شہد کی مکھیاں۔۔۔۔چوروں کے نشانے پر!

ندیم سبحان میو  جمعرات 17 اگست 2017
امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں منظم گروہ وارداتیں کرنے لگے  ۔  فوٹو : فائل

امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں منظم گروہ وارداتیں کرنے لگے ۔ فوٹو : فائل

رب کائنات کی عطاکردہ نعمتوں میں سے شہد ایک بیش بہا نعمت ہے۔ شہد کی مکھیوں سے حاصل ہونے والا یہ قدرتی مرکب متعدد امراض سے نجات کا وسیلہ ہے۔ ادویہ سازی کے علاوہ اسے کھانوں خصوصاً میٹھے پکوانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شہد کی مکھیاں عموماً درختوں کے تنوں اور شاخوں پر اپنا ٹھکانہ یعنی چھتّا بناتی ہیں۔ شہد تیار ہونے پر ماہر افراد چھتّا توڑ کر یہ صحت بخش مشروب نکال لیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں قدرتی طور پر لگنے والے چھتوں سے حاصل کردہ شہد ہی استعمال ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے شہد کی طلب بڑھی تو نحل پروری کا شعبہ وجود میں آگیا، یعنی شہد کی مکھیوں کی پرورش کرکے انھیں شہد کے چھتّے بنانے پر ’ مجبور‘ کیا جانے لگا۔

نحل پروری رفتہ رفتہ ایک عالمی صنعت کی صورت اختیار کرگئی جس کا حجم اب اربوں ڈالر پر محیط ہے۔آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ شہد کی طلب بڑھتی جارہی ہے مگر اس کی رسد تنزلی کا شکار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں کی آبادی گھٹتی جارہی ہے۔ ہنوز اس کی وجوہات کا تعین نہیں کیا جاسکا، مگر مکھیوں کی کم ہوتی تعداد شہد کی صنعت کے لیے ایک تشویش ناک بات ہے۔ تجارتی اصول ہے کہ جس شے کی رسد گھٹنے لگے وہ مہنگی ہوجاتی ہے۔ چناں چہ شہد کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں۔ 2005ء میں امریکا میں فی پونڈ شہد کی قیمت فروخت پونے دو ڈالر تھی جو 2015ء کے اختتام تک چار ڈالر فی پونڈ سے اوپر پہنچ چکی تھی۔ امریکا کی طرح دنیا بھر میں شہد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں شہد کے نرخ امریکا سے بھی زیادہ بڑھے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں شہد کی خریدو فروخت کے کاروبار کو گولڈ رش کی مناسبت سے ’ ہنی رش‘ کہا جانے لگا ہے۔

جو شے جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی چوری کے خطرات بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکا، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور دوسرے ممالک میں شہد کی مکھیاں چُرانے کے واقعات تیزی سے رونما ہورہے ہیں ! نحل پروری سے وابستہ لوگوں نے اپنے ’ بی فارمز‘ کی حفاظت کے لیے باقاعدہ مسلح محفاظ رکھ لیے ہیں، اس کے باوجود چوری کی وارداتیں تسلسل سے ہورہی ہیں۔

برطانیہ کی تاریخ میں شہد کی مکھیوں کی چوری کا سب سے بڑا واقعہ حال ہی میں رونما ہوا ہے جس میں چالیس ہزار مکھیاں چھتے سمیت چُرا لی گئیں۔ یہ واقعہ ویلز کے شمال مغرب میں واقع جزیرہ انگلسی میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق یہ واردات منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی تھی اور نقب زن پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے، کیوں کہ اتنے بڑے چھتے کو مکھیوں سمیت لے کر چلے جانا آسان کام نہیں۔ برٹش بی کیپر ایسوسی ایشن کی ترجمان نے اس واقعے کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس تاریخی واردات کے مرتکب افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ ایسوسی ایشن کی ترجمان ڈیانا رابرٹس کے مطابق اس نوع کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں کیوں کہ ایک چھوٹا چھتا چند سو مکھیوں سمیت دوسو پاؤنڈ میں فروخت ہوجاتا ہے۔ چھتا جتنا بڑا ہوگا، قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ ڈیانا کے مطابق چُرائے گئے چھتے کی قیمت چار ہزار پاؤنڈ سے کم نہیں۔ انگلسی میں کچھ عرصہ قبل بھی شہد کی مکھیوں کی چوری کی ایک بڑی واردات ہوئی تھی جس میں نقب زن چوبیس ہزار مکھیاں چھتے سمیت چرا لے گئے تھے۔ پولیس اس واردات کے ذمہ داران کا بھی سراغ نہیں لگا سکی تھی۔

امریکا میں صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہے، جہاں نقب زن شہد کے پیداواری فارمز کو اکثر نشانہ بناتے ہیں۔ وہاں یہ کام منظم گروہ انجام دیتے ہیں۔ مسروقہ مکھیوں کو شہد کی پیداوار کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں کیلے فورنیا میں باداموں اور کینو کے باغات کے مالکان کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں زیرگی ( پولی نیشن) کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ رَس چُوسنے کے لیے یہ ایک پھول سے اُڑ کر دوسرے پر بیٹھتی ہیں تو زردانوں کی منتقلی عمل میں آتی ہے جس کے نتیجے میں پھول مرحلہ وار پھل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی قلت کی وجہ سے کیلے فورنیا میں بادام اور کینو کی فصل کئی سال سے شدید متأثر ہورہی ہے۔ چناں چہ مالکان منھ مانگے داموں مکھیاں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

شہد کی مکھیاں چرانے والے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف پولیس بھی سرگرم ہے، اور اب تک ان کے خلاف کئی کام یاب کارروائیاں کرچکی ہے۔ کیلے فورنیا کے شمالی حصے میں واقع فریسنو کاؤنٹی میں ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران سال رواں کے اوائل میں بڑی تعداد میں مکھیاں اور چھتے برآمد کیے گئے تھے جن کی کم از کم مالیت دس لاکھ ڈالر تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔