کیوں؟

ایاز خان  جمعرات 17 اگست 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد پنجاب ہاؤس میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران مری جا کر انھوں نے نئے وزیر اعظم اور کابینہ کے فیصلے کر دیے۔ ان کی واپسی ہوئی اور یوں لگا کہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھا ہوا نواز شریف ایک ایسا زخمی شیر ہے جو اپنے مخالف پر حملہ کرے گا اور سارے بدلے چکا دے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ امیج بنتا اور مضبوط ہوتا رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر مختلف مکتبہ فکر کے لوگ آئے‘ میاں صاحب ان سے اظہار خیال کرتے اور ان کے یہ خیالات عالیہ میڈیا کی زینت بن جاتے۔ ملاقاتوں میں اکثریت میڈیا والوں کی تھی جو مختلف اوقات میں ان سے ملاقات کے لیے گئے۔

ایسی ہی ایک محفل میں چند انتہائی سینئر‘ سینئر اور سیمی سینئر میڈیا پرسنز نے کچھ جوشیلی تقریریں کیں اور مولانا فضل الرحمن کی آمد کے ساتھ ہی وہ محفل برہم ہو گئی۔ شرکا اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گئے۔ چند گھنٹے گزرے ہونگے کہ اتوار کو موٹروے سے گھر جانے کا فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ چوہدری نثار‘ شہباز شریف اور بعض دیگر سینئر رہنماؤں کا مشورہ چند جذباتی تقریروں کے ملبے تلے دب گیا۔ پنجاب ہاؤس جسے وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ حاصل تھا سے نیا فرمان جاری ہوا۔ نواز شریف بدھ کو براستہ جی ٹی روڈ اپنے گھر یعنی جاتی امرا براستہ لاہور جائیں گے۔ جی ٹی روڈ پر لاکھوں افراد کو لانے کے دعوے کیے گئے۔ میاں صاحب کاقافلہ ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے پنجاب ہاؤس اسلام آباد سے چلا تو حاضرین کی تعداد مایوس کن تھی۔ راستے میں لوگ آتے گئے اور پنڈی تک معقول تعداد ساتھ ہو چلی۔ قافلہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد سے پنجاب ہاؤس پنڈی تک پہنچا تو 13گھنٹے بیت چکے تھے۔

دوسری صبح کا نظارہ پہلی صبح سے بھی بھیانک تھا۔ کئی لاکھ افراد پنڈی کی سڑکوں پر لانے کا دعویٰ کرنے والے حنیف عباسی چند ہزار بندے بھی نہ لا سکے۔ رانا ثناء اللہ کو لاہور سے پنڈی پہنچنا پڑا۔ پنڈی سے قافلہ رواں ہونے تک حنیف عباسی کا ن لیگ کے ساتھ سیاسی کیرئیر دی اینڈ ہوچکا تھا۔ رنگ بازی کی سیاست اپنی موت آپ مر چکی تھی۔ میاں صاحب بھی سوچتے ہونگے کہ چوہدری تنویر جیسے منتخب اور اہل افراد کے بجائے غیر منتخب حنیف عباسی کو فنڈز اور اہمیت دینے کا کتنا نقصان ہوا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟ افسوس حکمرانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس تب ہوتا ہے جب اقتدار کی دیوی ان سے روٹھ جاتی ہے۔ اقتدار جب تک سلامت رہے‘ تب تک رعونت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اس وقت کا کوئی وجود ہوتا ہے نہ کسی آئینی ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

پنڈی سے قافلہ نکلا تو اچانک اس کی اسپیڈ بڑھ گئی۔ چوہدری نثار کے علاقے سے یہ قافلہ 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ چکا تھا۔ یہ ساری کارروائی آپ چینلز پر دیکھ اور اخبارات میں پڑھ چکے ہیں۔ سرکاری ٹی وی سمیت تمام چینلز کی حالت یہ تھی کہ کسی کو400افراد کا مجمع انسانوں کا سمندر نظر آ رہا تھا اور کوئی ہزاروں افراد کے اجتماع کو انتہائی معمولی تعداد قرار دے رہا تھا۔ میڈیا کی یہ حالت اس سے پہلے میں نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ نواز شریف کے قافلے کی ابتدا جیسی بھی رہی‘ ہوم گراؤنڈ یعنی گوجرانوالہ ڈویژن میں داخلے کے بعد ایک بڑا کراؤڈ ان کے استقبال کے لیے امڈ آیا۔ اس کراؤڈ میں کتنے لوگ خود آئے اور کتنے لائے گئے اس بحث میں پڑنے کا کوئی فایدہ نہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے چار حکومتوں نے مل کر اتنے بندے اکٹھے کیے تو کیا کمال کیا۔ ایسا کبھی ہوا بھی نہیں کہ وزیر اعظم نا اہل ہو گیا اور وہ احتجاج کے لیے جی ٹی روڈ پر نکلا تو مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومت تھی۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی اسی کی جماعت کے پاس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو گننے یا تولنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے پنڈی سے لاہور تک ایک سوال بار بار پوچھا۔ مجھے کیوں نکالا؟ ان تین لفظوں کی اتنی گردان ہوئی کہ سوشل میڈیا کے کاریگروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ لاتعداد ویڈیوز بن گئیں‘ بے شمار لطیفے وجود میں آ گئے۔ نواز شریف جب تک پنجاب ہاؤس میں ڈیرے جمائے ہوئے تھے وہ مضبوط لگ رہے تھے۔ وہ جی ٹی روڈ پر نکلے‘ سفر کرتے گئے اور گھر پہنچنے سے پہلے تقریریں بھی کیں۔ میرے خیال میں وہ ہر تقریر کے بعد پہلے سے زیادہ کمزور نظر آنے لگے۔ ان کی آواز کئی مواقعے پر رندھ گئی۔ انھوں نے بار بار یہ کہا کہ وہ اپنی بحالی کے لیے نہیں نکلے مگر الفاظ ان کے جذبات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

فیصلے دینے والے 5معزز ججوں کو بھی ہر تقریر میں نشانہ بناتے بناتے وہ گھر پہنچ گئے۔ میاں صاحب کا بار بار یہ کہنا کہ آپ کے وزیر اعظم کو کبھی رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے اور کبھی کان سے پکڑ کر گھر بھجوا دیا جاتا ہے‘ انھیں بہت کمزور وکٹ پر لے آیا۔ میاں صاحب کی جی ٹی روڈ یاترا کے آغاز پر ہی چوہدری نثار نے اپنی ناراضی کا اظہار یوں کر دیا کہ وہ اداروں سے ٹکراؤ کے مخالف ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ 99فیصد سینئر قیادت ریلی میں شریک نہیں ہے۔

کیا خوب تماشا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے بیدخلی کے ساتھ ہی میاں صاحب انقلابی ہو گئے ہیں۔ انھیں آئین میں ترامیم کا خیال آ گیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر بھی ایمان لے آئے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ انھوں نے نظریاتی ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ اب انھیں نیا سوشل کنٹریکٹ بھی یاد آ رہا ہے۔ یہ البتہ انھوں نے نہیں بتایا کہ ان کے نظریات کیا ہیں۔ نواز شریف کو اقتدار سے نکلنے کے بعد 80فیصد بے گھر پاکستانیوں پر بھی ترس آنے لگا ہے۔ گزشتہ دو ادوار میں سابق وزیر اعظم کو شکوہ تھا کہ انھیں ڈھائی سال بعد نکال دیا گیا۔ اس بار تو چار سال سے زیادہ وقت تھا ان کے پاس۔ وہ چاہتے تو سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ضرور کر سکتے تھے۔ اب تو آصف زرداری بھی آپ سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔لے دے کے مولانا فضل الرحمان‘ محمود اچکزئی‘ اسفند یار جیسے اتحادی ہی ساتھ دینے کے لیے رہ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ ساتھ بھی کب تک رہتا ہے۔

میاں صاحب اب آپ کے لفظوں میں جان نہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ آپ پارٹی میں موجود جہاندیدہ لیڈروں کی بات مان جاتے۔ موٹروے سے گھر جاتے ہوئے لاہور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے اور اپنا امیج قائم رکھتے۔ گھر بیٹھ کر اپنی حکومت اور پارٹی کو مضبوط کرتے۔ آیندہ الیکشن میں جیت کر آتے اور جو ترامیم چاہتے کر لیتے۔ اب آپ جو بھی کریں گے وہ اپنی ذات کے لیے کریں گے۔ یہ کوئی نہیں مانے گا کہ جمہوریت کی مضبوطی اور وزراء اعظم کی عزت کے لیے آپ دن رات ایک کرنے والے ہیں۔

شیر اسلام آباد سے نکلا تو زخمی تھا‘ لاہور پہنچنے تک پنجرے میں قید لگنے لگا ہے۔ میاں صاحب! آپ وہ ہارے ہوئے کھلاڑی ہیں جسے دوبارہ میدان میں نہیں اترنے دیا جائے گا۔ آپ جتنا مرضی کہیں‘ مجھے کیوں نکالا گیا‘ کیوں‘ کیوں‘ کیوں؟ کسی پر اثر نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔