افغانستان تنازع کے سیاسی حل کی ضرورت

ایڈیٹوریل  جمعـء 18 اگست 2017
بلاشبہ افغان صورتحال سنجیدہ داخلی اور عالمی اقدامات کی متقاضی ہے ۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ افغان صورتحال سنجیدہ داخلی اور عالمی اقدامات کی متقاضی ہے ۔ فوٹو: فائل

خطے کی مجموعی صورتحال یوں بھی قابل رشک نہیں تاہم اس کی تزویراتی جدلیات اور اب تک وہاں امن واستحکام کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو بات اس نقطہ پر آکر رک جاتی ہے کہ مستقبل کا افغانستان کیسا ہو گا، اسے شورش ، داخلی بدامنی، کرپشن کی شکایات، انتظامی شکست و ریخت ، وار لارڈز کی چیرہ دستیوں، عوام کی بد حالی ، افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی میں تاخیر سے پیدا ہونے والے انسانی مسائل کون حل کرے گا؟ افغان حکام کی مسلسل الزام تراشیوں سے بھی امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کا جو اہم اجلاس منعقد ہوا وہ بادی النظر میں ان ہی اندیشوں، مشکلات، مصائب اور بحران سے منسلک ایک ناگزیر تشویش اور انتباہ ہے جس میں پاکستان کی اس خواہش کی جھلک ملتی ہے کہ افغان حکام حقائق کا درست ادراک کریں، دہشتگردی کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے موثر اور ٹھوس کارروائی کریں جس کے نتیجہ میں دہشتگردوں کی مکمل حوصلہ شکنی ہو، ان کی پذیرائی اور سرپرستی کا سلسلہ منقطع ہو ۔ ذرایع کے مطابق کمیٹی نے افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کی پالیسی پر گامزن رہنے کے عزم کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا کہ افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان آمد اور سرحد پار فائرنگ بند ہونی چاہیے۔

کمیٹی نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فورسز کی فائرنگ کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے قراردیا کہ علاقائی امن اور استحکام جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل سے مشروط ہے، قومی سلامتی کی کمیٹی نے متفقہ طور پر آپریشن ردالفساد اورآپریشن خیبر فور سمیت انسداد دہشتگردی کے تمام آپریشنزمیں حاصل ہونے والی کامیابیوں پراظہار اطمینان کیا ، اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر خارجہ خواجہ آصف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔

شرکاء نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے افغانوں پر مشتمل اور ان کی قیادت میں امن عمل کی حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے افغان عوام اور حکومت کے ساتھ ہر سطح پر مل کر تمام رکاوٹوں بشمول باربار سرحد پار فائرنگ اور افغانستان میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث نیٹ ورکس کے خاتمے کا عزم کیا۔ آن لائن کے مطابق اجلاس میں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے دورہ افغانستان پر بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ افغان حکومت کو پاکستان کے دوٹوک موقف سے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے ہر قسم کے مصالحتی عمل کے لیے تیار ہے لیکن اس میں افغانستان کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔

قبل ازیں پاکستان اور افغانستان نے دہشتگردی کے مشترکہ چیلنج سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی سطح پرتعاون مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ محمد نفیس ذکریا کے مطابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اپنے افغان ہم منصب ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کے ساتھ دوطرفہ سیاسی مشاورت کے لیے کابل کا دورہ کیا تھا، تہمینہ جنجوعہ نے کہا افغان تنازع کے سیاسی حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیکریٹری خارجہ نے بارڈرمینجمنٹ مضبوط کرنے اور افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کی ضرورت پر زوردیا ، یہ بات خوش آیند ہے کہ اسی روز سے وزارت سیفران نے ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کے لیے افغان سٹیزن کارڈ کے اندراج کا عمل شروع کر دیا ، اس سے قبل اسلام آباد اور نوشہرہ میں پائلٹ پروجیکٹ کے تحت 4ہزار 920 افراد نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا، افغان سٹیزن کارڈ کے اندراج کے لیے ملک بھر میں 21مراکز قائم کیے گئے۔

جن میں5 بلوچستان، 11خیبرپختونخوا ،3 پنجاب، ایک کراچی اور ایک اسلام آباد میں ہے، یہ مراکز رواں برس31 دسمبر تک کام کریں گے کیونکہ31 دسمبر ہی افغان باشندوں کی پاکستان سے وطن واپسی کی حتمی ڈیڈ لائن ہے، یاد رہے رواں برس اپریل سے اگست تک 4 ماہ میں 45 ہزار رجسٹرڈ مہاجرین اپنے وطن (افغانستان) واپس لوٹ چکے، پاکستان میں تقریباً 14 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ افغان مہاجرین کو جو اپنے وطن جانے کی جو ڈیڈ لائن دی گئی ہے اس میں کسی قسم کی توسیع نہ ہو اور اس ضمن میں کسی قسم کے سیاسی دباؤ کو  خاطر میں نہ لایا جائے۔

خطے میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ،چنانچہ اس کی تصدیق امریکی فوج کی مرکزی کمان کے کمانڈنگ جنرل لیفٹیننٹ جنرل مائیکل گیریٹ نے کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں اہم اتحادی ہے ، لیفٹیننٹ جنرل مائیکل گیریٹ کی قیادت میں 6 رکنی وفدنے پاکستان کا 3روزہ دورہ کیا ہے، ان کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے، اسلام آباد میں قیام کے دوران جنرل گیریٹ اور ان کے وفد نے جی ایچ کیو میں پاک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف، ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے ملاقاتیں کیں، حکام سے پاکستان اور امریکا کے درمیان آپریشنز، ٹریننگ اور عسکری تعاون کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا، جنرل گیریٹ نے ضلع پبی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم ٹریننگ سینٹر پنجاب کا بھی دورہ کیا جہاں وفد کو دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجیوں کی تربیت سے متعلق کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ جنرل گیریٹ کا یہ دورہ دونوں ملکوں اور ان کی افواج کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کڑی ثابت ہوگا ،ان کے بقول ہمارا یہ اشتراک اس خطے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

بلاشبہ افغان صورتحال سنجیدہ داخلی اور عالمی اقدامات کی متقاضی ہے، افغان سرزمین کو کئی مسلح گروپ اور جہادی لشکروں نے اپنا نشیمن بنا لیا ہے، بھارت کے قونصل خانے رات دن پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سرگرم ہیں، بلوچستان میں مداخلت اور دہشتگردی کے لیے براہ راست افغان زمین استعمال ہورہی ہے،مگر افغان حکام اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے، جب کہ دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ، طالبان،داعش ، ازبک مجاہدین اور آئی ایس صوبہ خورستان کی سرگرمیوں کا مرکز بدامنی کا شکار افغانستان ہے ، اس لیے صدر غنی اور دیگر عالمی قوتوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان کی بنیادی تشویش ان دہشتگردوں کی کارروائیوں سے متعلق ہے جن میں پاکستان سے مفرور طالبان کمانڈرز ملوث ہیں، افغانستان کو انھیں فی الفور روکنا چاہیے۔ پاکستان پر امن افغانستان کے لیے خطے کا واحد فرنٹ لائن ملک ہے جو دہشتگردی کا کثیر جہتی ٹارگٹ بنا ہوا ہے اور پھر بھی اخلاص نیت سے افغان کاز کی بھرپور حمایت کرتا ہے ۔افغانستان کو پاکستان کی خیر سگالی کا مسکت جواب دینا چاہیے، اسی میں خطے کی بقا اور امن و سلامتی مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔