نیا عمرانی معاہدہ؟

جاوید قاضی  جمعرات 17 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مجھے نہیں لگتا نئے عمرانی معاہدے پر بحث منطقی ہے۔ وہ اس لیے بھی کہ اس بحث میں ہر کوئی آسان لفظوں میں طبع آزمائی نہیں کر سکتا۔ نہ کوئی ایسی خانہ جنگی کی صورتحال ہے، نہ ہی کوئی ایسا سیاسی بحران ہے جس کا حل پاکستان کے آئین میں موجود نہ ہو۔ ہم جسے پاکستان کی تاریخ کہتے ہیں وہ اپنے آپ میں خود، آئینی اصلاحات کی بحث ہے۔ جو بالآخر تمام سیاسی پارٹیوں کے متفق نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ ہندوستان کی تقسیم پر ختم ہوئی۔

اس بحث کی شروعات (Govt of India Act) GIA1958 کے بننے سے شروع ہوئی، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان، تاج برطانیہ کے زیرِ حکومت آیا۔ GIA کو اگر سمجھا جائے تو اور کچھ نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کے لیے آئین کی شکل تھی اور پھر اس طرح آئینی اصلاحات کی ایک تحریک شروع ہوئی۔ کمشنز بنے، گول میز کانفرنسز ہوئیں، ہندوستان کے مسلمان اپنے تحفظ کے لیے آگے بڑھے اور یوں مختلف آئینی ریفارمز کے ذریعے 1935 GIA کی شکل سامنے آئی۔ دوسری جنگ عظیم ہوئی، سامراج کمزور ہوا، کانگریس اور مسلم لیگ متفق نہ ہو سکیں اور اس طرح Independence Act 1947 کے تحت برطا نیہ سے ہمیں آزادی ملی۔ متحدہ ہندوستان کی تفریق سے نیا ہندوستان اور آزاد پاکستان وجود میں آیا۔

ہندوستان  26 جون 1950ء کو ایک نیا آئین دینے میں کامیاب ہو گیا، اور یہی Independence Act 1947 کی روح تھی کہ ہندوستان کو آزادی کے بعد ایک نیا آئین دیا جائے، اور اسی طرح سے پاکستان کو بھی۔ Independence Act 1947ء میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے کہ جب تک دونوں ممالک کو نیا آئین دیا جائے تب تک GIA 1935، دونوں ممالک کا آئین رہے گا۔ پھر کیا ہوا؟

ہم آئین دے نہ پائے، آئین کیسا ہونا چاہیے اس کی ایک شکل جناح صاحب کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر سے واضح ہوتی ہے، اس کے برعکس ہم نے 1949ء میں Objective Resolution (قرار داد مقاصد) کا متن دیا۔ ہم ملک کو آئین دینے سے کتراتے رہے۔ اور آخرکار آئین ساز اسمبلی کی مدت بھی پوری ہو گئی۔ ہم نے 1940ء کی قرارداد پاکستان کی نفی کرتے ہوئے ویسٹ پاکستان کو ون یونٹ بنا دیا اور ایسٹ پاکستان کو ویسٹ پاکستان کی کالونی۔ 1958ء کا آئین جو ہم نے دیا وہ خود آئین کی روح کی نفی تھا، یعنی وفاقی آئین نہیں تھا۔ پارلیمنٹ میں ایک ہی ہاؤس تھا۔

1962ء کے آئین سے 1958ء کا آئین قدرے بہتر تھا، اس لیے کہ 1958ء کے آئین کو لیجسلیچر (Legisleture) نے فریم کیا تھا۔ 1962ء کا آئین آمریت کا مرتب کردہ تھا۔ نتیجہ کیا نکلا، خانہ جنگی، جو کہ (Sine Qua non) ناگزیر تھی، اور وہ ہوئی۔

1947-1971ء ملک آئینی بحران سے دوچار رہا۔ بالآخر 1973ء میں پاکستان کو ایک نیا آئین دیا گیا۔ 1973ء کا سال اس ملک کو ماڈرن، فطری اور منطقی آئین دینے میں کامیاب ہوا۔ یہ آئین اتنا جاندار تھا کہ دو آمریتوں کے ادوار کے بوجھ کو بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ 1958ء اور 1962ء کے آئین کی طرح معطل نہ ہوا، بس صرف کچھ وقت کے لیے ABEYANCE عارضی التوا میں چلایا گیا۔ اور پھر رواں بھی ہوا اور اب تک رواں ہے، رواں رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 1973ء کا آئین Consensus Document ہے، یعنی افہام و تفہیم اور اتفاقِ رائے سے بنایا گیا۔

جنرل ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین میں جو بگاڑ پیدا کیے اور اس کی شکل کو کافی حد تک مسخ کیا، اور کورٹ نے جہاں شبِ خوں کو نظریہ ضرورت کے تحت قانونی حیثیت دے دی، مگر اسی کورٹ نے پھر آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کرتے ہوئے، جو بگاڑ آمریت نے پیدا کیے تھے، اس کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش بھی کی۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت، آئین کے اندر موجود خامیوں کو دور کیا گیا۔ مگر اب بھی آمریت کی پیدا کردہ بہت سی شقیں آئین کے اندر موجود ہیں جو کہ خود آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہیں، مثال کے طور پر آرٹیکل 62(1)(F)،63 (A)، آرٹیکل 2 A وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شقیں آئین کے اندر، آئین کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔

آئین پاکستان کا ہو یا ہندوستان کا، دونوں کا Origin، امریکا کے آئین سے ہے اور امریکا کا آئین ’’روسو‘‘ اور ’’لاک‘‘ کے عمرانی معاہدے کی تھیوری سے منسلک ہے۔ امریکا کا آئین لگ بھگ تین سو سال سے رائج ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس کا سوشل کانٹریکٹ، یعنی عمرانی معاہدے سے منسلک ہونا ہے۔ عمرانی معاہدے سے منسلک ہونا، مطلب آئین کے اندر بنیادی حقوق کی پاسداری ہے۔ بنیادی حقوق ہمارے آئین کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

اب نیا عمرانی معاہدہ؟ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ نئے عمرانی معاہدے سے دوستوں کا کیا مطلب ہے۔ اگر اس فریز کا مطلب یہ ہے کہ آئین کے اندر اصلاحات کی جائیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ 1973ء کا آئین تحلیل کر کے ایک نیا آئین مرتب کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی حماقت ہو گی۔ ہمارا آئین کوئی سعودی عرب یا لیبیا کے آئین کی طرز کا نہیں، کیونکہ وہ آئین عوامی آئین نہیں۔ اور اسمبلی بھی آئین ساز اسمبلی نہیں ہوتی۔ صرف 1973ء کی اسمبلی کو آئین بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ موجودہ اسمبلی اور آنے والی تمام اسمبلیوں کو صرف آئین میں ترامیم کرنے کا حق موجود ہے، جس کے ذریعے وہ آئین میں اصلاحات کر سکتی ہیں، آئین کو مستحکم کرنے کے لیے۔

ہم نے اب تکRule of Law کی تھیوری تو پڑھی ہے مگر ہم Constitutionalism  کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ Rule of Law کے اصولی معنی ایک اچھا قانون (Good Law) اور اس پر عمل، مثال کے طور پر برطانیہ کے غیر تحریری آئین کے مطابق ریاست اور مذہب ایک ہیں، مگر کورٹ اور پارلیمنٹ نے آئین کی تشریح اس طرح کی ہے کہ ریاست اور مذہب الگ الگ ہیں۔ اسی طرح ہمارے آئین کے اندر بھی ایسی کئی شقیں موجود ہیں، جو بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، اور ہماری کورٹ (Ultra vires) سے جیورسڈکشن بناتے ہوئے، تشریح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ایسے قوانین کو رد کر دیتی ہے۔

Constitutionalism کیا ہے؟ Separation of powers کا دوسرا نام۔ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں: مقننہ، عدلیہ، پارلیمان۔ اور ان تینوں کے درمیان توازن۔ ان تینوں اداروں میں سے کوئی بھی ادارہ دوسرے سے بڑا نہیں۔ Constitution تب مکمل ہوتا ہے جب

Constitutionalism جڑ پکڑ لیتی ہے۔ ہمارے پاس اب بھی اداروں میں ٹکراؤ موجود ہے۔ ہم اب بھی Constitutionalism کی منزل کو نہیں پہنچے اور اگر نئے عمرانی معاہدے سے یہ منزل ہم پا سکتے ہیں، تو یہ ٹھیک ہے، لیکن اس کی راہ میں بھی جو بنیادی رکاوٹ ہے وہ Civil Millitary Relations میں عدم توازن ہے۔ اور یہ عدم توازن پاکستان کے اندر مخصوص حالات کا Phenomenan ہے۔

ہر ماڈرن آئین کی طرح ہمارا آئین بھی Organic ہے، ستر سال آزادی کی مدت میں یہ تمام معاملات حل ہونے چاہیے تھے، جو کہ نہیں ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے آئین اور ریاست کے بنیادی اداروں میں اب تک ٹکراؤ موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔