پاکستان کے اصل مجرم سیاستدان ہیں ، ڈاکٹر خلیل احمد

حسان خالد  جمعرات 17 اگست 2017
نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، دانشور اور مصنف ڈاکٹر خلیل احمد کے خیالات  ۔ فوٹو : فائل

نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، دانشور اور مصنف ڈاکٹر خلیل احمد کے خیالات ۔ فوٹو : فائل

ہمارے ہاں سیاسی انتشار نے فکری پراگندگی کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر یک رخے، بے مغز سیاسی مباحث اور ردعمل کی نفسیات کی وجہ سے پریشان خیالی عام ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت یا نقطہ نظر سے غیر مشروط اور غیر منطقی وابستگی اپنے طرز فکر پر نظرثانی کی گنجائش ختم کر دیتی ہے۔

اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ صورتحال جوں کی توں رہتی ہے، اصل ایشوز نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور اصلاح احوال کے لیے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ موجودہ صورتحال کے تجزیے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے تعین کے لیے ان بنیادی سوالات پر غور کرنا ضروری ہے: سوسائٹی اور ریاست کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا کسی ریاستی ادارے کو لامحدود اختیار حاصل ہے؟ ریاست کی بنیادی ذمہ داری کیا ہے اور کیا وہ اپنا فرض ادا کر رہی ہے؟ سیاسی جماعت کی تعریف کیا ہے؟ صورتحال کی خرابی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اور حالات میں کیسے بہتری آ سکتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو بلندآہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں، وہ ان سوالات کا جواب پیش کرنے کے بجائے کنفیوژن میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کا بیانیہ آپ کے ذہن میں جنم لینے والے سوالات کا قابل قبول حل تلاش کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔ فلسفہ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ڈاکٹر خلیل احمد نے اپنی کتابوں اورمضامین کے ذریعے ریاست اور سیاست کے باب میں ان سوالات پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے اور اس ضمن میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی کنفیوژن کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر خلیل احمد لاہور کے ایک متوسط گھرانے میں 1958ء میں پیدا ہوئے۔ محدود وسائل کے باوجود یہ خاندان قناعت پسندی سے ہنسی خوشی گزر بسر کرتا تھا۔ اسٹینڈرڈ اسلامیہ ہائی سکول سے پانچویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گڑھی شاہو میں واقع پاکستان ریلوے کے سکول میں داخلہ لے لیا۔ میٹرک میں اچھے نمبر آئے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ یہاں انہیں مختلف الخیال لوگوں سے ملنے، سیکھنے کا موقع ملا اور ان کی زندگی کی سمت واضح ہوتی گئی۔ مطالعے کا انہیں بچپن سے ہی شوق تھا، گھر میں دوسری کتب کے علاوہ اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ باقاعدگی سے آتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس زمانے میں اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ سے میری فکری اور ادبی تربیت ہوئی۔

ان کا معیار ان دنوں بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔‘‘گورنمنٹ کالج میں ان کی دوستی پڑھنے لکھنے والے لڑکوں سے ہو گئی اور انہوں نے مل کر ’’نئے افق‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی۔ وہ گروپ کے ایک سینئر لخت پاشا سے بہت متاثر تھے، جس نے انہیں مارکسسٹ بنا دیا۔ مارکسسٹ لٹریچر پڑھا تو سیاست میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ بعدازاں پرائیویٹ بی اے کیا اور اس میں اکنامکس کا مضمون پڑھا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنا چاہتے تھے لیکن اس میں میرٹ پر نام نہ آیا تو فلاسفی میں داخلہ لے لیا۔شعبہ فلسفہ میں وہ ڈاکٹر ساجد علی سے متاثر ہوئے جو مسلم فلاسفی پڑھاتے تھے۔اس دوران انہوں نے مارکس اور اینگلز کا سارا لٹریچر پڑھ لیا تھا، جبکہ ماؤ اور اسٹالن کو بھی پڑھا۔ڈاکٹر ساجد علی نے سر کارل پوپر سے متعارف کرایا تو اس کا مطالعہ کیا، جس کی وجہ سے وہ مارکسزم کے سحر سے باہر آ کے عقلیت پسند بن گئے۔فلسفی اور ماہر اقتصادیات فریڈرک ہائیک کی فکر نے بھی انہیں متاثر کیا۔

ایم اے کے بعد انہیں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی ملازمت ملی جو ان کے مزاج کے خلاف تھی۔ دو ڈھائی سال بعد تحصیل کہوٹہ میں واقع کلرسیداں کالج سے بطور لیکچرار فلسفہ وابستہ ہو گئے۔ بعدازاں انہوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ سات سال اپنے آبائی شہر سے باہر گزارنے کے بعد 1995ء میں ایجوکیشن کالج لاہورسے منسلک ہو گئے، جو آگے چل کر ایجوکیشن یونیورسٹی بنا۔ اس عرصہ میں ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔

2007ء میں ریٹائرمنٹ لے کر کل وقتی خدمات اپنے قائم کیے ہوئے تھنک ٹینک ’’آلٹرنیٹو سالوشنز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے لیے وقف کر دیں۔ ڈاکٹر خلیل احمد کے بقول، ’’اس تھنک ٹینک کا فوکس یہ تھا کہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق، لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی پر حکومتوں کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ مارکیٹ فلاسفی کو بھی پروموٹ کرنے کے لیے یہ پہلا تھنک ٹینک تھا پاکستان میں۔‘‘ اب انہوں نے اپنے آپ کو تھنک ٹینک سے مکمل طور پر الگ کر کے اپنی توجہ لکھنے پڑھنے پر مرکوز کر لی ہے۔ پاکستان کی ریاست، سیاست اور معیشت کے موضوعات پر انہوں نے نصف درجن کے قریب کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے ہیں۔

ڈاکٹر خلیل احمد کے بقول، ’’سوسائٹی ایک بہت بڑا دائرہ ہے جس میں ریاست کا کردار محدود ہوتا ہے۔ہمارے ہاں ریاست غلط مداخلت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بھٹو کی نیشنلائزیشن نے پوری ریاست کے نظام کو تلپٹ کر دیا۔ صنعتوں اور مالیاتی اداروں کے علاوہ سکولوں تک کی بھی نیشنلائزیشن کر دی گئی۔ دراصل یہ سماجی اور اخلاقی اقدار کی نیشنلائزیشن تھی۔ گویا ریاست نے سوسائٹی پر قبضہ کر لیا۔سوسائٹی ریاست سے بڑی چیز ہوتی ہے۔ ریاست کا پہلا کام لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی آفت آ جاتی ہے تو ریاست اس کی روک تھام اور بچاؤ کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔‘‘ ملکی حالات میں خرابی کے اصل ذمہ داروں کا تعین بہت ضروری ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر خلیل احمد کہتے ہیں، ’’آئین اور قانون کے مطابق یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری اوراختیار ہے کہ وہ پالیساں بنائیں اور عملدرآمد کریں۔ اگر وہ یہ نہیں کرتے تو یہ ان کی اپنی ناکامی بلکہ جرم ہے اور خرابی کا ذمہ دار بھی سیاست دانوں کوٹھہرایا جائے گا۔ ہماری ہاں یہ نیریٹو غالب ہے کہ سویلین کو کچھ کرنے نہیں دیا جاتا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سیاستدانوں کی ناکامی ہے اور انہیں چار سال اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے اور شروع میں ہی مستعفی ہوکر عوام کے پاس چلے جانا چاہیے۔ جب اختیار دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ذمہ داری اور جواب دہی بھی آئے گی۔ اس کا مطلب ہے اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے جن کو قانونی یا آئینی طور پر اختیار دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اصل مجرم سیاستدان ہیں۔‘‘

مارشل لاء ادوار کے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا، ’’ایک طرف فوجی حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور دوسری طرف دلیل دی جاتی ہے کہ سیاستدان اگر گڈگورننس کریں تو فوج کو مداخلت کرنے کا شاید موقع نہ ملے۔ میرے نزدیک دونوں دلیلیں غلط ہیں۔ اگر مارشل لاء لگتا ہے اس مارشل لاء کو پارلیمان میں یا پارلیمان سے باہر کون تحفظ دیتا ہے۔ یہی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ہر پارٹی نے کسی نہ کسی مارشل لاء کی حمایت کی۔ ان کے مختلف حصے بن جاتے ہیں۔‘‘ سیاسی جماعت کی تعریف کیا ہے؟ ڈاکٹر خلیل احمد کے مطابق، ’’سیاسی جماعت کا تھوڑا سا اونچا معیار ہوتا ہے کہ وہ پارٹی جو ملک کوسیاسی ارتقا کی طرف لے جائے۔ کوئی پارٹی کبھی تو سیاسی پارٹی کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے اور کبھی نہیں کر رہی ہوتی۔ اس کی مثال دیتا ہوں، نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن عدالتی فیصلے کے خلاف مہم چلا کے ایک فاشسٹ پارٹی کا کردار ادا کر رہی ہے۔سیاسی جماعتوں نے کبھی اداروں کو مضبوط نہیں کیا۔ بلکہ جو ادارے ہیں ان کوتباہ کیا ہے۔‘‘

وہ سمجھتے ہیں، ’’سویلین حکومت کو صرف خارجہ یا دفاع کی پالیسی ہی نہیں بلکہ جتنی بھی پالیسیز ہیں: میٹرو، اورنج ٹرین اور بجلی کے منصوبے، یہ سیاستدان اپنی کچن کیبنٹ میں بیٹھ کے طے نہ کیا کریں۔ بلکہ ان کو باہر لائیں۔ اوپن کریں ہر چیز کو۔ یہ ریاست ملک کے ٹیکس کے پیسے سے چل رہی ہے، اس کے معاملات ٹرانسپیرنٹ ہونے چاہئیں۔ ایشوز کو اسمبلی میں لایا جائے۔ جیسے یمن فوج بھیجنے کا معاملہ پارلیمنٹ لایا گیا تو اس کا نتیجہ ہم نے دیکھا۔ ہمیں اس فیصلے سے طاقت ملی اور پتا چلا کہ یہاں فیصلے کسی ایک فرد کے حکم پر نہیں ہوتے ، ایسا سب معاملات میں  ہوناچاہیے۔ ایک تصور ہے کہ ہمارے سیاستدان جاہل ہیں، ان کو کچھ نہیں آتا۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ عقل سمجھ سب میں ہوتی ہے۔

تعلیم سے عقل ہمارے ہاں کم ہی آتی ہے بلکہ زیادہ تر چلی جاتی ہے۔ لیکن حکومت جو بنتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ ہم کچن کیبنٹ میں بیٹھ کر ہی سب چیزیں کر لیں گے جو بالکل غلط ہے۔ سب چیزوں کو اوپن کریں، پارلیمنٹ میں بحث کریں اور لوگوں کی آرا ء کو اس میں شامل کریں۔ اورنج ٹرین کے خلاف سول سوسائٹی کی تنظیم نے ایک اجلاس میں اپوزیشن لیڈر محمود الرشید اور ق لیگ کے نمائندے کو بلا کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا، لیکن کسی نے بھی اسمبلی میں جا کے یہ بات نہیں کی۔ وہ اس پوزیشن پر بیٹھے ہیں کہ اس مسئلے کو اسمبلی میں لائیں۔ ‘‘

ڈاکٹر خلیل احمد ایک سیاسی جماعت قائم کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں، جس کا مقصد ان کے نقطہ نظر کو سیاسی نقطہ نظر میں کنورٹ کرنا ہے۔ کہتے ہیں، ’’پاکستان کی سیاست بہت عجیب و غریب ہو چکی ہے۔ ہم اس طرح کی سیاست کر سکتے ہیں، ناں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک طرح سے جو سیاسی نظریات کی جنگ ہے اس طرف آنا چاہیں گے۔‘‘ ان کی کتاب ’’عمرانی معاہدے کی تشکیل نو‘‘ زیر طبع ہے جو آئندہ چند دنوں میں دستیاب ہو گی۔ان کے مطابق، ’’نئے مجوزہ عمرانی معاہدے کی بنیاد پر جو آئین بنے گا اور ریاست تشکیل پائے گی، وہ لوگوں کی ریاست ہو گی ان پر حاوی ریاست نہیں ہوگی۔اس میں قانون سازی اور ٹیکس لگانے کے لیے پہلے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا۔اس طرح پابند کرنے سے اختیار خود بخود محدود ہو جائے گا اور کرپشن کا امکان بھی کم ہو جائے گا۔‘‘ وہ پاکستان کو کسی اور معاشرے کی نقل نہیں بناناچاہتے۔ ان کا نقطہ نظر ہے، ’’پاکستان کی ریاست کیسی ہونی چاہیے، میرے سامنے ویلیوز ہیں۔ ملک جو ہیںوہ اقدار پر بنتے اور چلتے ہیں۔ امریکہ کی کچھ ویلیوز ہیں اگرچہ ان پر عمل نہیں ہو رہا اس طرح، لیکن یہ ان کا مسئلہ ہے۔

پاکستان کی کچھ ویلیوز بننی چاہئیں۔ جن کی وجہ سے ملک کو پہچانا جائے۔ دہشت گردی یا کرپشن ہماری پہچان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ کچھ مثبت اقدار ہونی چاہئیں۔ ہم جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں وہ بتدریج اور پرامن ہونی چاہیے۔ اس میں ریاست کا بہت زیادہ دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست اپنی پالیسی میں لوگوں کی رائے کو شامل کرے جس سے انہیں پتا چلے کہ ان کی اپنی ریاست ہے اور باہر سے آ کے قابض نہیں ہوئی۔ ہمیں اپنا مقامی ماڈل بنانا چاہیے، اپنی ویلیوز اورروایات کے مطابق۔ کوئی بھی تبدیلی ریاست اچانک لا سکتی ہے، لیکن وہ پائیدار تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہاں راتوں رات فیصلے کر دیے جاتے ہیں یہ کرلو وہ کر لو۔ لیکن اس سے خرابی آتی ہے۔‘‘

کتابوں کا اجمالی تعارف
جب وکلاء تحریک چل رہی تھی تو میں نے مختلف اخبارات میں مضامین لکھے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی تحریک تھی قانون کی حکمرانی کے لیے، جس کو ابھی اس طرح سے اسٹڈی نہیں کیا گیا۔ پھر یہ مضامین اکٹھے کر کے کتاب چھپوائی “Greatest Battle for rule of law in Pakistan” 2006ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے اور میں نے اس کا مطالعہ کیا تو اس میں بنیادی حقوق کا ذکر ہی نہیں تھا۔ پھر میں نے ’’چارٹر آف لبرٹی‘‘ لکھا، میثاق جمہوریت کو آدھا سچ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اس میں شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کی بات نہیں کی گئی۔ کتاب ’’پاکستانی کی ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ریاستی اشرافیہ نے پاکستانی سیاست اور وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور آئین سمیت سب چیزوں کو وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ’’ریاستی اشرافیہ‘‘ کی اصطلاح اچانک ایک دن میرے ذہن میں آئی جو ساری صورتحال کو واضح کرتی ہے۔

ریاستی اشرافیہ کیا ہے، اس نے ریاست پر کیسے قبضہ کیا، ہم ان سے جان چھڑا کر قانون کی حکمرانی کیسے قائم کر سکتے ہیں، کتاب میں ان سوالات پر بحث کی گئی ہے۔ میری کتابوں میں میرا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ صرف مسئلے کا تجزیہ نہیں کرنا بلکہ اس کا حل بھی پیش کرنا ہے۔کتاب “Pakistan’s Democratic Impasse” میں ان وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ڈیلور کیوں نہیں کرتی اور یہاں لوگوں کو بنیادی حقوق کیوں نہیں ملتے، جمہوریت ایک جگہ آ کے رک کیوں گئی ہے آگے کیوں نہیں بڑھتی۔

’’پاکستانی کشاکش‘‘ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک ریاست ہے اور دوسری طرف ایسے گروہ ہیں جو ریاست سے کھینچا تانی، ریاست پر قبضہ کرنے یا اسے ریپلیس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئین میں لکھا ہے کہ ریاست کا بنیادی فرض لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ہے۔ صرف یہی نہیںکہ ریاست ان کو تحفظ نہیں دیتی بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہو جاتی ہے جو شاید ان کے جان و مال اور حقوق کے دشمن ہیں۔پھر مجھے دہشت گردی کی سمجھ آئی کہ یہ ریاست کی مجرمانہ غفلت اور جرم ہے کہ اس نے ایسے گروہوں کو پنپنے دیا۔اس مسئلے کا حل یہ بتایا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو ترجیح دینے کے یک نکاتی نکتے پر متفق ہونا چاہیے، باقی تمام چیزیں اس کے بعد آتی ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اس نقطہ نظر کو نہیں اپناتیں تو پھر نئی جماعت آنی چاہیے جس کا بنیادی ایجنڈا ہی لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی ہو۔ ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست‘‘ میں مختلف جماعتوں کے کردار اور چند مغالطوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

 نیک حکمران اور حالات کی بہتری؟
ہمارے ملک میں یہ بہت بڑا سیاسی مغالطہ ہے کہ کوئی ایک نیک حکمران آئے گا اور وہ سب کچھ تبدیل کردے گا۔ آپ نیک حکمران کا معیار کیا بنائیں گے؟ جنرل ضیاء کے دور میں ممبران پارلیمنٹ کی اہلیت کے متعلق 62 اور 63 کی جو شقیں شامل کی گئیں، اب ان کے حق میں بھی اور خلاف بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ پھر فرض کریں، ایک نیک آدمی مل بھی جائے جس پر سب جماعتیں اور لوگ متفق بھی ہوں تو یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ وہ اقتدار میں آ کر بھی نیک ہی رہے گا۔ ایک چیز ہم سب جانتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کر دیتی ہے۔ جب آپ کسی کو لامحدود اختیار دیتے ہیں تو خرابی شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی اختیار ہر کسی کو محدود دیا جائے۔ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سمیت مختلف فورمز پر بحث ہونی چاہیے۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کے لیے لوگوں سے رائے لینی چاہیے۔ اداروں کے در میان اختیارات کی تقسیم کا خیال رکھنا چاہیے اورکسی ادارے کو بھی دوسرے ادارے پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔