روشنی کا سفر

امجد اسلام امجد  جمعرات 17 اگست 2017
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

اگرچہ اس بار یوم آزادی کی تقریبات اور تیاریوں پر سابق اور نااہل قرار دیے جانے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جی ٹی روڈ یاترا کا اثر غالب رہا کہ ان کے سفر کی تفصیلات، بیانات صفائی اور انقلابی نعروں کی غیر معمولی میڈیا کوریج نے بیشتر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے رکھی جس کی وجہ سے وہ فضا تو قائم نہیں ہو سکی جو گزشتہ چند برسوں سے دیکھنے میں آ رہی تھی لیکن 13 اور14اگست کو صورت حال کچھ بہتر ہو گئی اور پارٹیوں کے جھنڈوں کی جگہ پاکستان کے پرچم اور آرائشی جھنڈیوں نے لے لی اور پوری قوم نے متحد ہو کر جشن آزادی پورے جوش و خروش اور بھرپور انداز میں منایا اور اس حوالے سے بے شمار تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔

جن چار تقاریب میں مجھے براہ راست شامل ہونے کا موقع ملا ان میں سے دو تو مشاعرے تھے جن کا اہتمام بالترتیب 12اور 13اگست کی رات کراچی اور لاہور کی آرٹ کونسلز نے کیا تھا جب کہ ایک روز قبل یعنی 11اگست کی رات لوک ورثہ اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں برادرم اشرف شاد کے نئے ناول ’’جج صاحب‘‘ کی تعارفی تقریب میں مصنف اشرف شاد‘ صدر تقریب میاں رضا ربانی چیئرمین سینیٹ اور مقررین پروفیسر فتح محمد ملک‘ افتخار عارف اور میں نے جو باتیں کیں ان کا بھی بالواسطہ تعلق وطن اور اس کے اداروں کی آزادی ہی سے تھا۔ 12اگست کی صبح پی آئی اے کی اسلام آباد سے کراچی تک کی پرواز تو وقت پر تھی لیکن جہاز کی حالت بہت افسوس ناک تھی، بتایا گیا کہ حج پروازوں کے اضافی دباؤ کیوجہ سے کچھ جہاز (عملہ سمیت) بعض ممالک سے لیز پر لیے گئے ہیں اور یہ بھی انھی میں سے ایک ہے۔

بہت زیادہ پرفیوم کے استعمال کے باوجود ماحول میں ایک قدرے ناگوار سی بو موجود تھی‘ سیٹیں غیرمعمولی طور پر تنگ اور تکلیف دہ تھیں لیکن کھانے کی میزیں مسافروں کے اوپر چڑھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ممکن ہے ان جہازوں کا انتخاب کم خرچی کے اصول پر کیا گیا ہو مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کسی ایئرلائن کا پہلا کام اپنے مسافروں کو سہولت سے سفر کرانا ہوتا ہے۔ اس پرواز میں افتخار عارف اور احمد عطاء اللہ ہم سفر تھے، اس بار برادرم احمد شاہ نے شاعروں کی تعداد محدود رکھی تھی چنانچہ سنانے والوں کے ساتھ سننے والے بھی خوب خوب لطف اندوز ہوئے۔

لاہور آرٹ کونسل میں مشاعرے کا اہتمام کیپٹن ریٹائرڈ عطا محمد اور ذوالفقار زلفی نے کیا تھا یہاں شعرا کی تعداد خاصی زیادہ تھی لیکن اطلاعات کے مطابق اسٹیج سیکریٹری برادرم خالد شریف نے خاصی مہارت اور تیزی سے مشاعرے کو آگے بڑھایا۔ ’’اطلاعات کے مطابق‘‘ میں نے اس لیے کہا کہ مجھے واہگہ بارڈر پر ہونے والی تقریب پرچم کشائی میں پہنچنا تھا جہاں جانے کے لیے پاکستان رینجرز کی گاڑی مجھ سے پہلے الحمرا آرٹ کونسل میں پہنچی ہوئی تھی، سو مجبوراً مجھے منتظمین مشاعرہ سے درخواست کر کے پہلے پڑھنا پڑا جس کا مجھے اس لیے افسوس ہے کہ اصولی طور پر میں مشاعرے کے بیچ میں سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور جاوید نے پوچھا کہ آپ نے دعوت نامہ ساتھ رکھ لیا ہے نا؟ پھر معذرت آمیز انداز میں بولا کہ آج سیکیورٹی کچھ زیادہ سخت ہے اور پارکنگ ایریا سے آگے صرف وہ مہمان جا سکیں گے جنھیں خصوصی کارڈ ایشو کیے گئے ہیں۔ میں نے جیب میں رکھے کارڈ کو سہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ اطلاع دی جا چکی ہے اور متعلقہ کارڈ میری جیب میں ہے۔

اب ہوا یہ کہ رنگ روڈ سے اتر کر جب ہم واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہوئے توچار پانچ چیک پوائنٹس سے رینجرز کی گاڑی اور ڈرائیور کی شناخت کی وجہ سے ہمیں کسی نے نہیں روکا لیکن جب ہم اس مقام پر پہنچے کہ جہاں سے گاڑیوں کو الگ الگ سمت میں موڑا جا رہا تھا تو ڈرائیور نے مجھے کارڈ دینے کو کہا تاکہ وہ اسے متعلقہ عملے کودکھا سکے، اب جو میں نے کارڈ نکالا تو دیکھا کہ یہ تو 20اگست کو ڈیفنس لاہور میں ہونے والی ایک تقریب کا کارڈ تھا جو میں جلدی میں غور سے دیکھے بغیر اٹھا لایا تھا جس کی وجہ غالباً یہ بنی کہ دونوں کارڈوں پر مدعو کرنے والے میجر جنرل صاحبان تھے۔ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنی اس بے خیالی اور جلد بازی کی وضاحت متعلقہ سیکیورٹی عملے سے کیسے کروں کہ ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے چاروں طرف ایک ہاہا کار سی مچی ہوئی تھی اور مجھے عقل مندی کا دیا ہوا یہ سبق بھی یاد تھا کہ سیکیورٹی کے نسبتاً نیم تعلیم یافتہ اور لکیر کے فقیر قسم کے لوگوں سے کبھی بحث نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنی متعلقہ ڈرل سے باہر کچھ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ قدرے فاصلے پر کھڑے ایک نوجوان میجر نے پہچان کر نہ صرف مجھے سلام کیا بلکہ آگے بڑھ کر ہمارے گزرنے کے لیے راستہ بھی بنا دیا۔ میں نے بہت گرمجوشی سے اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا جس کی غالب وجہ یہ تھی کہ اس کی وجہ سے ایک خواہ مخواہ کی خفت سے چھٹکارا مل گیا۔

کچھ دیر پہلے ہونے والی بارش کی وجہ سے تمام صوفوں اور سیٹوں کو پلاسٹک کورز سے ڈھانپ دیا گیا تھا لیکن اس کے اثرات اور مزید متوقع بارش کے بڑھتے ہوئے امکانات کی وجہ سے تمام تر  ڈسپلن کے باوجود منتظمین کے چہروں اور باڈی لینگوئج کی پریشانی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ یہ تقریب جشن آزادی کے آغاز کے ساتھ ساتھ اس خصوصی ٹاور کی تقریب افتتاح بھی تھی جو اپنی چار سو میٹر کی بلندی کی وجہ سے ساؤتھ ایشیا کا سب سے بلند اور دنیا میں آٹھویں نمبر کا بلند ترین مینار ہے اور جس پر چڑھائے اور لہرائے جانے والے قومی پرچم کا سائز بھی اپنی لمبائی اور چوڑائی کے حساب سے غیر معمولی تھا۔

اسٹیج پر فہد کاظمی اور سدرہ اقبال تقریب کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ آنے والے خاص مہمانوں کا تذکرہ بھی کرتے چلے جا رہے تھے ۔میرے ساتھ قومی اتھلیٹ نسیم حمید‘ ہاکی کے نامور کھلاڑی سہیل عباس اور کرکٹر انضمام الحق کی سیٹیں تھیں جب کہ فن کاروں میں ساحر علی بگا‘ جسی سنگھ‘ عارف لوہار‘ ایوب کھوسو‘ وارث بیگ کے علاوہ کچھ بچے بھی پرفارمنس کے لیے موجود تھے لیکن ہوا یہ کہ کچھ ہی دیر میں دوبارہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور اگرچہ پرفارمنسز کا سلسلہ جاری رہا مگر بہت سا وقت ضایع ہو جانے کی وجہ سے کئی فن کاروں کو موقع ہی نہیں مل سکا جن میں سب سے اہم نام عارف لوہار کا تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، کور کمانڈر لاہور اور ڈی جی رینجرز کے ساتھ چھتریوں کے سائے میں پہنچ تو گئے مگر بارش کی تیزی اور زور کی وجہ سے وہ مہمانوں سے کچھ ہی کم بھیگے ہوئے تھے ٹھیک گیارہ بج کر انسٹھ منٹ پر پرچم کشائی کا اعلان ہوا جس کے ساتھ ہی آتش بازی کے پیش منظر میں مینار پر پرچم کے کھلنے کا سفر شروع ہوا جو لمحہ بہ لمحہ تیز رفتار ہوتا چلا گیا اور جونہی وہ چوٹی پر پہنچا فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی اور تمام حاضرین نے قومی ترانے کے ساتھ کھڑے ہو کر پرچم کو سلامی دی اور اس کے ساتھ ہی جشن آزادی کا وہ آغاز ہوا جو اگلے 24گھنٹوں کے بعد بھی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ جاری رہا۔ جنرل باجوہ کی تقریر مختصر ہونے کے باوجود عزم و ہمت اور جوش و جذبے سے بھرپور تھی اور جس طرح سے وہاں پر موجود شہریوں نے اس کی تائید میں داد دی وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پوری قوم پاک فوج کی ان قربانیوں کو سراہتی ہے جو اس کے جوان اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر قیام پاکستان سے لے کر اب تک دیتے چلے آ رہے ہیں۔

ہر ایک راہ ستارہ فشاں ہے میرے لیے

مرے وطن کی زمیں آسماں ہے میرے لیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔