امن، اب اور ہمیشہ کے لیے

توقیر چغتائی  جمعرات 17 اگست 2017

پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے لیے کام کرنے والے افراد ہمیشہ تنقید کا نشانہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان امن و محبت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ماضی میں مختلف افراد اور تنظیمیں اپنا کردار ادا کرتی رہیں اور اب بھی دونوں ممالک کے امن پسند شہری اس کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لگ بھگ پچیس سال پہلے اس سلسلے میں جو تنظیم وجود میں آئی تھی اُس کا نام ’’ پاکستان انڈیا پیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس سے جڑے بہت سارے نوجوان اب بزرگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے اور عمر رسیدہ افراد نے خاموشی اختیار کر لی، مگر دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور امن و امان کی بحالی ہی ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

امن اور دوستی کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کے تحت ماضی میں دونوں ممالک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں کئی ادبی، سماجی اور ثقافتی پروگرام منعقد کیے گئے جو دونوں اطراف کے شہریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھر پور کوشش تھی ۔ تقسیم کے بعد اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں سے جانے اور وہاں سے آنے والوں کے نہ صرف عزیز اور رشتے دار ایک دوسرے سے بچھڑگئے بلکہ انھیں وہ دھرتی بھی چھوڑنا پڑی جس سے ان کی لاکھوں یادیں وابستہ تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ بہت سارے زخم تو بھرتے چلے گئے، مگر تقسیم کے وقت لاکھوںدلوں پر لگنے والے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ ان ہی زخموں کا مرہم ڈھونڈنے کے لیے دونوں اطراف کے باسیوں کو کبھی کبھی سرحد کے آر پار آنے جانے کے لیے ویزے کی ضرورت پڑتی ہے، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے کے لیے خط لکھنا پڑتا ہے اور آواز سننے کے لیے فون کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ اس تنظیم کے تحت دونوں ممالک کے مختلف شہروں میںجو سیمینار کروائے گئے ان میں یہی تین مسائل سر فہرست تھے۔ بات آگے بڑھی اور دونوں ممالک کے بزرگ شہریوں کوسرحد پر ویزہ دینے کی پالیسی بنائی گئی، مگر اس پر عمل نہ ہو سکا اورتجارت، سیاحت اور مذہبی رسومات کے سلسلے میں اہم مقامات پرزائرین کی آمد و رفت کے لیے بھی ویزے کی بہتری کی تجاویز پر عمل انتہائی محدود رہا۔

1995ء میں پیس اینڈ ڈیموکریسی کے تحت کولکتہ میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کے اہم صحافی،ادیب، شاعر، دانشور، سماجی کارکن اور مزدور رہنما شامل ہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی دوریوں کوکم کرنے کے لیے ایسے تمام حل طلب مسائل کے لیے تجاویز پیش کی گئیں جو اس راہ میں رکاوٹ کا سبب تھے۔بعد میں اس طرح کی کئی مزید اجتماع بھی منعقدہوئے، لیکن چنائی میں ہونے والی کانفرنس کے دوران شہرکی ایک مرکزی شاہراہ پر جب پاکستان کے سابق جنرل نصیر اختر اور بھارت کے ایک ریٹائرڈ فوجی سربراہ نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دونوں ممالک کے عوام کے بہت بڑے جلوس کی قیادت کی تو ایسا لگتا تھا جیسے اس خطے میں امن و امان کی صورت حال کو اب کوئی بھی خراب نہیں کر سکتا۔

اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے شہریوں کی آمد و رفت میں بھی اضافہ ہوا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے واہگہ سے اٹاری کے درمیان ہفتے میں ایک دفعہ سفر کی انتہائی محدود سہولت وسیع ہوتے ہوتے کھوکھرا پار سے موناباؤ تک پہنچ گئی اور لاہور سے دہلی کے درمیان ’’دوستی بس‘‘ نے بھی اپنے سفر کا آغاز کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا عمل شروع ہوا تودونوں ممالک کے درمیان کارگل کی طرح کا کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور پیش آیا جس نے اس عمل کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ ’’پاکستان انڈیا پیپلز فارم‘‘ تو اب فعال نہ رہی یا اسے غیر فعال کر دیا گیا، مگر اس سے تعلق رکھنے والے امن کے کچھ متوالوں نے Peace Now and Forever Campaign کے نام سے ایک دفعہ پھر ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے بنیادی مقاصد تو وہی ہیں جو اس سے قبل ’’پاکستان انڈیا پیپلز فورم‘‘ کے پلیٹ فارم سے سامنے آئے تھے، مگر اس کے ساتھ دونوں ممالک کے مختلف شہروں سے ایک دستخطی مہم کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔کراچی کی سطح پر اس پلیٹ فارم سے دو تین بھر پورپروگرام بھی منعقد ہو چکے ہیں جن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد شامل ہوئے اور بھارت کی بائیس ریاستوں میں بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات ویسے تو ستر سال سے اتنے اچھے نہیں رہے، مگر اتنے خراب شاید ہی کبھی رہے ہوں جیسے اب ہیں۔ان تعلقات کی بہتری کے لیے دونوں اطراف کے کچھ سیاسی، سماجی، ادبی،مذہبی یہاں تک کہ ریٹائرڈ فوجی بھی اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایسے بے شمار افراد بھی موجودہیں جنھوں نے اس عمل کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔

بھارت میں موجودہ حکومت بننے کے بعد وہاں کے وزیر اعظم نے پاکستان کا اچانک دورہ کیا تو دونوں ممالک کے افراد کو یہ محسوس ہوا کہ اب سرحدوں پر چھائی ہوئی کشیدگی کے ساتھ دوسرے مسائل حل ہونے کا وقت بھی قریب آ چکا ہے لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کی طرف چلے گئے۔ بھارت نے سی پیک منصوبے کی مخالفت کی تھی اور امریکا کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ بعد کی صورتحال میںبھارتی حکومت کے رویے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو جو نقصان پہنچایا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان جب تک بات چیت کا سلسلہ بحال نہیں ہوتا تب تک مسائل کا حل ناممکن ہے اور سترسال سے جاری کشیدگی بھی اسی طرح برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔ اگر دونوں ممالک کا کوئی بھی شہری یہ سمجھتا ہے کہ جنگ کے ذریعے سارے مسائل حل ہو جائیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے اس لیے کہ اب اگر جنگ ہوئی تو وہ روایتی نہیں رہے گی بلکہ ہمارے خطے کے ساتھ پوری دنیا بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف دیے جانے والے بیانات اور سرحدوں پر ہونے والی کشیدگی کے دوران اگر کوئی پاکستانی یا بھارتی کسی بھی پلیٹ فارم سے دونوں ممالک کے بہتر تعلقات کی بحالی اور امن و امان کے لیے اپنی آواز بلند کرتا ہے یا کوئی تنظیم امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے میدان میں آتی ہے تو اسے ایک قابل تحسین عمل سمجھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔