بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار

کلدیپ نئیر  جمعـء 18 اگست 2017

سبکدوش ہونے والے نائب صدر مملکت حامد انصاری نے اپنے الوداعی پیغام میں کہا ہے کہ ’’مسلمان اس ملک میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے‘‘، بجائے اس کے کہ ان کی بات پر اپنے اندر جھانک کر دیکھا جاتا، آر ایس ایس اور بی جے پی نے سابق نائب صدر کی مذمت کرنا شروع کر دی۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ گزرے کہ ان کو اس ملک میں ہجرت کر لینی چاہیے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

سب سے بے رحم تبصرہ وزیراعظم نریندر مودی نے کیا اور کہا کہ انصاری کو اب اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا چاہیے۔ اعلیٰ مناصب پر فائز بعض دیگر شخصیات نے بھی اسی قسم کے تبصرے کیے۔ ہندو لیڈروں کی ایک انتہائی قلیل تعداد نے اس حوالے سے مسلمانوں کے خوف کو کم کرنے کے لیے کوئی بات نہ کی۔ یہ درست ہے کہ سابق نائب صدر کو یہ بات اس وقت کہنی چاہیے تھی جب وہ اپنے منصب پر برقرار تھے اور ساتھ ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ لیکن اس صورت میں کوئی آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا جس کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی ضرورت پڑتی تب پورا ملک شکوک و شبہات میں گھر سکتا تھا۔

اکثریتی کمیونٹی کو یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان لیڈر اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے بارے میں اس قدر تحفظات کا آخر کیوں شکار ہے جس کا ذکر وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے وقت ضرور کرتے ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ انصاری اپنی پسند کے کسی اور ملک میں چلے جائیں ان کے شکوے کا صحیح جواب نہیں۔ انصاری کے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ بذات خود محفوظ نہیں بلکہ سبکدوش ہونے والے نائب صدر مسلمان برادری کے خوف اور ڈر کا ذکر کر رہے تھے۔

ایسی صورت میں انصاری پر ذاتی حملے کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ سرکاری رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے کہ سبکدوش ہونیوالے نائب صدر کی مذکورہ باتوں کا اصل مقصد کیا تھا اور حکام کو اپنے طرز عمل میں ایسی اصلاح کرنی چاہیے جس سے مسلمانوں کے خوف اور ڈر پر قابو پایا جا سکے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے مبینہ طور پر انصاری کے نکتہ نظر کی توثیق کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ بھارت میں خوش نہیں ہیں تو پھر انھیں کہیں اور چلے جانا چاہیے۔

ایک اہم تنظیم کے سربراہ ہونے کے ناطے بھگوت کے ریمارکس کی خاص اہمیت ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاملے کو ہندو مسلم اختلافات کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انصاری کا تبصرہ پبلک پراپرٹی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ بات ملک کے نائب صدر نے کی ہے لہٰذا یہ لازمی ہے کہ اس پر ہر فورم میں بحث ہونی چاہیے بشمول پارلیمنٹ کے۔ مرکزی حکومت نے ماضی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مسلمانوں کے محسوسات کیا ہیں۔ اس کمیشن کا سربراہ جسٹس راجندر سچر کو بنایا گیا تھا۔

انھوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلمان کے ساتھ دلت سے بھی زیادہ برا سلوک ہوتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مغربی بنگال جہاں پر تین دہائیوں سے  کمیونسٹ حکومت قائم تھی وہاں پر تعلیم یافتہ مسلمانوں کی شرح صرف ڈھائی فیصد تک ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک اور کمیشن قائم کیا جائے جو یہ دیکھے کہ جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ کے بعد حالات میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی مسلمان لیڈروں کے ریمارکس ایسے ہی رہے ہیں۔

بعض دیگر ممتاز شخصیات نے بھی ان باتوں میں شمولیت اختیار کی‘ مثال کے طور پر فلم اسٹار عامر خان نے دو سال پہلے سیاست دانوں کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بیوی کرن راؤ کے خوف کا ذکر کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ بھارت میں عدم برداشت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

عامر خان کے بیان کے بعد میں نے اس کے گھر جا کر اس کی بیوی کرن سے بات چیت کی جس میں اس نے کہا تھا کیا ہم بھارت چھوڑ کر باہر چلے جائیں؟ کرن کا یہ کہنا بہت پریشان کن تھا اس کو اپنی اولاد کے بارے میں خوف اور ڈر تھا کہ ہمارے ارد گرد جو حالات بن رہے ہیں اس سے ہمارا کیا ہو گا۔ اسے اپنے بچے کے بارے میں خوف تھا۔ ہر روز اخبار دیکھ کر اس کے خوف میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس کو ڈر تھا کہ ہمارے ارد گرد کس قسم کا ماحول بن رہا ہے۔ اسے اخبار کھول کر دیکھنے سے بھی ڈر لگتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ناامیدی اور اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے کیوں ہو رہا ہے جس سے آپ کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔

عامر خان ایک تقریب انعامات میں تقریر کر رہا تھا جس میں اس نے کہا کہ بہت سارے مشہور فنکاروں نے اپنے اعزازات بطور احتجاج واپس کر دیے ہیں جو ان کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم اپنا منتخب نمایندہ کہتے ہیں‘ جنہوں نے 5 سال کے لیے ہمارا خیال رکھنے کا حلف اٹھایا خواہ ان کا تعلق ریاست سے ہو یا مرکز سے۔ جو ہماری حفاظت کے وعدے پر انتخاب میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن جب لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ انھیں مضبوط ہاتھوں سے روک دینا چاہیے اور ان کے خلاف مضبوط الفاظ کے بیانات جاری کیے جانے چاہئیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی تیز رفتار ہونی چاہیے۔ جب ہم ایسا ہوتا دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر عدم تحفظ پروان چڑھتا ہے‘‘۔ یہ عامر خان کا بیان تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے عامر خان کے بیان کی سختی سے تردید کی گئی ہے جو کہ قابل فہم ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ عامر خان خود ڈرا ہوا نہیں بلکہ وہ لوگوں کو ڈرانا چاہتا ہے۔ بھارت نے اس کو ہر قسم کی عزت اور تکریم دی ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کو اسٹار بھارت نے بنایا۔ بی جے پی کے ترجمان شاہنواز نے متذکرہ خیالات کا اظہار کیا‘ دوسری طرف کانگریس کے نائب صدر نے اداکار عامر کی باتوں کی مکمل حمایت کی اور ساتھ میں تجویز پیش کی کہ مودی حکومت کو عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں۔

اس حوالے سے راہول گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ حکومت پر نکتہ چینی کرنیوالوں کو غیر محب وطن قرار دینے کے بجائے مودی حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخرعوام کی شکایات کی وجہ کیا ہے اور اس کا مداوا کیونکر ہو سکتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے ترجمان نے حسب معمول راہول گاندھی کے بیان کو حکومت کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیا۔

دوسری طرف پاکستان میں ہندو اور سکھوں کی تعداد بہت کم ہے جب کہ وہاں پر نسبتاً بڑی اقلیت عیسائیوں کی ہے جن کی طرف سے جبراً تبدیلی مذہب کی شکایت ملتی رہتی ہے۔ بھارتی نائب صدر کی باتوں کو رائیگاں نہیں خیال کرنا چاہیے کیونکہ انتخابات میں مذہب کو بنیاد بنایا جاتا ہے حالانکہ بھارت کے آئین کے مطابق اس ملک کا مذہب سیکولر ازم ہونا چاہیے لیکن بی جے پی کی طرف سے ہندوتوا کی ترویج سے سیکولر ازم پس پشت جا رہا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔