چند لوگ چند باتیں

ایم قادر خان  جمعرات 17 اگست 2017

چند لوگ ایسے ہیں جن کو چند باتیں سمجھ میں نہیں آئیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کو بعد میں سمجھتے ہیں۔ کسی بھی بات کو وقت پر سمجھنا اہم بلکہ فائدہ مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی کام کو وقت پر نہیں کرپاتے اس لیے کہ وہ وقت ضایع کردیتے ہیں جب اس کام کو کرنا چاہیے یا اس کی افادیت ہو۔ ہوشیار، چالاک لوگ اپنے کام میں ایسے محو ہوئے کہ وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا یہی وجہ ہے وہ ہمیشہ کامیاب رہے کامیابی کی ساری وجہ وقت کو سمجھنا اوراس کے سہارے کام سر انجام دینا ہے۔ ایک پرانی مثل ہے ’’سانپ چلا گیا اب اس کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں‘‘ آج بھی یہ بات کہیں نہ کہیں ثابت ہوتی ہے بعد میں پچھتاتے ہیں کہ ہمیں یہ کام اسی وقت کرنا چاہیے تھا اب یہ سوچنا یا پچھتاوا عبث ہے۔ اگر خوش نصیبی دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اس کی آواز کو سن کر فوری عمل کریں۔ ہر شخص کے دروازے پر خوش قسمتی آتی ہے اور بڑی آہستگی سے دروازے پر دستی دیتی ہے جو ہوشیار ہوتے ہیں وہ اس دستک کو سن لیتے ہیں اورکامیاب رہتے ہیں۔

صبح میں لکھنے بیٹھا تھا، میرے ایک دوست آج کافی دنوں بعد آئے وہ بھی صبح۔ عموماً وہ شام کو آیا کرتے تھے۔ کہنے لگے پہلے تو بتاؤ یہ کوئی کتاب لکھ رہے ہو یا صرف مضامین۔ میں بولا بھائی یہ ایک کتاب شروع کی ہے جس کا عنوان ’’چشم تر‘‘ رکھا ہے۔ بولے نام تو شاعرانہ ہے اگر غزلیات یا نظمیں دکھ بھری ہوں تو نام پورا اترتا ہے۔ پھر ہنس پڑے بولے یار! ادبی الفاظ کہیں نہ کہیں ضرور کہتے ہو۔ میں نے کہا! اب تو کچھ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اردو ادب وہ نہیں جو ہمارے بزرگوں کے زمانے میں تھا بس یوں سمجھیں کہ ہم لوگ کام چلاتے ہیں اس طرح نہیں لکھتے یا بولتے جیسے ہمارے بزرگ لکھا اور بولا کرتے تھے۔ دوست کہنے لگے آپ کی بات میں وزن ہے دراصل وقت بدل رہا ہے یہ جدید دور ہے۔

ہم جیسے لوگ پرانے دور کو یاد کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ غورکریں جس کے پاس تھوڑا سا زر ہے اس کی اپنے بچوں کو اعلیٰ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانے پر توجہ زیادہ ہے۔ ہماری مجبوری ہے کہ کسی نہ کسی طرح سرکاری اسکولوں میں بچوں کو اردو میڈیم تعلیم دلاتے ہیں کیا کریں اتنی دولت نہیں کہ ایسے بڑے اسکولوں میں ان کو پڑھا سکیں جہاں ہزاروں روپے فیس ہو۔ داخلہ فیس علیحدہ اور ستم اس پر یہ کہ جو دو ماہ کی سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں اس کی فیس بھی پہلے سے وصول کرلی جاتی ہے۔ میں نے کہا بچے جن اسکول بسوں میں جاتے ہیں ان کی ماہانہ ادائیگی اپنی جگہ اور پھر وہ بھی سالانہ چھٹیوں کی رقم وصول کرتے ہیں۔ اب تم ہی سوچو ہم جیسے لوگ اگر عام سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں تو ان اسکولوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں!

کہنے لگے آج صبح جب میں اٹھا تو میری زوجہ کہنے لگیں اکثر لوگ گھومنے پھرنے جاتے ہیں اور مہینے میں دو تین بار باہر ہوٹل میں کھاتے ہیں۔ میں ان کی بات سنتا رہا کیونکہ پہلے بھی انھوں نے کہا تھا تب آپ کے کہنے میں ہوٹل گیا تھا بڑی خوش ہوئیں لیکن یہ تم کو معلوم ہے میری محدود آمدنی ہے دو تین ماہ میں تو بیوی بچوں کو ہوٹل لے جاؤں لیکن ہر ماہ ممکن نہیں۔ لیکن اب کیا کروں بچے ہوں یا بیوی وہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر چاہتے ہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو۔ میں نے کہا پہلے بھی ایسی ہی بات ہوئی تھی جس پر آپ اپنے بیوی بچوں پر ناراض ہوئے جو بالکل غلط کیا۔

دیکھو جیسا میں نے پہلے آپ سے کہا کہ بیوی کو علیحدگی میں آپ بتا چکے ہو بلکہ مزید بتا دو کہ میری آمدنی یہ ہے جو تم کو معلوم ہے اتنی آمدنی میں ہم بڑے لوگوں والے کام نہیں کرسکتے۔ تم بچوں کو سمجھا سکتی ہو ہاں کبھی کبھی ضرور جائیں گے۔ پھر آپ ان کو گھمانے پھرانے لے گئے اور رات کو وہاں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ دیکھا آپ نے بچے کس قدر خوش ہوئے۔ میرا آپ سے کہنا بلکہ مشورہ وہی پرانا ہے بلکہ ابھی آپ نے خود کہا آج شام کو بیوی بچوں کو کہیں تفریح کرانے لے جانا ہے۔ آپ صحیح کر رہے ہیں واپسی پر کسی درمیانے ہوٹل میں جاکر کھانا وہیں کھائیں۔ آپ کی بیوی بھی خوش اور بچے بھی۔ مشورہ وہی ہے اور کام بھی وہی کرنا ہے پھر صبح پریشان ہو کر ادھیڑ بن میں پڑ گئے میرے دوست مسکرائے بولے! بس دل ہلکا ہوجاتا ہے اور اس طرح باتیں بھی تم سے کرلیتا ہوں۔

کیا کیا جائے ہمارے حکمران نہیں سوچتے کہ کس کی کیا ضرورتیں ہیں۔ جرائم میں اضافہ اسی لیے ہے کہ نوجوان بیروزگار ہیں کیا کریں وہ برے لڑکوں کے ساتھ برے ہوجاتے ہیں پھر ہم کہتے ہیں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم نے شاید کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ برائی کی وجہ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص چوری کر رہا ہے تو کیوں اگر ان باتوں کو سوچیں اور ان باتوں کو دور کریں جس کے باعث وہ جرائم، چوری، چکاری میں ہیں تو یہ سب ختم ہوجائے گا۔ ملازمت ملے گی، پیٹ بھرکھانا نصیب ہوگا پوری دنیا میں ایسا ہی ہوا جب ان چھوٹے بڑے جرائم کا خاتمہ ہوا آج وہ لوگ ہم سے بہت آگے ہیں۔

ان کے حکمرانوں نے اپنے اوپر نہیں بلکہ اپنی عوام پر توجہ خاص دی۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا۔ بھیک نہیں دی بلکہ سب کو کام پر لگایا۔ انتظامات درست کیے ہیں نرسری سے بچوں پر جدوجہد تعلیم و تربیت کی اپنے ملک و قوم کی حمایت، ایمانداری، قانون کی پاسداری کا درس دیا۔ آج وہ اس پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا اچھا گزر اوقات ہے وہ ہماری طرح ملول نہیں ساری وجہ حکمرانوں پر ہوتی ہے اگر حکمران اپنے عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کریں تو یقینا اچھا نتیجہ آتا ہے۔ ہماری بڑی بدقسمتی ہے جب کبھی جس پر بھروسا کیا اس حکمران نے تعلیم، بجلی، ملازمت، رہائش، شفا خانہ ان پر توجہ نہیں دی۔ وہی پرانے اسکول، پرانے کالج اور پرانے شفا خانے ہیں۔

پرائیویٹ شفا خانوں، پرائیویٹ اسکول و کالج میں اضافہ ضرور ہوا لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ملک کا ہر شخص اتنا مالدار ہے کہ وہ سب پرائیویٹ اسکول و کالج یا شفا خانے استعمال کرسکتا ہے۔ جس طرح آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ اگر ہم پرانی تاریخ کا مطالعہ کریں اور صرف مغلیہ دور میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے غریبوں کو مصروف رکھا ان کو ان کے مطابق ملازمتیں دی گئیں۔ کسانوں کی ہمت افزائی کی گئی۔ کارخانے قائم کیے گئے سب سے زیادہ لوہے کے کارخانے زیادہ تھے تلوار سازی، نیزہ سازی، بلم سازی، تیروں کی بناوٹ اس قدر ہوتی تھی، جہاں سیکڑوں لوگ مصروف رہتے۔ اس کے علاوہ انتظامی امور پر دفاتر قائم کیے، عدالتیں (قاضی) قائم کیا۔ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس زمانے میں سب اچھا تھا اگر کوئی شخص برائی کرتا اور اس کا جرم دنیا کو معلوم ہوجاتا تو اس کو فوری سزا دی جاتی اس طرح مہینوں، سالوں مقدمات نہیں چلتے۔ آخر انھوں نے بھی اتنے بڑے بڑے ملکوں کو چلایا۔ ان کی خوبیوں کا ثبوت برٹش راج ہے جب برطانیہ آیا تو اس نے انھی اداروں کو مزید بڑھایا جو مغلوں نے بنائے تھے۔ مزید اور اچھائیاں ضرور پیدا ہوئیں جو ان کے اختیار میں تھیں۔ ریلوے، سڑکیں، کالج، اسکول، ادارے، ہوائی اڈے وغیرہ یہ برٹش راج میں قائم ہوئے۔ اسلحہ سازی کی فیکٹریاں بنیں پہلے اسلحہ سازی میں تلوار، تیر، نیزہ، بلم بنتے تھے اب جدید اسلحہ بنے لگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔