنوبی کوریا کو اسرائیل کی طرح علاقے میں منی سپرپاور بنانے کی جو کوشش کر رہا ہے، شمالی کوریا امریکا کی اس پالیسی کے سخت خلاف ہے اور اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ جدید ترین طاقتور ترین ایسے میزائل بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جو امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

شمالی کوریا کی اس کامیابی سے ٹرمپ کا ذہنی توازن بگڑگیا ہے اور ٹرمپ بغیر سوچے سمجھے شمالی کوریا کو خطرناک ترین دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے یہ خوفناک دھمکی کہ ’’شمالی کوریا پر ہم آگ کی ایسی بارش کریں گے کہ ایسی بارش دنیا نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی‘‘ یہ دھمکی ٹرمپ نے اس رپورٹ کے بعد دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے جوہری ہتھیار کا سائز اس قدر چھوٹا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو آسانی سے امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

شمالی کوریا کے ساتھ اس مسئلے پر طویل عرصے سے امریکا کی محاذ آرائی جاری ہے۔ شمالی کوریا کو ایٹمی تجربات سے روکنے کے لیے امریکا جو کوششیں کر رہا ہے اسے ان کوششوں میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس اور چین اب امریکا کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی گاڑی میں سوار ہیں اور شمالی کوریا ابھی تک سوشلزم کے ساتھ جڑا ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شمالی کوریا امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے اتحادی شمالی کوریا سے اسی لیے خائف ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ڈولتی ہوئی کشتی کو شمالی کوریا کی نظریاتی اساس سے خطرہ ہے۔

دنیا میں جب تک روایتی ہتھیاروں کا کلچر موجود تھا غیر ایٹمی ملک امریکا اور اس کے اتحادیوں سے اسی طرح خوفزدہ رہتے تھے جس طرح پاکستان ہندوستان سے خوفزدہ رہتا تھا لیکن ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں جب سے کمزور اور روایتی جنگوں میں ناکامی کے خطرات سے دوچار ہونے والے ملک کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب طاقت کے توازن میں ایک انقلابی تبدیلی آگئی ہے اب شمالی کوریا پر آگ کی تاریخی بارش کرنے کی دھمکی دینے والے ٹرمپ کو سو بار سوچنا پڑے گا کہ اس بارش کا جواب شمالی کوریا کے پاس ہے جو امریکا کے کسی بھی شہر پر برس سکتی ہے۔

اس مسئلے کا سیدھا سادہ حل یہ تھا کہ امریکا جنوبی کوریا کو اپنی گرفت اور سامراجی فوجی اڈے کی حیثیت سے نجات دلا کر شمالی کوریا کے عوام کو یہ حق دے دیتا کہ وہ جرمنی کی طرح دو کوریا والی تقسیم کو ختم کریں یا برقرار رکھیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور کوریا کو فاتح ملکوں نے تقسیم کردیا اور ایک حد پر امریکا قابض ہوگیا دوسرے پر روس۔ جس طرح مغربی جرمنی کے عوام اس تقسیم کے خلاف تھے اسی طرح جنوبی کوریا کے عوام بھی اس تقسیم کے فطری طور پر مخالف ہوسکتے ہیں کیونکہ خواہ وہ شمالی کوریا میں رہیں یا جنوبی کوریا میں نسلاً دونوں کوریا کے عوام ایک ہیں اگر وہ جرمنی کی طرح اس تقسیم کو ختم کرنا چاہتے ہوں تو کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ان کی خواہشوں کے درمیان روڑا بن کر کھڑا ہوجائے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ امریکا کے سامراجی مفادات کا ہے۔ ایران بھی اسرائیل کے خوف سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایٹمی قوت بننے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا لیکن امریکا کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی ملک اس خطے میں اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے، سو ایران کی اسرائیل کے دباؤ سے آزاد ہونے کی کوششوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ناکام بنادیا اور ایٹمی میدان میں ایران کی پیش رفت کو روکنے کے لیے اس پر اس قدر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں کہ ایران کی معیشت سخت خطرات سے دوچار ہوگئی۔ ایران کو گھٹنے ٹکانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ بعض عرب ملک اس حوالے سے امریکا کے ہم نوا بنے ہوئے تھے وہ اسرائیل کی ظالمانہ چوہدراہٹ قبول کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ایران کو طاقتور دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ شمالی کوریا کے ساتھ ایسا مسئلہ نہیں ہے اور وہ امریکا کی ہر دھمکی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

ایٹمی ہتھیار خواہ وہ امریکا کے پاس ہوں یا شمالی کوریا کے پاس انسانیت کی بقا کے لیے سخت اور بدترین خطرہ ہیں۔ کوئی ذی ہوش انسان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن اگر بڑی طاقتیں اس حوالے سے امتیازی پالیسی اختیار کرلیں تو کوئی شخص یا کوئی ملک اس امتیازی پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ایران اور شمالی کوریا کے حوالے سے امریکا ایک خطرناک امتیازی پالیسی پر کاربند ہے ایران اپنی داخلی اور خارجی غیر معمولی مشکلات کی وجہ سے امریکا کے دباؤ میں آگیا لیکن شمالی کوریا ایران جیسی مشکلات کا شکار نہیں وہ امریکا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔ امریکی صدر فطرتاً جنگ پسند انسان ہے وہ ہر مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر کاربند ہے، جب ٹرمپ یہ کہتا ہے کہ شمالی کوریا کو ہمارے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم شمالی کوریا پر بارود کی ایسی بارش کریں گے کہ دنیا نے کبھی ایسی بارش نہ دیکھی ہوگی تو ان کی یہ دھمکی شاید ایٹمی شمالی کوریا پر اثرانداز نہ ہوسکے گی اور آگ کی بارش کا جواب شمالی کوریا آگ کی بارش ہی سے دے سکتا ہے۔

ہوسکتا ہے شمالی کوریا کو زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے لیکن خود امریکا کو شمالی کوریا کی آگ کی بارش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس اور چین اس حوالے سے امریکا کی حمایت کر رہے ہیں لیکن انھیں احساس ہونا چاہیے کہ شمالی کوریا کے حوالے سے امریکا جس جارحانہ پالیسی پر گامزن ہے وہ ساری دنیا کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا روس اور چین اس آگ سے محفوظ رہ سکیں گے جس کا ذکر امریکی صدر ٹرمپ بڑے فخر سے کر رہے ہیں؟روس اور چین کو امریکا کی امتیازی پالیسی کی حمایت کے بجائے ایٹمی جنگ کے نقصانات سے امریکا کو آگاہ کرتے ہوئے امن کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔